مصلحتوں کے لبادے میں کشمیر کی آزادی !
او آئی سی 57 مسلم ممالک کی اقوام متحدہ کے بعد سب سے بڑی تنظیم ہے،لیکن اس کے ممبر ممالک کے مابین جیسا اتحاد اور اتفاق ہونا چاہیے ،ایسا نظر نہیں آتا ہے۔ اس تنظیم کے کئی ممالک ایک دوسرے کی طرف بندوقیں تانے ہوئے ہیں، تاہم فلسطین اور کشمیر ایشوز پرکوئی اختلاف نہیں ،تمام ممالک انفرادی طور پر فلسطین اور کشمیر کاز کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ او آئی سی ممبر ممالک کے اول تو اختلافات ختم ہونے چاہئیں، اگر نہیں بھی ہوتے تو بھی مسئلہ کشمیر پر سخت موقف اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔اسلامی ممالک کی جانب بل خصوص بیان بازی‘ تنقید‘ تشویش اور مذمت سے کچھ نہیں ہورہا،
مقبوضہ وادی میں بھارت جس طرح چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کررہا ہے، بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے ،یہ خون ان لوگوں کے سر پر بھی ہے جو ظالم کا ہاتھ روک سکتے ہیں، مگر دنیا عالم مصلحتوں کا شکار ہے۔ او آئی سی کے رکن ممالک جب تک اپنی مصلحتوں کے لبادے نہیں اتارتے اور الحادی قوتوں کیخلاف نیک نیتی سے یکجا نہیں ہوتے ،او آئی سی کے اجلاس نشست وبرخاست اور مذمتی بیانات پر ہی منتج ہوتے رہیں گے اور عالمی برادری کو اپنے موقف پر قائل نہیں کر سکیں گے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ او آئی سی کے رکن ممالک کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر دیر سے ہی سہی سر فہرست آگیا ہے ،یہ پاکستان کی بھارت کے خلاف مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بڑی سفارتی فتح ہے ۔اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اجلاس میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد منظور کرلی گئی ،
او آئی سی نے بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کا اقدام مسترد کر تے ہوئے کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد بھی منظور کرلی ہے۔ اس قرارداد کے متن کے مطابق کشمیر تنازع 7 سے زائد دہائیوں سے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے، او آئی سی نے بھارت کے 5 اگست 2019 کے اقدامات مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ بھارت اپنے تمام غیرقانونی اقدامات واپس لے، بھارتی اقدامات سلامتی کونسل کی قراردادوں کی براہ راست توہین ہیں۔
اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارتی اقدامات کا مقصد استصواب رائے سمیت کشمیریوں کے دیگر حقوق چھیننا ہے،جموں وکشمیر میں کئے گئے تمام غیرقانونی یک طرفہ اقدامات واپس لئے جائیں اور بھارتی سرکار متنازعہ خطے میں آبادی کا موجودہ تناسب تبدیل کرنے کے ہرطرح کے اقدامات سے بازرہے۔ اس قرار داد میںبھارتی رویہ، بالا کوٹ سانحہ، ایل او سی، ورکنگ باؤنڈری پر جارحیت کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بھارت سفارتی میدان میں پا کستان کو شکست دینے کیلئے بھرپور انداز میں متحرک رہتا ہے ،مگر وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار اقوام متحدہ سے لے کر تمام پلیٹ فارم پرجس جاریحانہ انداز سے مسئلہ کشمیر اُجاگرکیا ،اس کے ثمرات نظر آنے لگے ہیں،بھارت اپنی سفارتی سازشون کے باوجود ناکام ہو رہا ہے ،
اس حوالے سے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کاکہنا بجا ہے کہ بھارت کے پاس کشمیر میں دکھانے کیلئے کچھ بھی نہیں، وہ مقبوضہ کشمیر میںصرف مظالم کی داستان ہی دکھاسکتے ہیں، دنیا کے سامنے بھارت خود بخودبے نقاب ہورہا ہے۔بھارت نے او آئی سی اجلاس سے قبل ہی پروپیگنڈہ کر نا شروع کردیا تھا کہ کشمیر ایجنڈے پر نہیں ہے،مگر دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ او آئی سی کے اجلاس میں نہ صر ف مسئلہ کشمیر پر قرارداد منظور کرلی ہے ،بلکہ بھارتی سر کار کے مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے تمام غیرقانونی یک طرفہ اقدامات واپس لینے کا بھی مطالبہ کیاہے۔۔
ملک میں اپوزیشن جماعتیں بھی حکومت پر کشمیر کی صورتحال پر موثر سفارت کاری نہ کرنے کا الزام لگارہی تھیں،مگر او آئی سی اجلاس میں مقبوضہ کشمیر سے متعلق قرارداد منظور ہو نے کے بعد واضح ہو گیا کہ حکومت کی سفارتی کائوشیں کا ر گر ثابت ہو رہی ہیں،تاہم محض مذمتی بیانات اور قراداوں کی منظوری سے مسئلہ کشمیر حل ہو نے والا نہیں ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ او آئی سی اجلاس میں کشمیر، فلسطین اور اسلامو فوبیا کے متعلق قراردادیں منظور کر بھی لے تو مظلوم خطوں کے عوام اور عالمی سطح پر جاری اسلاموفوبیا کی لہر پر کوئی خاص اثرات مرتب نہیں ہوں گے ،نہ ان قرارداوں کی منظوری سے کشمیر آزاد ہو گا نہ فلسطین کے مظلوم عوام کو اسرائیل کی غیر قانونی ریاست کے تسلط سے آزادی مل پائے گی اور نہ ہی مغربی دنیا کے انتہا پسند عناصر محسن انسانیتؐ کی شان اقدس میں گستاخیوں سے باز آ جائیں گے ،ماضی میں منظور کی گئیں قرار دادیں، اس امر کی گواہ ہیں کہ قوت نافذہ سے محروم یہ قرار دادیں قطعی غیر موثر اور بے کار ثابت ہوئی ہیں،
ایسی قراردادوں کی حیثیت اخلاقی دبائو سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی، جسے محسوس کرنے کے لیے بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک قطعی تیار نہیں ہیں،اس کا واحد عملی راستہ حال ہی میں آذربائی جان نے اسلامی دنیا کے مظلوموں کو دکھایا ہے کہ جراتمندانہ اقدام کے ذریعے آرمینیا کے زیر قبضہ نگورنو کارا باخ کا علاقہ بزور شمشیر آزاد کرا لیا ہے ۔آزادکشمیر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت کے نتیجے میں جہاد کے جرات مندانہ اقدام ہی کی برکت سے آزاد ہو سکا تھا، حالانکہ اس وقت پاکستان معرض وجود میں آیا تھا ،اس کے پاس فوج نہ اسلحہ اور نہ ہی معیشت مستحکم ہو ئی تھی، مگر قائد اعظم نے بے سرو سامانی کے عالم میں جذبہ جہاد سے ہی کامیابی حاصل کر لی تھی۔مسئلہ کشمیر مذمتی بیانات اور او آئی سی میںقرادار کی منظوری سے حل نہیں ہو گا ، مقبو ضہ کشمیر کی آزادی کیلئے مصلحتوں کے لبادے اُتارنا پڑیں گے۔