Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

سانحہ آرمی پبلک سکول ہم نہیں بھولیں گے۔۔!!

سانحہ آرمی پبلک سکول ہم نہیں بھولیں گے۔۔!!

سانحہ آرمی پبلک سکول ہم نہیں بھولیں گے۔۔!!

سانحہ آرمی پبلک سکول ہم نہیں بھولیں گے۔۔!!

تحریر : شجاعت خان احمدانی

سلام میرا عظیم ان شہید بچوں کو
جو اپنی جیت کی خاطر مارے گئے

قارئین کرام! دسمبر آتے ہی آرمی پبلک سکول کا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔اے پی ایس شہداء کے وارثاء کے درد بھرے زخم پھر سے تازہ ہو جاتے ہیں۔اس حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے آج بھی اپنی غم زدہ آنکھوں میں موت کے وہ تکلیف دہ مناظر قید کیے ہوئے ہیں جس کو وہ کبھی نہ بھلا سکیں گے۔16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور میں جنونی،وحشی درندوں کی کلیوں جیسے معصوم بچوں پر دہشت گردی کی بزدلانہ اور لرزہ خیز کاروائی کو آج 6 سال بیت چکے ہیں،لیکن اس دلسوز واقعہ کی المناک و کرب انگیز یادوں نے ابھی بھی دل و دماغ کے دریچوں میں طوفان برپا کر رکھا ہے۔دسمبر کا یہ دن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔جسے غیور پاکستانی قوم کبھی نہیں بھلا سکے گی۔

یہ ایسا بدقسمت دن تھا جب ملک کے مستقبل کے معماروں کو وحشی درندوں اور بھیانک بھیڑیوں نے وحشت و بربریت،ظلم اور درندگی کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے والدین کے آنگن پر کھیلنے کودنے والے علم کے متلاشی نو نہالوں کے سینوں کو گولیوں سے چھلنی چھلنی کر دیا تھا۔آج 6 برس بعد بھی سانحہ آرمی پبلک سکول کی یاد میں ہر آنکھ اشکبار ہے ہر دل افسردہ اور ہر چہرہ مغموم ہے۔لگتا تو یہی ہے کہ مکتب کے نفیس پھولوں کو اپنی خوں آسامی کی بھینٹ چڑھانے والوں کے سینوں میں نہ تو خوف خدا تھا اور نہ ہی رحم اور نہ ہی وہ انسانیت کے پیروکار تھے۔کیا ان کے اپنے گھروں میں بچے یا بہن بھائی نہیں تھے؟ یہ سوچتے ہوئے انسان کے پورے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے،مگر وہ انسانی روپ میں شیطانی اور وحشی درندے تھے۔

سفاک،مکار،چلاک اور انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد دن 11 بجے سکول کے عقبی گیٹ سے داخل ہوئے۔ سکول کے اندر داخل ہوتے ہی ان ظالم درندوں نے نو نہتے معصوم طالب علموں اور اساتذہ کرام پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔اسیکیورٹی فورسز کے سکول پہنچنے تک دہشت گرد خون کی ہولی کھیلتے رہے اور کچھ ہی دیر میں ان ضمیر فروش،غدار، ملک دشمن دہشت گردوں نے 133 معصوم جانوں سمیت 149 افراد کو شہید کر دیا جس میں سکول پرنسپل اور اساتذہ سمیت دیگر افراد شامل تھے۔ واقعے کے بعد ہر طرف معصوم بچوں کی خون آلود لاشیں بکھری ہوئیں تھیں

اور اگر پیچھے کچھ بچا تھا تو صرف شہید بچوں کے والدین کی آہیں اور سسکیاں تھیں۔ماں نے کتنے ارمانوں اور نیک تمناؤں کے ساتھ اپنے بچے کو تیار کیا ہو گا،کس قدر محبت اور شفقت سے اس کا لنچ باکس ہاتھ میں دیا ہو گا،اس ماں کو کیا معلوم تھا کہ وہ اپنے لعل کو آج آخری بار تیار کر کے سکول روانہ کر رہی ہے۔وہ بیٹی جو اپنے پاپا کے سینے پر جھولا جھولتی ہو گی اس کو بھی پیارے بابا نے آخری بار اسکول کے دروازے ہاتھ ہلا کر الوداع کیا ہو گا،وہ بھائی جو بہن کے صدقے واری جاتا ہو گا اس نے بھی بہنا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا ہو گا اور اپنی بہن کے ساتھ اسکول روانہ ہوا ہو گا۔کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ سب خوشیاں آج ماتم میں بدل جائیں گی۔

دہشتگردی کی یہ خبر آگ کی طرح پورے پاکستان میں پھیل گئی تھی۔ہر محب وطن کی آنکھ غم سے اشکبار تھی۔اس دردناک سانحے کی وجہ سے پورے ملک سوگوار ہو گیا تھا۔بچوں کے والدین کے مطابق چھے سال گزرنے کے باوجود بھی انہیں اس دن کے رلا دینے والے منظر یاد ہیں۔انہیں آج بھی اس درد ناک سانحے کی وجہ سے ڈراؤنے خواب آتے ہیں جو ان کی کئی کئی دنوں کی نیندیں اڑا دیتے ہیں۔بھلا وہ ماں اس منظر کو کیسے بھلا سکتی ہے جب وہ یہ روح فرما خبر سن کر اپنے بچے کی خبر گیری کے لیے دیوانہ وار سڑک پر آہو زاری کرتے ہوئے دوڑ رہی ہو گی۔

وہ باپ اس سانحے کو کیسے بھول سکتا ہے جب وہ اپنے خاندان کے عزیز و اقارب کو گلے لگا کر رو رہا ہو گا۔ان معصوم بچوں کی لاشوں کو کون بھول سکتا ہے جو عرش کی طرف منہ کر کے فریاد کر رہی تھیں کہ یا اللہ ہمارا قصور کیا تھا اور ہمیں کس جرم میں اتنی بڑی سزا دی گئی۔دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے چھوٹے بچوں کے والدین اپنے جگر گوشوؤں کے لیے کیسے بلکتے ہوں گے کیا ان کے درد کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ہو سکتا ہے ہم میں سے کئی لوگوں کو اس بات کا بڑی شدت سے دکھ ہو لیکن پھر بھی جس کے گھر کا معصوم نو عمر فرد آنکھوں سے دور ہو جائے تکلیف اس آنگن میں محسوس کی جا سکتی ہے،اور اگر محسوس کیا جائے تو پاکستان کی دھرتی کو لگنے والا وہ گہرا زخم آج چھے سال گزرنے کے باوجود بھی قوم کے دلوں میں بالکل تازہ ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ غیور قوم ایک دوسرے کا احساس رکھتی ہے اور اس قوم کے دکھ سکھ سانجھے ہوتے ہیں۔

ان معصوم جانوں کا خون رائیگاں نہیں گیا۔ اس سانحے کے بعد بڑے پیمانے پر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا۔ملک میں امن و سلامتی کا نیا دور شروع ہوا۔وہ ملک جس میں ہر طرف دہشت گردی اور خوں آشام دردندوں کا راج تھا اس سانحے نے ان دردندوں جیسے بدکرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا اور پاک فوج کی محنت اور قربانیوں سے ملک میں امن کی فضا پیدا ہوئی۔آج 16 دسمبر کو پوری قوم اس سانحے کی چھٹی برسی منا رہی ہے۔ شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کےلیے پورے پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت کے باوجود بھی سرکاری طور پر تقریبات ہو رہی ہیں۔پوری قوم شہداء کے وارثاء سے اظہار یکجہتی کر رہی ہے اور معصوم شہیدوں کی یاد میں شمعیں روشن کی جا رہی ہیں ۔اللہ رب العزت اس ملک کو مزید سانحات سے محفوظ رکھے، امین!

Exit mobile version