اس طرح تو کچھ نہیں بدلے گا۔۔ 128

خود کو اپنے مقام سے نہ گرائیں

خود کو اپنے مقام سے نہ گرائیں

تحریر:فرزانہ خورشید
جو نیکی خالص اللہ کے لیے کی جائے اس کا صلہ ،پھر بندوں سے لینے کی امید دل میں نہیں رہتی اگر بندوں سے بھی مل جائے تو غنیمت، مگر یہ یقین تو ہونا چاہیے کہ اللہ کبھی کسی نیکی کو رائیگاں نہیں کرتا، اگر آپ کسی پر احسان کریں اور اس شخص سے پھر ویسا ہی بدل چاہیں، اور توقعات پوری نہ ہونے پر کی جانے والی نیکی سے ہی دست بردار ہو جائیں، بالکل وہی رویہ اختیار کر لیں جو آپ کو ناگوار گزرا، آپکا دل دُکھا ہو اور جتنا برا سامنے والا ہو ویسا ہی بن جائیں، وہی سب برتنا شروع کر دیں جو آپکے بقول اسے نہیں کرنا چاھیئے تھا، اس کے مقام تک خود کو گرا کہ بصورتِ انتقام دل کو قرار دینا چاھیں،تو ایسا ناممکن ہے، کبھی بھی بدلہ لے کر سبق سیکھانے کی خاطر برا کر کے آپکے دل کو قرار نہیں مل سکتا ، اور بدی سے کبھی بدی مٹتی بھی نہیں ہے۔مگر یہ ضرور ہوا اور ایسا ہوتا بھی ہے اور آپ نے مشاہدہ بھی یقیناًکیا ہوگا،
کہ اچھائیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں جو نہ بدلنے والا بھی ہو تو اگر، اللہ کا حکم ہوا تو آپکے حسنِ عمل سےوہ بدل بھی سکتا ہے، لیکن بدی سے کوئی تبدیل نہیں ہو سکتا ہے،ہاں مزید بددل ہوجاتا رنجشیں بڑھتی ہیں ،تعلقات خراب ہوتے اور رشتے بچھڑ جاتے ،سکون چھین جاتا اور ہمیشہ ہی کے لیے آپ دل سے اتر جاتے ہیں۔

آپکی ہمدردی، خلوص، محبت،احسان اور خیر خواہی کا جواب نہ ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تو ہوسکتی ہے کہ جہاں تک آپ پہنچے ہو سکتا ہے سامنے والا اس مقام تک نہ پہنچا ہو ،جو بات جس انداز سے آپ سمجھ رہے ہیں اور جیسے سمجھ رہے ہیں ضروری نہیں کہ وہ بھی وہی سوچ ،نظریہ، فلسفہ اور وہی نگاہِ بصیرت اور سمجھ رکھتا ہو۔
نیکی،ایثار، ہمدردی اور احسان کا جذبہ اگر خدا نے آپ کو عنایت کیا تو کیا ضروری ہے کہ دوسروں کو بھی یہ نعمت میسر ہو۔ میں نے مانا کہ جب انسان احسان کرتا ہے تو خواہش تو ہوتی ہے کہ وہ بھی آپ کے ساتھ زیادہ اچھا نہ سہی مگر بالکل ویسا ہی تو کرے ،مگر برا نہ کرے۔ مگر صورتحال عموماً اس کے برعکس ہوتی ہے۔ واصف علی واصف فرماتے ہیں” افضل احسان وہ ہے جو جس پر کیا جاۓ اسے خبر بھی نہ ہو۔” کچھ محنت کے صلےہمیں فوری نہیں دیکھتے بعد میں بھی ملتے ہیں۔ مگر رائیگاں نہیں جاتے کیونکہ اللہ بہترین قدر دان ہے نیت پر بھی جب وہ قیمت دے دیتا ہے، تو ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ آپ کے خلوص جذبے اور محنت کو ضائع جانے دے بس صبر ضروری ہے۔

صبر جو کہ مشکل سے ہوتا ہے اور
اور اس وقت تو اور بھی ناممکن ہو جاتا ہے جب کوئی آپکے احسان کی بے قدری کرےاور آپکے خلوص کو ٹھکرا دے، آپ کی محنتوں کو ضائع کردے ، تو یہ دیکھ کر ہم آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور جتنا اچھا کیا ہوتا ہے جذباتیت اور غصے کے بہاؤ میں اس سے بھی برا کر جاتے یا بدلے کی آگ میں جل کر بدلہ لینے کا عہد کر ڈالتے ہیں۔

تو گزارش یہ کہ لوگوں کے رویوں سے دلبرداشتہ ہو کر نیکی کی عادت کو ہرگز نہ چھوڑیں،” نیکی کی توفیق اللہ عزوجل کی جانب سے ہے” خود پر توفیق کے دروازے بند نہ کریں۔۔ جو دل بدقسمتی سے خیر سے محروم ہو ،برائی کے ذریعےاسے کیا سمجھااور سیکھا پائیں گے آپ۔ مگرخود لذتِ خیر سے آشنا ہو کر بھی انجان بن جائیں، یہ کہی کر پیچھے ہٹ جائیں ، کہ “میں نے بہت کیا مگر اب ہمت نہیں”. یا “یہ قابل ہی نہیں” تو آپ کی یہ کی جانے والی نیکی اپنے رب کی رضا کے لئے تو ہرگز نہیں تھی۔ ورنہ اس کی رضا کی طلب اگر سچی ہو تو وہ آخری سانس تک جاری رہے گی۔ اور مقصدِ زندگی بھی یہی ہے کہ رب راضی ہو جاۓ اس کی رضا ہمارا نصیب بن جاۓ، صلہ اسی سے لینا ہے اور وہی دے گا۔

صلہ رحمی تو اصل یہی ہے کہ جوآپ کے ساتھ توڑے آپ اس کے ساتھ جوڑو۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے “صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جاۓ تو وہ صلح رحمی کرے”.

ہمارے آقا رسولﷺ نے اپنے جانی دشمنوں کی بد اخلاقی کا جواب بھی خوش اخلاقی سے دیا اور ہمیں بھی یہ حکم ملا کہ نرمی اختیار کرو۔ بدترین کے ساتھ بھی اخلاق کی رسی اور نرمی کو نہ چھوڑو،بقول قاسم علی شاہ صاحب “اچھے کے ساتھ تو سبھی اچھے رہتے ہیں مگر کمال تو یہ ہے کہ برے کے سامنے بھی برا نہ بنا جاۓ”۔

اگر آپ کو نیکی والا دل اور انسانیت سے ہمدردی کا احساس ملا ہے تو یہ عالی مقام اور خدا کی خاص عطا ہے جسے وہ چاہتا ہے اس کے دل کو انسانیت کے جذبے سے سرشار کر کے خدمت کا موقع دیتا ہے۔اس عطا کو بندوں کے طرز عمل اور رویئے کی بنا پر ضائع نہ کریں، خود کو اپنے مقام اور مرتبے سے نیچے گرنے نہ دیں ،نیکی کو نہ چھوڑیں، صرف اپنے رب کی خاطر اس کا حکم جان کر صلہ رحمی کی کوشش کو جاری وساری رکھیں ،اللہ ہمیں صلہ رحمی کی توفیق عطا فرمائے اور انسانیت کی خدمت کا موقع اور اسے جاری رکھنے کی توفیق سےکبھی محروم نہ کرے آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں