تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 192

کورونا میں وی یو آئی وائرس کاچیلنج!

کورونا میں وی یو آئی وائرس کاچیلنج!

تحریر :شاہد ندیم احمد
دنیا کورونا وائرس سے ہی نبر آزما تھی کہ ایک نئے وائرس نے آگھیرا ہے ،برطانوی سائنسدانوں نے عالمی ادارہ ٔصحت کو پہلے ہی کورونا وائرس کی نئی قسم سے خبردار کر دیا تھا، اس وائرس کو وی یو آئی کا نام دیتے ہوئے اُسے انسانی جسم میں 23مختلف تبدیلیاں لانے کا باعث قرار دیا جارہاہے۔ لندن میں آنے والے 62فیصد نئے کیس اِسی سے متعلق ہیں اور یہ وائرس برطانیہ کے علاوہ مزید تین ممالک تک پہنچ چکا ہے،

اس نئے وائرس سے خطرے کے پیش نظرپچاس ممالک نے برطانیہ سے آنے والی تمام مسافر پروازوں کو یکم جنوری تک روک دیا ہے، عالمی ادارہ ٔصحت کے مطابق برطانیہ کے بعد ڈنمارک میں بھی اِسی قسم کے 9کیس سامنے آ چکے ہیں اور ایک کیس کی تشخیص آسٹریلیا میں ہوئی ہے۔ اِس صورتحال کی روشنی میں دنیا بھر کے سائنسدان جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب تک تیار کی جانے والی ویکسینزاس نئے وائرس کے خلاف بھی موثر ثابت ہوں گی ، عالمی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کے حوالے سے آئندہ 6ماہ بدترین ثابت ہو سکتے ہیں، اس سے تین کروڑ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔
کرونا کے نئے وائرس وی یو آئی کے باعث پورے یورپ میں خوف و ہراساں پھیل گیا ہے، بر طانیہ سے لوگ بھاگ رہے ہیں،مگر دوسرے ممالک نے سفری پا بندی عائد کردی ہے ،عالمی ادارہ صحت نے پہلے ہی یورپی ممالک کو برطانیہ میں نئی قسم کے پھیلاؤکے حوالے سے اقدامات کی ہدایت کی تھی، عالمی ادارہ صحت کے یورپ آفس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سائنسدانوں کی جانب سے جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا

یہ نئی قسم زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے، کیا اس سے لوگوں میں بیماری کی شدت سنگین ہوسکتی ہے اور کیا ویکسینز اس کے خلاف بھی موثر ثابت ہوں گی، برطانوی وزیر صحت میٹ ہینکوک نے جب اس نئی قسم کے وائرس کی موجودگی کا اعلان کیا تھا تو بیشتر سائنسدانوں نے اس پر شکوک شبہات ظاہر کیے تھے،مگرگزشتہ چند دنوں میں جس طرح حالات میں تبدیلی آئی ہے، متعدد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس نئی وبا کی روک تھام کے حوالے سے ایک سنجیدہ چیلنج ہوسکتا ہے۔
دنیا میں کورونا وائرس کے ساتھ و ی یو آئی وائرس کی آمدایک بڑا چیلنج ہے،اس تناظر میں پاکستان جو گزشتہ ماہ کے اوائل سے کورونا کے دوسرے حملے کی زد میں ہے اور اِن دنوں اُس میں بتدریج شدت آ رہی ہے، شدید مشکل کا شکار ہو سکتا ہے، جبکہ ملک میں آبادی کی اکثریت ابھی تک ایس و پیز پر عمل نہیں کر رہی ہے۔ ہمیں کرونا وائرس کے ساتھ نئے وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد اپنے معمولات زندگی کا حصہ بنانا ہو گا۔

برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس سمیت متعدد ممالک دوبارہ مکمل لاک ڈائون کی طرف آچکے ہیں اور برطانیہ نے تو پاکستان سمیت کئی ممالک کے ساتھ فضائی روابط منقطع کرلئے ہیں اور دوسرے ممالک کے باشندوں پر زمین کے راستے بھی برطانیہ آنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اسی طرح اب جنوبی ایشیائی اور عرب ممالک بھی لاک ڈائون کی طرف واپس آرہے ہیں اور جب تک کرونا وائرس کا مکمل سدباب نہیں ہوجاتا اقوام عالم ایس او پیز کی پابندی کے ساتھ بہرصورت بندھی رہیں گی۔
کرونا وائرس سے اب تک ہونیوالے نقصانات انسانی تاریخ کے بہت بڑے المیے میں شمار ہوتے ہیں، کرونا وائرس کے ہاتھوں اب تک پندرہ لاکھ سے زیادہ انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں ،جبکہ پاکستان سمیت متاثرہ ممالک میں انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ اب مزید تیز ہو چکا ہے۔ پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے ہونیوالی انسانی ہلاکتیں ساڑھے 9 ہزار تک جا پہنچی ہیں، ملک کے مجموعی طور پرپچاس لاکھ کے قریب باشندے اب تک کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں ، عوام کورونا کے پھیلائو پرپہلے ہی خوف میں مبتلا تھے، اب نئے وائرس کی ممکنہ آمد اور خطرناک پھیلائوکی اطلاع بھی دہشت پھیلا سکتی ہے

۔دنیا کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں سے کافی پریشان ہے ، اس سیاق وسباق میں اگر ویکسین کی منظوری کی اطلاعات کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال خاصی دلچسپ محسوس ہوتی ہے، ایک نرس تو ویکسین لگتے ہی سر چکرانے کے بعد گر پڑی، طبی عملہ نے انھیںفوری طبی امداد فراہم کی، ادھر متعدد فرنٹ لائن طبی عملے کو ویکسین دی گئی، پاکستان میں بھی اس کی آمد اور استعمال کے انتظامات ہورہے ہیں، حکومت نے ڈیڑھ ارب کا فنڈ مختص کیا ہے۔
پا کستان کی وزارت صحت کی کورونا کے حوالے سے کائوشیں حوصلہ افزا ہیں ،تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ کورونا کی دوسری لہرکے نکتہ عروج پر نئے وائرس کی آمد پر ارباب اختیار اور وزارت صحت ہنگامی صورتحال کا ادراک کریں اور نئے کیسزکی تعداد میں حالیہ کمی پر بھی اپنی جائزہ رپورٹ میں اسباب اور نتائج کو مصدقہ ڈیٹا کا حصہ بنائیں،کیونکہ وسوسوں اور اندیشوں میں گرفتار عوام کو اس وقت انمول مسیحائی اور چارہ گری کی اشد ضرورت ہے، لازم ہے کہ کورونا کی بڑھتی ہلاکتیں قوم کی اعصابی قوت اور فرنٹ لائن طبی ٹیموں کے عزم کو متزلزل کر سکتیں ہیں،

اس لیے حکومت کو کمربستہ ہوکر ہر قیمت پرکورونا کے نئے حملہ سے نمٹنا کا تہیہ کرنا ہوگا اور قوم کو اعتماد میں بھی لینا ہوگا،کیو نکہ عوام کیساتھ کے بغیر کرونا کے نئے وائرس سے مقابلہ ناممکن ہے، کرونا کے نئے وائرس کے بتدریج پھیلائو سے سنگین تر ہونیوالی صورتحال ہم سے تمام ممکنہ احتیاطی اقدامات کا مکمل پابند ہونے کی متقاضی ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ دوسروں کی صحت کا بھی بہرصورت خیال رکھنا ہے،کیو نکہ ہمیںاب کرونا کے مختلف وائرس کے ساتھ ہی زندگی بسر کرنا ہے، تاہم ایس او پیز بالخصوص مائوتھ ماسک کی پابندی معمولات زندگی کا حصہ بنا کر ہم بڑے انسانی المیوں سے خود کو بچا سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں