اس طرح تو کچھ نہیں بدلے گا۔۔ 112

روحانی طاقت ہی اصل طاقت ہے

روحانی طاقت ہی اصل طاقت ہے

تحریر:فرزانہ خورشید
اصل روحانی طاقت جو کہ اللہ تعالی کی محبت و عظمت بھرے تعلق سے ملتی ہے۔اگر اقلیت اس تعلق سے سرشار ہو تو اس کے سامنے اکثریت کی طاقت کچھ بھی نہیں۔اقلیت ہی غالب آتی ہے۔

اسلامی تاریخ ایسے عظیم الشان عالی ہمت، شجاعت و بہادری کے کارناموں سے بھری پڑی ہے
جہاں مُٹھی بھر مسلمانوں نے ہزاروں طاقتور لشکروں کی فوج کو عبرتناک شکست دی۔ کئی تاریخی جنگیں اس کی عظیم مثال ہیں۔حضرت علیؓ شیرِ خدا اورحضرت عمر فاروقؓ کی باطنی طاقت و بہادری ،عالی ہمت سے کہا جاتا ہے جنگل کے جانور تک لرزتے تھے۔ کیوں کہ ان کے دل خدا کی محبت میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے ،اس کی خوشنودی پانے اور ناراضگی کے ڈر سے زیادہ کچھ بھی انکےنزدیک ،اہم نہ تھا۔

مسلمان جو کافی عرصے تک پوری دنیا پر حکمران رہے، اس کے پیچھے بھی خدا تعالیٰ کا وہ حقیقی ربط تھا جس کی بنا پر وہ اکثریت کی پرواہ کیے بغیر لڑۓ اور خدا کی محبت اور اس کے خوف سے لبریز انکے دل، سارے خوفوں سے آزاد ،بے پرواہ تھے ۔فتوحات پر فتوحات حاصل کرتے چلے گئے نہ ہی جُھکے نہ ہی ڈرے،حق اور رب کی خاطر ڈٹے رہے، دشمنانِ اسلام ان کی اس، عظیم الشان طاقت سے خوف زدہ اور دہشت سے ان کے دل کانپتے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور تھے۔ جس کے بارے میں اقبال نے کہا
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا؟
کہ نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

خدا کی محبت اور اس سے ربط وتعلق وہ طاقتور ہتھیار ہے، اگر مسلمانوں کے پاس آج بھی یہ موجود ہو تو ہم جو شکستہ ہیں ،نہ رہیں بلکہ پھر پوری دنیا میں ہمارے ہی چرچے ہوں۔

مولانا رومؒ اقلیت کے سامنے اکثریت کی کمزوری اور ضعف کو چند مثالوں سے سمجھاتے ہیں کہ کس طرح جنگ میں مسلمانوں کی معمولی تعداد،اپنے سے کئی گنا بھاری تعداد پر قابو پالیتی تھی جیسے،‌

بے شمار ستارے روشن ہوتے ہیں لیکن ایک سورج طلوع ہو کر سب کو ماند کر دیتا ہے۔
بھیڑ اور بکریاں لاکھوں کی تعداد میں ہوں لیکن قصاب کے ایک چھرے کے سامنے اتنی بڑی اکثریت کی کوئی حیثیت نہیں۔
خیالات اور ظاہری اعضاء کی اکثریت پر نیند یکدم طاری ہو کر سب ختم کر دیتی ہے۔
جنگل میں لاکھوں بڑے بڑے سینگوں والے جانوروں پر ایک شیر کتنی دلیری سے حملہ کرتا ہے اور سب پر تنہا غالب آجاتا ہے جس جانور کو چاہتا ہے اپنی خوراک بنا لیتا ہے۔

یہی وہ روحانی باطنی طاقت تھی مسلمانوں کے پاس جو تعداد میں کم ہونے کے باوجود انہیں ناکام نہ کرسکی۔ اور “خدا تعالی کی محبت کی طاقت” جو انہیں نصیب تھی وہ ‏ کفار کو حاصل نہ تھی، لہٰذا اکثریت کے باوجود باطنی طاقت کی کمی نے انہیں ہرا دیا، اور وہ مغلوب ہو گئے۔

اس وقت تمام ضرورت سے بڑھ کر سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ہم خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں ،اکثریت کے خوف اور اپنی اقلیت کی پروا نہ کرتے ہوئے آگے بڑھیں، اس طاقت کو حاصل کرنے کی کوشیش و جستجو کریں جو کہ مومن کی پہچان ہے، جو کہ اپنے خالق و مالک سے ہونا چاہیے جس کے بغیر عظمت کا حصول ایک خواب ہے، جس کی اگر دل میں تمنا آرزو اور اس کے لیے جہد نہ کی جائے تواس کا حصول مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ خدا تعالی کی محبت ،حقیقی تڑپ ،جس دل میں بیدار ہو جائے وہی عظمتوں کی بلندی کو چھو لیتا ہے ،بھلے دنیا نہ ملے مگر آخرت میں سرخرو ہوتا ہے، یہی وہ چاہ تھی ،جو صحابہ کرامؓ اور تابعین پانے کے لئے بےچین رہتے تھے۔

خدا سے ربط جس کا مضبوط ہو جائے وہ نا امید مایوس خوفزدہ نہیں ہوتا،مصائب اسے تھکاتے نہیں، وہ رکتا نہیں ہے ،بلکہ اس کی امید، خوشی صرف اور صرف اپنے رب کی رضا ہوتی ہے ،اسکی یاد سے اپنے دل کو منور کرتا،اوراسکے ذکر سے اپنی روح کو طاقت بخشتا ہے،اس کی رضا پر راضی اور ناراضگی کو اپنی ناپسند بنا کر،اسکا خوف ہر گھڑی اس پر طاری رہتا ہے ،وہ ڈرتا ہے کہ اس کی کسی حرکت سے وہ خفا نہ ہو جائے ،اس سے یہ تعلق چھین نہ لیا جاۓ، اپنی ہر خوشی قربان اور اس کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے سے ذرا دریغ نہیں کرتا ،پھر خدا تعالی اپنی محبت اسے عنایت کرتا ہے اور اپنی محبت سے اس کا دل مزین کر دیتا ہے پھر اسے وہ طاقت حاصل ہوجاتی ہے جب اسے اپنے رب کے سوا کسی کا ڈر ہوتا ہے نہ خوف ،جیتا ہے تو اس کے لیے جان بھی اگر دینی پڑے تو اسی پر بخوشی نثار کر دیتا ہے۔

بدقسمتی سے ہم اس تعلق سے محروم ہیں اور افسوس اس پر کہ، اسے پانے کی اصل تڑپ بھی نہیں ہے بلندی چاہتے ہیں، عظمت چاہتے ہیں، بے خوف اور نڈر ،غموں سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، مگر اس کو حاصل کرنے کا جو راستہ ہے اسے چھوڑ کر منہ موڑ کر مخالف سمت پر اپنی محنتیں وار کر اسے ضائع کر رہے ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کے دل میں اس سے تعلق کی جستجو و تڑپ پیدا کر کے اصل روحانی طاقت جو کہ اللہ عزوجل کی محبت سے حاصل ہوتی ہے ہمارا نصیب بنادے آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں