مذہبی و سیاسی اشرافیہ اور عوام
1973 کا آئین پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا متفقہ آئین ہے جو ریاست کے تمام شہریوں کو برابر حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور کسی بھی طرح کی غیر منصفانہ درجہ بندی کی اجازت نہیں دیتا اس لحاظ سے آئین پاکستان انسانی شرف ، عزت و احترام اور حقوق کے حوالے سے تمام شہریوں کو برابر قرار دیتا ہے خواہ انکا تعلق کسی بھی رنگ ، نسل ، علاقے اور مذہب سے ہو گویا آئین ایک منظم ، روادار اور مساوی معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ہمارے ملک میں آئین کبھی عملی طور پر نافذ نہیں ہوسکا نا ہی اسکی روح کے مطابق مطلوبہ معاشرہ قائم ہوسکا ہے۔آئین کے عملی نفاذ اور مقاصد کی راہ میں ملک کے طاقتور طبقات حائل ہیں یہ طاقتور طبقات آئین کے مطابق اپنی پوزیشن تبدیل کرنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں ہیں بلکہ اپنی روش پر قائم رہنے کے لئے پوری طرح یکسو اور بضد ہیں۔
پاکستان مسلم اکثریت کا ملک اور قرآن پاک مسلمانوں کی مقدس کتاب ہے جو دراصل انسانی زندگی کی تہذیب اور رہنمائی کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اس مقدس کتاب کو غلافوں میں لپیٹ کر طاقوں میں سجا دیا جاتا ہے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں علماء کرام کی رہنمائی کے بغیر اس کتاب کو سمجھنا اور غور و فکر کرنا درست تصور نہیں کیا جاتا گویا یہ کتاب علماء کے لئے ہی مخصوص کر کے اتاری گئی ہو یہی وجہ ہے کہ عام مسلمان اپنی کوشش سے اسے سمجھ کر اسکے مطابق اپنے طرز فکر و عمل کو ڈھالنے کی کوشش نہیں کرتا اوراگر کوئی ایسی جسارت کرتا بھی ہے تو اسے قرآن فہمی کے لئے مطلوبہ علوم پر دسترس نا ہونے کا سبق پڑھا کر محض اسکی تلاوت تک محدود کردیا جاتا ہے۔
ماضی میں جن اہل علم نے قرآن کو عام مسلمانوں کی ضرورت کے طور عام فہم ترجمے اور تشریح کی صورت میں پیش کر کے اسلامی شعور میں اضافے کے اسباب پیدا کرنے کی کوشش کی انہیں اپنی ہی کلاس کے اصحاب کی جانب سے رکاوٹوں اور فتوہ بازی کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے آج کے جدید دور میں بھی مدارس سے تعلیم یافتہ افراد کے علاوہ کسی دوسرے شخص کی ایسی کسی کاوش کو قبول نہیں کیا جاتا شائد ہمارے مذہبی اہل علم دینی علوم کے ماہرین سے آگے بڑھ کر مذہبی اجارہ دار بن کر عام مسلمانوں کو اپنا محتاج بنا کر رکھنا ضروری سمجھتے ہیں یہی صورتحال باقی مذاہب میں بھی پائی جاتی ہے جو کہ ایک غیر معقول طرز عمل ہے۔
ہمارے ملک کے حکمرانوں نے آئین کو بھی مقدس دستاویز قرار دے کر کتابوں تک محدود کر رکھا ہے آئین پاکستان بھی عام آدمی کی پہنچ اور فہم سے باہر ہے اس امر کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا کہ اسے عوامی دسترس و فہم میں لانے کا کوئی بندوبست کیا جائے ہمارے تدریسی نصاب میں آئین فہمی کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی اس کی تعلیم صرف قانون کی تعلیم حاصل کرنے والوں تک محدود رکھی گئی ہے ہمارے نصاب میں بعض مضامین اضافی بوجھ کی صورت میں موجود ہیں جن کے بغیر بھی گزارہ ہو سکتا ہے
لیکن ملکی آئین جیسی اہم ترین دستاویز کی تفہیم جس سے شہریوں کو ملکی نظام ، اداروں کا دائرہ کار اور اپنے حقوق کی سمجھ آتی ہے اسکی ہمارے نصاب میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ہمارے ہاں قرآن کو علماء کی کتاب اور آئین پاکستان کی دستاویز کو قانون دانوں اور جوڈیشری کی کتاب بنا کر رکھ دیا گیا ہے شعور بیدار کرنے والے دونوں ذرائع سے عام شہری کو محروم کردینا ظلم کے مترادف ہے۔
ہمارا ایک اور المیہ یہ ہے کہ ہماری عدالتی و دفتری دستاویزات غیر ملکی زبان انگریزی میں تیار کی جاتی ہیں جو ملک کی بہت بڑی اکثریت نہیں سمجھتی اپنے متعلقہ عام سی دستاویز کو سمجھنے کے لئے بھی عام شہری اس زبان کے ماہرین سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انگریزی زبان بیورو کریسی کی زبان ہے جو اپنی مخصوص حیثیت کو برقرار رکھنے کے لئے اسے دفاتر میں جاری وساری رکھنے پر بضد ہے۔مقدس مذہبی کتب ، آئین پاکستان اور دفتری زبان پر مخصوص طبقوں کی اجارہ داری مفاد پرستی ، خود غرضی اور خوف کی علامت ہے جو تینوں دائروں پر قابض طبقات کو لاحق ہے کیونکہ تینوں دائروں تک عوام کی رسائی سے شعور میں اضافہ ہوگا تو انکی اجارہ داری کو خطرات لاحق ہو جائیں گے#