خوش مز اجی کادوسرا نام محمد بوٹا شاکر 246

خوش مز اجی کادوسرا نام محمد بوٹا شاکر

خوش مز اجی کادوسرا نام محمد بوٹا شاکر

شاعر محقق،، نثر نگار،مزاح نگار،کالم نویس،صحافت اور حکمت کے علاوہ عملی زندگی میں خوش مز اجی کا دوسرا نام محمد بوٹا شاکر ہے.میری ملاقات موصوف سے عرصہ 8 سال قبل پنجاب کے ضلع لیہ کی پسماندہ ترین تحصیل چو بارہ کے دور اقنادہ گاؤں رفیق آباد میں ہوئی ۔بندہ نا چیز چونکہ شاعری میں شفف رکھتا ہے لہذا اسی حس کی تسکین کیلئے ملاقاتون کا سلسلہ مستحکم اور مضبوط ہوتا گیا۔بہت کچھ سیکھنے کو ملا ،زندگی میںنئے نئے تجربات کا اضافہ روز کا معمول بنتا گیا اور میرا رشتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط و مستحکم ہوتا چلا گیا۔میں دل و جان سے ان کی قدر کرتا ہوں، میرے لیے ان کا دست شفقت سائبان کی طرح ہمہ وقت موجود ہے۔میرے لیے باعث فخر بات یہ ہے کے وہ مجھے اپنا شاگرد تسلیم کرتے ہیں۔آج مجھے وقت نے ایک مقام عطا کیا ہے، تو اللہ کی مہربانی اور رحمت کا صدقہ میں کئی اخبارات،روذنامے اور ادبی جرائد کا مدیراعلی ہوں۔ سب سے پہلے میں نے جواپنافریضہ سمجھاو وہ یہ کہ میں اس شحضت کے بارے میں قلم کشائی کروں جن کی دوعاؤں کی بدولت آج میں اس مقام پر ہوں۔
محمد بوٹا شاکر کا جنم 1975 میں ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادوکے ایک چک

116/MLلاہوریاں والا میںہوا۔جہاں پرانہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔بعد میں ان کے آباواجداد ضلع قصور جا بسے چونکہ وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے قصور شہر پاکستان آئے تھے۔جہاں سے وہ تھل کے ریگزاروں میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد واپس اسی شہر چلے گے۔بابابلھے شاہ کی نگری قصور میں شاکر صاحب نے میٹرک،انٹر اور پھر گریجویشن کیا۔پنجابی مادری زبان تھی اور تعلیم بھی اسی مضمون میں حاصل کی۔
پہلے پہل وہ مدرس کے شعبہ کو اپنائے رہے لیکن بعدازاں حکمت و صحافت سے وابستہ ہو گئے۔قصور شہر میں رہتے ہوے انہیں مالی مشکلات کا سامنا رہا اوریوں عرصہ دس سال بعد پھر ایک مرتبہ جنوبی پنجاب کے ریگزاروں میں آ بسے۔
یہ مختصر سا تعارف ان کی زندگی کے بارے میں ضروری تھا۔ میرا اصل مقصد ا نکی شاعری،شخصیت اور ادبی کاوشوں کے بارے میں مفصل تحریر کرنا ہے۔شاعری سے ان کو بچپن سے لگاؤ تھا۔مختلف اساتذہ اور راہنماؤں سے ان کی ملاقات ہوتی رہی۔مشاعروں میں آنا جانا معمول رہا۔ایک نئے علاقے میں پہچان بننا

اتنا آسان کام نہ تھا لیکن وہ جس جگہ ایک مرتبہ گئے ان مٹ نقوس چھوڑ کر آئے۔
2010 میں پہلی مرتبہ ان کی مزاحیہ شاعری کی کتاب ”ونگ تڑنگے راہ” پنجابی مرکز لاہور نے شائع کی۔ان کے پنجابی مزاحیہ کلام نے دھوم مچا دی۔ مزاح سے بھرپور سبق آموز نظموں کی گونج ہر مشاعرے میں آنے لگی۔ان کی نظمیں اور ایک ایک شعر ان کی پہچان بنتا گیا۔اکثر شعراء کو ان کی نظمیں یا پھر ایک دو مشہور شعر زبانی یاد ہیں۔یہاںمیں چند ایک شعر تحریر کرونگاـ:
ہن تے ہرکہانی وگڑی فردی اے
تند نئیںساری تانی وگڑی فردی اے
پیو پتر دی اک دوجے نال بندی نئیں
وڈی کاکی اماں دی گل من دی نئیں
ہربابے نال بابا رسیافردااے
گل خان نال پٹھانی وگڑی فردی اے
تند نئیںساری تانی وگڑی فردی اے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے دیس دیا ںکیا باتاں نئیں
چٹے دن وی کالیاں راتاں نئیں
اس دیس دی شان نرالی اے
اج گھر گھر وچ خوشحالی اے
ہرچیز جہان توں سستی اے
پربندہ جیب توں خالی اے
جنہوں ہربندہ نہ سمجھ سکے
اس دیس دیاں کراماتاں نئیں
میرے دیس دیا ںکیا باتاں نئیں
چٹے دن وی کالیاں راتاں نئیں

خواب،مولوی نامہ،میرے دیس دیاں کیا باتاںنئیں،چورا ای چور، وگڑی تانی اور بہت سی دلچسپ اور منفرد منظوم اس تصنیف کا حصہ ہیں۔اس کتاب پر حکومت پاکستان نے اس سال چالیس ہزار مالیت کی رقم بطور انعام بھی دی۔تقریبا ستر اسی جرائیداوررسائل،اخبارات میں بارہا یہ کلام پبلش ہو چکا
ہے ۔جن کے نام تحریر کروں اور تفصیل لکھوں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔بہرحال پنجابی کلام شاکر صاحب کی اصل پہچان بنا، پلاک لاہور۔اور پنجاب یونیورسٹی لاہور نے اس کتاب پر مضامین لکھوائے ہندوستان میں(چندی گڑھ یونیورسٹی )میں پنجاب یونیورسٹی لاہور (نبیلہ رحمن) صاحبہ چئیرپرسن شعبہ پنجابی نے اپنی تصنیف میں احوال لکھا ہے۔
اب آتے ہیں اردو کلام کی طرف مذکوزہ بالا کتاب کے دوسال بعد 2012ء میں لاہور ہی کے ایک ادارے مہک انٹرنیشنل نے ان کی دوسری تصنیف (معصوم تبسم) کو پبلش کیا جس میں پہلی پنجابی تصنیف کے بلکل برعکس اردو شاعری انتہائی سنجیدہ کلام ہے۔یوں اردو کلام بھی منظر عام پر آگیا۔جسے حلقہ ادب نے خواب سراہا۔ چند اشعار اردو؛
•شب ستاروں سے جگماتی ہے،
چاند اس کو نکھار دیتا ہے،
ایک لقمہ حلال روٹی کا،
زندگی سنوار دیتا ہے۔
•انسان حقیقت کا ہمدم،
نادان قضا ء پہ روتا ہے،
سچ جان کے جو انجان رہے،
دراصل وہ کافر ہوتا ہے۔

اگر شاکر صاحب کی شحضیت کے بارے میں بات کی جائے تو یقین جانیں غموں سے چور اور اداس آدمی صرف دس منٹ ان کی صحبت میں گزارے تو طبیعت باغ باغ ہو جائے گی۔ہر بات کا فی البدع جواب ہر شعر کوفی الفور مزاح میں ڈھال دینا۔اور وہ بھی اوزان و بحر میں مکمل اور مربوط ۔میں اگر ان کی ذاتی
زندگی کی مشکلات کا ذکر کروں تو قاری سششدررہ جائیں گے ۔لیکن کبھی ان کی زباں سے شکوہ نہیںسنا۔
ادبی حلقوں میں میں نے جس جان پہچان والے سے ان کا نام لیا تقربیا لوگ انہیں نام سے ضرور پہچانتے ہیں۔حالیہ دنوں مجھ پر ایک اور راز افشاں ہوا ہے کہ اب جو ان کی تصنیف منظر عام پر آنے والی ہے وہ انگریزی میں ہے جس کا نام ہے(pensive sound)۔ان کی تصانیف کی فہرست کچھ یوں ہے۔
1:معصوم تبسم اردو شاعری
2:ونگ تڑنگے راہ پنجابی مزاحیہ شاعری
3:pensive sound انگریزی شاعری۔
ڈھول ڈھمکا۔مزاحیہ پنجابی شاعری۔
سجرے سر پنجاب دے گیت،
خوش نصیب ناولسٹ
آخر میں ان کی پنجابی غزل کا ایک شعر تحریر کرتے ہوے مضمون کا اختتام کرونگا۔اللہ تبارک و تعالی انکی عمر دراز فرمائے اور ادبی سفر جاری رکھنے کی توفیق دے۔آمین

سانوں عادت عشق نمازاں دی
نئیںسوچیاڈبدے ترنیںآں
سرسجدے رکھ کے چکدے نئیں
اسیں انج دی پوجا کرنیں آں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں