قابلیت ڈگری کی محتاج نہیں ہے
تحریر:فرزانہ خورشید
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ڈگریاں شخصیت سے میچ نہیں کھاتی، کبھی تو شخصیت، اتنی اعلی باکردار ہوتی ہے کہ ڈگریوں کو بھی چھوٹا کر دیتی ہے اور کبھی شخصیت کا کھوکھلا پن انکی مہنگی ڈگریوں کو بھی گرا دیتا ہے۔ مطلب اصل چیز قابلیت ہے اور یہی وہ جوہر ہے جس کے پاس اگر ڈگری نہ بھی ہو تو بھی وہ ہر دل عزیز بن جاتا ہے، اور ڈگریوں کی بھرمار کے باوجود اگر قابلیت موجود نہ ہو یا یوں کہیں کہ ڈگریوں کے زعم،اکڑ،تکبر کی وجہ سے قابلیت اور انسانیت فنا ہو گئی ہو تو پھر ایسی ڈگریاں محض کاغذ کا ٹکڑا بن جاتی ہے۔
سب سے پہلے ایک انسان کا اچھا ہونا ضروری ہے، اگر تعلیم اسے اچھا نہیں بناتی انسانیت کا درد اس دل میں نہیں جگاتی،ہمدردی ،رحم دلی اور خیر خواہی نہیں سیکھاتی تو پھر ایسی ڈگریاں بھی بے سود ہیں بقول محترم قاسم علی شاہ صاحب “اس کے گرد ہی میلہ لگتا ہے جو فیض رساں ہو”.
جو ڈگری آپ کے پاس بہت محنت ٹریننگ کے بعد آئی اس کا حق ہے کہ اس سے متعلق شعبے میں انسانوں کے ساتھ تو کم از کم آپ مخلص ہوں، مگر اکثر اوقات ہمارا واسطہ ایسی شخصیات سے پڑتا رہتا ہے اور یقینا آپ کا بھی مشاہدہ ہوگا ،جنہیں مل کر بلکہ دیکھ کر بھی ہمیں ان کے طرز انداز اور اظہارِ برتاؤ کی بنا پر شک پڑ جاتا ہے اور ہم سوچتے ہیں کہ شاید ہم غلط ہیں یا پھر انکی ڈگریاں،عہدہ منصب جس پر یہ بیٹھے ہیں سب دھوکہ جعلی ہے۔ عموماً گورنمنٹ ادارے میں تو ایسی شخصیات کی ٹیم ہوتی ہے کیونکہ ان کے پاس اپنے عہدے کی گارنٹی موجود ہوتی ہے لہذا انہیں کسی طرح کا نہ ڈر ہوتا ہے نہ کوئی لحاظ کے لوگوں سے کیسا رویہ برتنا چاہیے اور کس قسم کے انداز سے انسانی شخصیات اور عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔
تعلیم یافتہ انسان کے نظریات اور رویۓ تو اعلی ہونے چاہیے مگر وہ ہی اکثر چھوٹے رہ جاتے ہیں ،تب ہی معاشرے میں تعلیم یافتوں کی فوج تو ہے مگر قابلیت کا گراف کم نظر آتا ہے۔لہذا معاشرے کی ترقی کا دارومدار جو ہر فرد پر ہے مگر بس چند قابل لوگوں پرآجاتا ہے تب ہی ترقی کی رفتار بھی سست پڑجاتی ہے، تعلیم انسان کو باشعور بناتی اور قابلیت کے اعلی درجوں پر بیٹھا دیتی ہے مگر افسوس ہمارے معاشرے میں سارے نہیں تو اکثریت ،تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی قابلیت سے محروم ہیں۔لہذا ہمارا ملک ان فائدوں سے قاصر ہے جو کہ اسے، تعلیم سے ہونا چاھیئے
علم صلاحیت اور قابلیت پیدا کرتی ہے اس کے بعد بھی اگر انسانی ذہین ،سوچ اور نظریات،افکار میں وسعت اور کشادگی پیدا نہ ہو تو پھر تعلیم کیسی، تعلیم کا مقصد انسان کو خود سے شناس کرکے خدا کو پہچاننے اور پھر اس کی مخلوق کے لئے آسانیاں پیدا کرکے اپنا تعلق اپنے خالق سے استوار کرنا ہے ،جو آگاہی کے بعد بھی اگر اس کی مخلوق سے آنکھیں پھیر لے، وہ خود شناسی سے بھی بہت دور بلکہ علم و شعور سے ہی بے فیض رہتا ہے۔
قابلیت کا پیمانہ ضروری نہیں کہ تعلیم سے ہی ناپاجائے بشرطیکہ تعلیم انسان کو شعوردےاسےہمدردبنائے ،معاشرے،ملک و قوم اور ہر انسان کے لئے خود کو فائدے مند بنائے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص اتنا تعلیم یافتہ نہ ہو مگر وہ قابل ہو۔اپنی ذات کو بہتر بنانے کا اسے شعور حاصل ہو، جو کہ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے،اپنی عادات ،رویۓ، نظریات پر کام کرکے خود کو روز بروز بہتر کرنے کی تگ و دو میں آگے سے آگے نکل جائے،بجاۓ ایسا شخض جو خود پر اعلی تعلیم کی ڈگری کی پٹی باندھ کراپنے ہر کام اور خود کو بہت خوب اور بے عیب و نقص سمجھنے لگے، اصلاحِ خودی کی سعی پھر معاشرے کی اصلاح کی جانب کوشش ایک تعلیم یافتہ قابل انسان کی پہچان ہے کہ اس سے جوہوسکے اپنے حصے کا دیا وہ ضرور جلائے، جو فیض اس تک پہنچا اسے دوسروں تک بھی پہنچائیے،نہ کہ غرور اور خود غرضی کے نشے میں غرق ہوکر اپنے سے کم لوگوں کو بھی حقیر سمجھنے لگے۔
اپنے اندازِفکر، گفتگو میں نکھار ،اخلاق رویۓ،تہذیب و آداب پر کام قابلیت کے لیے بہت ضروری ہے یہ وہ چیزیں ہیں جن کے بغیر انسان اشرف کہلانے کا بھی مستحق نہیں کیونکہ جس میں اخلاق، نرم دلی، ہمدردی اور رحمدلی نہیں وہ چاہے جتنی ڈگریوں کا مالک ہے، مگر وہ قابل نہیں ہے۔
لہذا موضوعِ مقصد یہ ہے اگر آپکے پاس ڈگری نہیں بھی ہے تو بھی آپ خود کو نکھار کر قابل بنائیں ، اوراگرآپ تعلیم یافتہ ہیں، آپ کے پاس ڈگری ہے اوراس میں کوئی قید نہیں بھلے ہزاروں حاصل کریں،مگر پھر ضروری ہے کہ اس کی لاج رکھیں، نرم بنیں، ہمدرد بنیں اور اپنی قابلیت سے ان لوگوں کو بھی قابل بنائیں جو کہ محروم ہیں، اپنا ظرف برداشت برھائیں کہ آپ تو جانتے ہیں تو جو لاعلم ہیں ان سے برتر ہیں،تواسکا اظہارمہذبانہ برتاؤ سے کریں ،انھیں اپنے رویوں اور ادب و تہذیب سے تعلیم کی اہمیت اور طرز زندگی سیکھائیں۔ اپنی ذات کو بہتر سے بہترین کرکے اپنی شخصیت کو اتنا بااثر بنائیں کہ آپ کی قابلیت آپکی ڈگریوں سے سو گنا بڑھ جاۓ۔