’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘ 123

’ایمبولینس کا ہارن بجانے کی سزا

’ایمبولینس کا ہارن بجانے کی سزا

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
پاکستان وہ ملک ہے جہاں جمہوریت ہو یا عسکری دور، ہر دور میں ملک میں افسر شاہی جسے بیوروکریسی کہتے ہیں کا راج ہوتا ہے، جو اس ملک میں سیاہ و سفید کی مالک ہے، بزرگ کہا کرتے تھے کہ گھوڑے کی پچھاڑی اور افسر کی اگاڑی سے بچنا چاہئے، کوئی پتہ نہیں گھوڑا عقب سے لات مار دے اور افسر کوئی ایسا حکم صادر فرما دے جو سامنے سے گزرنے والے کے لئے ہمیشہ کیلئے نقصان دہ ہو کر رہ جائے، پاکستان میں بیوروکریسی اتنی طاقتور ہے کہ سیاستدانوں کو بھی چکر دے کر رکھتی ہے، افسر شاہی جو چاہے اس ملک میں حکمرانوں سے منوا سکتی ہے سچ تو یہ ہے

کہ ہر دور میں حکومتیں بنانے میں افسر شاہی کا اہم کردار رہا ہے، 4 دسمبر کی بات ہے کہ ایبٹ آباد پریس کلب کے نائب صدر نے سرگودھا کے صحافی شہزاد شیرازی کو فون کیا کہ ایبٹ آباد کا ایک ایمبولینس ڈرائیور آپ کے ضلع میں ڈیڈ باڈی لے کر گیا تھا پولیس نے اسے تھانہ کینٹ میں بغیر کسی مقدمہ کے بند کر دیا ہے، فون کرنے والے صحافی ساتھی کا کہنا تھا کہ ایمبو لینس ڈرائیور کے گھر والوں کے اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ سرگودھا آ کر ڈرائیور کو چھڑوا سکیں، جس پر سرگودھا کے صحافی دوست نے ایس ایچ او کینٹ کو فون کیا تو موصوف نے انہیں بتایا کہ گاڑی تھانہ ساجد شہید میں بند ہے،

جس پر معلومات لی گئیں تو پتہ چلا کہ ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی والوں نے یہ ایمبو لینس بند کروائی ہے، ڈرائیور موصوف کا جرم یہ ہے کہ خاتون کمشنر سرگودھا شاہپور کے دورہ پر تھیں کہ ایمبولینس کے ڈرائیور نے کمشنر سرگودھا کی گاڑی کو ہارن دے کر گاڑی کراس کی، جس کا ڈویژنل کمشنر نے برا منایا اور ماتحت افسران کو حکم دے کر گاڑی تھانہ میں بند کروا دی، ڈرائیور کا ہارن بجا کر گاڑی کراس کرنا اتنا بڑا جرم تھا کہ گاڑی اور ڈرائیور تین دن سے تھانہ ساجد شہید میں بند تھے، جس پر صحافی موصوف نے سیکرٹری آر ٹی اے اور ٹریفک پولیس کے ذمہ داران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی

تو سیکرٹری آر ٹی اے کا فون مسلسل آف تھا، جبکہ ڈی ایس پی ٹریفک نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ جرمانہ یا چالان کر سکتے ہیں، ایمبولینس ٹریفک پولیس نے بند نہیں کی،صحافی ساتھی نے یہ سوچ کر کہ ڈرائیور کو تین دن ہو گئے ہیں کہ وہ حوالات میں بند ہے ، صحافی دوست نے خاتون کمشنر سرگودھا سے فون پر رابطہ کیا تو فون کمشنر کی بجائے کسی مرد نے اٹینڈ کیا، جس پر صحافی دوست نے اپنا تعارف کرایا اور انہیں ایک غریب کا مسئلہ بیان کرنا چاہا تو فون اٹینڈ کرنے والے نے ناگواری کا اظہار کیا اور پوچھا دیکھیں ٹائم کیا ہوا ہے جس پر صحافی دوست نے انہیں بتایا

کہ ابھی رات کے 10 بجے ہیں، تو موصوف نے کہا کہ یہ کونسا وقت ہے کمشنر سے بات کرنے کا؟ جس پر صحافی ساتھی نے انہیں کہا کہ کمشنر تو 24 گھنٹے کمشنر ہوتا ہے مگر کسی غریب کو ریلیف دینے کیلئے آپ وقت پوچھنا شروع کر دیتے ہیں، جس پر کمشنر سرگودھا کا فون اٹینڈ کرنے والے شخص نے بیوروکریسی کا سا رویہ اپناتے ہوئے فون بند کر دیا، جس پر صحافی ساتھی نے انہیں واٹس ایپ پر میسج کیا کہ کمشنر صاحبہ خود پڑھ لیں گی اور اس غریب ڈرائیور کو چھوڑنے کا حکم بھی دے دیں گی کیونکہ تین دن گزر چکے ہیں اور کمشنر صاحبہ کا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا ہو گا

۔ صبح اٹھ کر صحافی ساتھی نے دوبارہ پتہ کیا تو دوسرے دن 10 بجے بھی ڈرائیور حوالات میں تھا، جس پر افسوس ہوا کہ ڈرائیور کو ایک اور رات حوالات میں آ گئی ہے، جس پر سرگودھا کے صحافی ساتھی نے سیکرٹری آر ٹی اے سے رابطہ کیا تو موصوف نے لاعلمی کا اظہار کیا، جبکہ دیگر ذرائع اور اداروں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایمبولینس اور ڈرائیور کو کمشنر سرگودھا کے کہنے پر تھانہ میں بند کیا گیا ہے، یہ خبر ٹی وی چینلز پر نشر ہوئی تو اس غریب ڈرائیور کی جان بخشی ہو گئی، قابل توجہ امر یہ ہے کہ بیوروکریسی میں اچھی شہرت کے حامل سیکرٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کی جانب سے سرکاری طور پر تردید جاری کی گئی کہ ایبٹ آباد سے براستہ خوشاب سرگودھا آنے والی ایمبولینس 1202-JF گاڑی ہائی ایس 15 سیٹر رجسٹرڈ تھی، جسے ایمبولینس کے طور پر استعمال کر کے قانون شکنی کی گئی، جس پر گاڑی تھانہ میں بند کی گئی،

وضاحت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس اور ٹرانسپورٹ انتظامیہ نے ڈرائیور کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے اسے معمولی جرمانہ کیا ہے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیکرٹری آر ٹی اے صاحب پہلے تو آپ کو معاملے کا ہی علم نہیں تھا، سو یہ آپ کی مجبوری ہو گی، اگر واقعی ایسا تھا تو ڈرائیور سے پہلے دن ہی حسن سلوک برت کر اسے معمولی جرمانہ کر کے چھوڑ دیا جاتا، کیا چار دن تک ڈرائیور کو حوالات میں حبس بے جا میں رکھنا حسن سلوک ہے تو خدارا آئندہ ایسا حسن سلوک کسی نہ کیجئے گا کیونکہ آپ صاحب اختیار ہیں اگر ایسا ہی حسن سلوک کرتے رہے تو آئندہ کوئی ایمبولینس ڈرائیور دوسرے شہر سے کسی کی میت سرگودھا لے کر نہیں آئے گا؟ دوسری طرف ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ سرگودھا میں ناروا رویہ پر ایبٹ آبا دکے ایمبولینس ڈرائیوروں میں اضطراب پایا جا رہا تھا جونہی سرگودھا سے ایمبولینس ڈرائیور ایبٹ آباد پہنچا تو ایبٹ آباد کے

ایمبولینس ڈرائیوروں نے خاتون کمشنر سرگودھا کے خلاف ایبٹ آباد کے اہم چوکوں میں سائرن بجا کر احتجاج کیا اور آزاد کشمیر حکومت کی وساطت سے وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار سے مطالبہ کیا کہ سرگودھا میں ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی اعلی سطح پر تحقیقات کروائی جائے اور ایمبولینس ڈرائیور کے ساتھ نا مناسب رویہ اپنانے والے ذمہ دار افسران کیخلاف وزیر اعظم اپنے اس اعلان کے مطابق کہ اب کرپشن یا زیادتی کرنے والا کوئی افسر معطل ہونے کی بجائے نوکری سے برطرف ہو گا کارروائی عمل میں لائی جائے، ورنہ ایبٹ آباد میں ہر اتوار کمشنر سرگودھا کے خلاف ایمبولینسز ڈرائیور سائرن بجا کر احتجاج کرا کر حکمرانوں کو باور کراتے رہیں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم پاکستان اپنے اعلان کے مطابق سرگودھا کے اس واقعہ جس کا شور اب سرگودھا سے اٹھ کر ایبٹ آباد کی سڑکوں پر گونج رہا ہے کی اعلی سطح پر تحقیقات کروائیں گے یا پھر ایبٹ آباد کے ڈرائیور یونہی سائرن بجا کر شاہرائوں پر احتجاج کرتے رہیں گے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں