علی تعلیم ہی میں معاشرے کی ترقی مضمر ہوتی ہے 138

تفریح طبع سامانی مہیا کروانا وقت کی اہم ضرورت

تفریح طبع سامانی مہیا کروانا وقت کی اہم ضرورت

انسانی جبلت میں تفریح طبع سامانی کے مواقع کی تلاش ہمہ وقت رہتی ہے اور جس معاشرہ میں جائز طریقہ والے تفریح طبع مواقع موجود نہ ہوں وہاں غیر شرعی تفریح طبع لوازمات جڑ پکڑنے لگتے ہیں ستم ظریفی زمانہ، ستر اسی کے دیے کا پکنک اسپوٹ مشہور مصباح جالی بیچ آج کسم و پرسی کا شکار یہی تو قدرت کا نیم قانون ہے کہ ہر چیز زوال پذیر ہونی ہے سوائے اعمال صالح کے ہر چیز بھلا دی جاتی ہے۔ وہ نیک اعمال ہی ہیں جو زمانہ کے گرداب میں بھی لوگ یاد رکھا کرتے ہیں۔ ستر اسی کے دیے قبل کا بچپن کا وہ زمانہ، باد بہاراں خلیج کے پیٹرو ڈالر کی جھنکار، ابھی پرسکون فضاء،

بھٹکل و اطراف بھٹکل کو مرتعش نہ کر پائی تھی۔ ہمارے آل عرب آباء و اجداد تجار اہل نائط کا،ہزار بارہ سو سال قبل کا سکونت کردہ بھٹکل و اطراف بھٹکل کاساحل سمندر، پرسکون رہائشی مستقر، پورا سال بیرون بھٹکل بھارت کے مستقل تجارتی مقامات کیرالہ، آندھرا پردیش،ٹمل ناڈو، مہاراشٹرا اور دوردراز بھارت کے کلکتہ کی منڈیوں کی مصروفیات اور بیرون بھارت سری لنکا سیلون، پاکستان کراچی اور یمن عدن وغیرھم سے تجارتی روابط رکھے، کئی کئی بادبانی جہازوں کے مالک تجار بھٹکل نے، ہمیشہ اپنے وقتی تجارتی مستقر کو، صرف تجارت کی حد تک مرکوز رکھا تھا

اور سال کے اواخر تعطیلات، پیدائشی وطن بھٹکل ہی کو اپنے مستقل مسکن کی طرح آباد رکھاہوا تھا۔ یہاں وسط شہر اپنے مستقل رہنے کے لئے وسیع و عریض کوٹھیوں کے علاوہ، ساحل سمندر وقتی پرسکون توضیع وقت رہائش کے لئے بھی سمندر کنارے ناریل کے باغات میں کوٹھی تعمیر کر، اپنے ذہنی کوفت ازالے کا اہتمام کئے جینے کے گویا زمانہ قدیم سے آل نائط عادی تھے۔ آج کے پیٹرو ڈالر سے سرشار عرب قبائل میں توضیع اوقات “حافلات بر” منانے کا زمانہ قدیم کا رواج، ہم اہل عرب ساکن بھٹکل میں بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی حد تک زمانہ قدیم سے موجود تھا۔

کچھ مہینوں کی تجارتی کوفت کے ازالے کے لئے اور اپنے ذہنی تفریح طبع سامانی کے لئے، سال میں ایک یا دو مرتبہ نہایت سرد و گرم موسم میں، اپنے گھروں سے دور صحراؤں کے درمیان خیمہ زن عرب قبائل، زمانہ قدیم سے، اس “حافلات بر” یا پکنک کو، اپنے ذہنی کوفت سے ماورائیت کا اصل ذریعہ یا منبع پاتے تھے۔ عام عرب قبائل ہی نہیں، شاہان حرمین شریفین بھی سال میں ایک مرتبہ کچھ دنوں کی ایسی “حافلات بر” پکنک کو اپنے ذہنی سکون کے لئے ضروری سمجھتے ہیں۔

ہمیں یاد پڑتا ہے 67 کی عرب اسرائیل جنگ دوران صاحب امریکہ نے جس طرح عربوں کے خلاف اسرائیل کی کھل کر مدد کی تھی اس سے ناراض، اس وقت کے شاہ سعودی عرب، ملک فیصل بن سعود نے، یورپ و امریکہ بھیجے جانے والے پیٹرول پر پابندی لگانے کی بات کہی تھی تو اسوقت امریکی وزیر خارجہ کسنجر، عالم طیش میں شاہان سعودی عرب کو ڈرانے مملکت جب پہنچے تھے تو، شاہ سعودی عرب کو دارالخلافہ ریاض و جدہ نہ پانے کے بعد، شاہ سعودیہ سے ملاقات کے لئے، کئی گھنٹوں کے سفر اونٹ کوہان پکڑے ہچکولے کھاتے، اپنے پورے بدن کی ہڈیوں کی چرمراہٹ کو محسوس کرتے،

 بیج صحرا “حافلات البر” ملک فیصل کے روبرو جب پہنچے تھے تو،آداب مجلس بادشاہی یا دو ملکی سفارتی اقدار (پروٹوکول) کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، یورپ و امریکہ پیٹرول ترسیل روکے جانے پر تیل کے کنوؤں کو آگ زد کر تباہ و برباد کرنے کی دبی زبان دی ہوئی امریکی دھمکی پر بھی، شاہ فیصل نے، جس سکون و طمانیت ایمانی سے،اس وقت کسنجر کو اپنا جواب دیا تھا وہ یقینا ان حکمران مسیحی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ ابھی کچھ لحظوں قبل کسنجر کو پیش کئے گئے تازہ اونٹ و بکری دودھ اور تازہ نیم کچی نیم پکی رطب کھجوریں اور کھانے میں اونٹ و بکری کا گوشت، شاہ فیصل کا

اس وقت حافلات البر والا وہ تاریخی جملہ آج بھی کسنجر کی مسیحی اولادوں کے کانوں میں ارتعاش بے ہنگم پیدا کر ان میں سراسیمگی پیدا کرتا ہوگا۔اس وقت کسنجر کی اس دھمکی پر کہ یورپ و امریکہ سے آنکھیں دکھانے یا لڑانے کی پاداش میں تیل کے کنوؤں کو آگ زد تباہ کرنے کی دھمکی پر کس شان نیازی سے شاہ فیصل نے کہا تھا کہ “ہم تو پیٹرول آمدنی کے بغیر اونٹ بکری دودھ اور کھجور، اونٹ، بکری گوشت کھاکر گزر بسر کرلینگے لیکن کیا ویسٹ امریکہ و یورپین ممالک بغیر عربوں والے پیٹرول کیسے جی پائیں گے”؟ یہ اور بات ہے کہ اس وقت ہزیمت زد امریکن وزیر خارجہ کسنجر معاملہ فہمی سے مسئلہ کرواتا ہے اور شاہ فیصل کی دور رس نگاہ ہی کے سب آل سعود میں غدار تلاش کر انہی کے بھتیجے کے ہاتھوں شاہ فیصل کو راستے سے ہٹوا دیا جاتا ہے

یہ وہی اہل عرب کے حافلہ البر ٹھنڈ و گرم موسم میں گھر سے دور کسی مخصوص جگہ تفریحا” توضیع وقت گزارنے کا عمل، عرب ممالک سے ہزاروں کلومیٹر دور جنوب ہندستان میں ہزار بارہ سو سال قبل سےمستقل سکونت پذیر ہم اہل عرب اہل نائط قوم نے، سال میں ایک دو مرتبہ ساحل سمندر پر تفریحا کچھ وقت گزارنے کے لئے، وسیع و عریض ناریل کے باغات اور ان میں اس زمانے کے اعتبار سے عالیشان کوٹھیاں تعمیر کر رکھی ہوئی تھیں۔ جہاں پر ان روساء کے علاوہ عام عوائل بھی تفریحا جاکر پکنک منایا کرتے تھے۔

ہمیں یاد پڑتا ہے شہر بھٹکل کے ساحل سمندر پہاڑی پر انگریزوں کے زمانے کے تعمیر مشہور لائٹ ہاؤس کی پہاڑی نصف ڈھلان پر، اس وقت انگریزوں کی بنائی کوٹھی اہل نائط کے اس وقت کے مملکت سعودیہ کے تاجر اسماعیجلی خاندان کی ملکیت تھی ہمارے بجپن میں اس کوٹھی میں پکنک توضیع اوقات کی یادیں ابھی تک ہمیں مسحور کئے رہتی ہیں۔ پتہ چلا اسی کے دیے سے قبل اس وقت وہ شان بھٹکل کوٹھی، انہوں نے کسی ہندو تاجر کو بیج دی تھی۔
اسی لائیٹ ہاؤس والی پہاڑی کے سامنے، سمندر میں زم ہوتے شراوتی ندی کے دوسری طرف پہاڑی سلسلے پر، ساتوں شہید نامی غیر آباد درگا کے آس پاس سے چار پانچ کلومیٹر وسط شہر بھٹکل تک، تمام کے تمام ناریل کے باغات، ہم اہل نائط کی ملکیت ہی میں تھے اور ان میں تعمیر ایک آدھ کوٹھی نما مکانات ،اہل بھٹکل کے لئے، ایسے ہی گاہے بگاہے توضیع اوقات “حافلات بر” پکنک کے لئے کام آتے تھے۔ ان میں منڈلی قریہ کے قریب اسی شراوتی ندی کے کنارے آفریقہ صائب تاجر نائط کا بنگلہ اور اسی ندی کنارے ہمارے ناریل باغ میں قائم کوٹھی نماگھر علاوہ ، کئی ایک ایسے ناریل باغات میں تعمئر گھر، پکنک کے طور استعمال میں لائے جاتے تھے۔ایسے ہی شہر بھٹکل سے تین کلومیٹر دوسری طرف، جالی ساحل سمندر تعمیر اس وقت کے مشہور اہل نائط تاجر مصباح فیملی کی عالیشان کوٹھی، ان دنوں اہل نائط عوائل میں پکنک کے لئے استعمال ہونے، پکنک اسپاٹ کے طور بڑی مشہور تھی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ ان ایام میں اہل بھٹکل کی کوئی فیملی اس مصباح جالی بنگلہ میں کچھ وقت پکنک توضیع وقت کرنے سے رہ گئی ہو
اسی کے دیے کے بعد ریگزار عرب کے مختلف ملکوں میں پیٹرو ڈالر کےباد نسیم کے جھونکے کیا چلنے شروع ہوئے، ھند و پاکستان بنگلہ دیش افغانستان کے ساتھ ہی ساتھ، عالم کے انیک پس ماندہ و ترقی پذیر ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ان صحرائی پیٹرو ڈالر سے سیراب ہوتے ہوئے، اپنے اپنے علاقوں میں اپنے لئے آشیانے بناتے بناتے، اپنے اپنے علاقے تفریحی مقامات پر، ایسے پکنک اسپاٹ تعمیر کرتے رہے۔

امریکی تاجر زبیر قاضیہ کا، اسی کے دیے میں، جالی بیج پر حافظکا مرحوم کے وسیع و عریض ناریل باغ کے متصل، سمندر کی لہروں کو اپنے قدموں سے لمس کرتے تعمئر، وسیع و عریض بنگلہ امریکن جالی کے نام نامی سے مشہور، اہل بھٹکل کے لئے،ایک پکنک اسپاٹ کے طور ایسا مشہور ہوا کہ اب ایکسوی صد کی ابتداء میں، باد بہاران پیٹرو ڈالر خلیج ہی کی بہتات نے، اسی امریکن جالی میں انیک ایسے پکنک اسپاٹ بنگلو تعمیر کرتے ہوئے، اہل بھٹکل والوں کے لئے ان کے آباء اجداد عرب ثقافت کے”حافلات بر” کا خاطرخواہ انتظام شہر بھٹکل میں کئے ہوئے ہے

آج سائبر میڈیا یو ٹیوب پر، وی دی بھٹکلیس کی طرف سے پوسٹ کردہ یو ٹیوب میں، شہر بھٹکل کے جالی دیہات اغیار کے علاقے ساحل سمندر پر اسی کے دیے سے پہلے والے مشہور پکنک اسپاٹ، مصباح بنگلو کو، تباہ حال کھنڈر کی شکل دیکھ کر انتہائی قلق و افسوس ہوا۔ کاش کہ مصباح آل کا ہی کوئی صاحب حیثیت تاجر،یا آل نائط کا کوئی دوسرا تاجر و تونگر رئیس، اس جگہ کی ملکیت حاصل کر، اسے آباد کرتے ہوئے اپنے جد امجد آل عرب کے اقدار پر”حافلات بر” کی روایات باقی و جاری رکھنے کی سعی کرتا تو کتنا اچھا ہوتا
جب حضرت انسان خوشحال و آسودہ زندگی بسر کرنے لگتا ہے تو شان آسودگی درشانے یا اپنے عائلی اقدار پر عمل آوری اسے توضیع وقت گاہے بگایے، “

حافلات بر” یا پکنک جانے پر اکساتی رہتی ہے۔ خصوصا شادی بیاہ کے بعد والی دعوت و پارٹیاں عموما صاحب حیثیت لوگ، ایسے ہی تفریحی مقامات پر منعقد کرنے کے خواہاں پائے جاتے ہیں۔باد بہاراں پیٹرو ڈالر سے فیض یاب اکثر علاقوں میں آبادی سے باہر ایسے تفریحی مراکز تعمیر کئے پائے جاتے ہیں۔ گویا فی زمانہ ایسے تفریحی مواقع دستیاب کرانا بھی ایک قسم کی تجارت کا حصہ بن چکا ہے۔ خلیج میں مصروف معاش اکثریت یہاں پر موجود ایسے کرائے پر ملنے والے تفریحی مقامات کی بھرمار سے یقینا روشناس ہونگے۔ کاش کہ اہل بھٹکل کا کوئی تاجر تونگر

اسی کے دیے کے شان بھٹکل مصباح بنگلو کو خرید کر،وہاں پر ایسا کوئی پر تعیش پکنک اسپاٹ تعمیر کروادے تو ہمارے ماضی کی اقدار کو زندہ و تابندہ کیا جاسکے گا۔ یہاں اس بات کی وضاحت ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ انسانی جبلت میں تفریح طبع سامانی کے مواقع کی تلاش ہمہ وقت رہتی ہے اور جس معاشرہ میں جائز طریقہ والے تفریح طبع اسباب موجود نہ ہوں، وہاں غیر شرعی تفریح طبع لوازمات جڑ پکڑنے لگتے ہیں ۔اس لئے اچھا ہے زعماء وصلحاء معاشرہ کی نگرانی ہی میں، جائز تفریح طبع کے اسباب معاشرے کو مہیا کروائے جائیں۔وما علینا الا االبلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں