Site icon FS Media Network | Latest live Breaking News updates today in Urdu

’’سینٹ الیکشن ، حکومت اور اپوزیشن‘‘

’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘

’’ایک اور عہد و پیما کا پیکر آسودہ خاک ‘‘

’’سینٹ الیکشن ، حکومت اور اپوزیشن‘‘

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ الیکشن کے حوالے سے واضح کر دیا ہے کہ سینیٹ کے نصف ممبران 11 مارچ تک اپنی آئینی مدت پوری کر کے ریٹائر ہو جائیں گے تو سینیٹ کی ان نشستوں پر ایک ماہ قبل الیکشن نہیں ہو سکتا، اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور آئین و قانون کے مطابق مناسب وقت پر سینیٹ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا، الیکشن کمیشن کی وضاحت کے بعد سینیٹ الیکشن کا منظر واضح ہو گیا ہے کہ سینیٹ الیکشن اپنے مقررہ وقت 20 فروری سے مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہو سکیں گے، اور کامیاب سینیٹر 12 مارچ کو حلف اٹھائیں گے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اس بابت چند روز قبل کہا تھا کہ سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے ممکن نہیں ہیں، کیونکہ ووٹرز نے ایک سے زیادہ امیدواروں کو ووٹ کاسٹ کرنا ہوتا ہے، اب حکومت نے سینیٹ انتخابات میں خفیہ رائے دہی ختم کرانے کیلئے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں اپنے دورکا پہلا صدارتی ریفرنس نمبر 1 اٹارنی جنرل آف پاکستان کی وساطت سے دائر کر دیا ہے، یہ ریفرنس وزیر اعظم عمران خان کی تجویز کو منظور کرتے ہوئے صدر مملکت عارف علوی کی طرف سے عدالت کو بھجوایا گیا، جس میں آئین کے آرٹیکل 226 کی تشریح کرنے کے ساتھ عدالت سے رائے دینے کی استدعا کی گئی ہے، عدالت عظمی میں دائر کردہ ریفرنس میں موقف اختیار کیا گیا ہے

کہ سینیٹ ارکان کے الیکشن آئین کے تحت نہیں ہوتے، بلکہ یہ انتخاب 2017ء ایکٹ کے تحت کرائے جاتے ہیں، اس ایکٹ میں ترمیم کر کے الیکشن شو آف ہینڈ (اوپن بیلٹ) کے تحت کرائے جا سکتے ہیں، مزید یہ کہ صدر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، قومی اسمبلی، چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین سینیٹ، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز و ڈپٹی سپیکرز آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت ہوتے ہیں، ریفرنس میں سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کی افادیت (جس کا لب لباب ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید و فروخت روکنا ہے) بیان کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 1985ء سے لے کر اب تک سینیٹ الیکشن کے بعد ووٹوں کی خرید و فروخت کی بحث ہوئی اور ہر مرتبہ اصلاحات اور اوپن بیلٹ پر اتفاق رائے پیدا ہوا، ریفرنس میں پڑوسی ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت میں عوامی نمائندگی ایکٹ 1951ء کے تحت سینیٹ (راجیا سبھا) کے الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرائے جاتے تھے

لیکن خرید و فروخت کی وجہ سے راجیا سبھا کے الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کیلئے 2003ء میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی ہے یہ ریفرنس رجسٹرار سپریم کورٹ کے پاس جمع کرایا گیا ہے چیف جسٹس کی منظوری کے بعد ریفرنس کی سماعت کیلئے تاریخ مقرر ہو گی اور سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے معزز ججز اس بابت اپنی رائے دیں گے۔حکومت کے سینیٹ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کیلئے عدالت عظمی سے رجوع کرنے پر اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کی سانسیں پھول گئی ہیں کیونکہ اب انہیں (اپوزیشن کو) احتجاج کرنے اور لانگ مارچ کی تیاری کے ساتھ الیکشن شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کی بجائے خفیہ رائے شماری کے ذریعے کرانے کیلئے حکومت کے ساتھ قانونی جنگ بھی لڑنا ہو گی، اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے اپنی حکمت عملی تبدیل کر کے دوبارہ ترتیب دینا ہو گی۔اپوزیشن کے جلسے، جلوسوں اور لانگ مارچ سے حکمرانوں کی نیندیں خراب تھیں، پی ٹی آئی نے صدارتی ریفرنس نمبر 1 سپریم کورٹ میں اس لئے بھی دائر کیا ہے کہ اپوزیشن کا دھیان بدلا جا سکے؟
دوسری طرف بر سر اقتدار پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن سے آڑے ہاتھوں نمٹنے میں لگی ہوئی ہے، اس کیلئے حکومتی مشینری کا بھی خوب استعمال کیا جا رہا ہے ، اپوزیشن سے لوٹی ہوئی رقم واپس لینے اور اثاثے واگزار کروانے کے نام پر کئی جید لیڈر، ارکان اسمبلی گرفتار ہیں۔کہنے کو تو کڑا احتساب ہو رہا ہے لیکن حکومت اڑھائی سال میں کسی پکڑے جانے والے بڑے سیاستدان یا بیوروکریٹ سے کوئی لوٹی ہوئی بڑی رقم واپس لے کر خزانے میں جمع نہیں کرا سکی تا ہم کچھ سیاستدانوں جن میں اکثریت اپوزیشن کی ہے کے زیر قبضہ و زیر استعمال رقبہ، دکانیں، مارکیٹیں،

پلازے قبضہ قرار دے کر سرکاری تحویل میں لے لئے گئے ہیں، اپوزیشن کے کئی لیڈرز کے ٹھپ کیسز دوبارہ کھل گئے ہیں، ملکی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن بشمول برسر اقتدار جماعت کی سیاسی شخصیات کے سب سے زیادہ مقدمات اور ریفرنس پی ٹی آئی کے اس دور میں دائر اور درج کرائے گئے، جسے پی ڈی ایم کی قیادت انتقامی کارروائی قرار دے رہی ہے، سو حکومت اور اپوزیشن خوب گتھم گتھا ہیں، جس کا خمیازہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری کی ماری عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی سینیٹ الیکشن کی تو سینیٹ کے نصف ممبران مارچ میں ریٹائر ہو جائیں گے، جن میں (ن) لیگ کے 17 سینیٹر ایوان سے جائیں گے اور آئندہ 5 سینیٹر منتخب ہو سکیں گے، پیپلز پارٹی کے 8 سینیٹر ریٹائر ہونگے اور 7 کے دوبارہ منتخب ہونے کا چانس ہے، پی ٹی آئی کے 7 سینیٹر ایوان سے جائیں گے اور 19 سینیٹر دوبارہ منتخب ہو سکتے ہیں، ایم کیو ایم کے 4 سینیٹر ریٹائر ہونگے تو ان کا

ایک سینیٹر ایوان میں واپس آئے گا، بلوچستان عوامی پارٹی کے 3 سینیٹر ریٹائر ہونگے اور ان کے 5 سینیٹر منتخب ہو سکیں گے، اے این پی اور مینگل پارٹی کے بھی دو دو سینیٹر اور جی ڈی اے کا ایک سینیٹر منتخب ہو سکتا ہے، پشتون خواہ میپ کے دو سینیٹر اور جماعت اسلامی کا ایک سینیٹر ایوان سے ریٹائر ہو گا لیکن ان کا آئندہ سینیٹ الیکشن میں کوئی سینیٹر بنتا نظر نہیں آ رہا، اس طرح سینیٹ کے آئندہ الیکشن کا زیادہ فائدہ کپتان کی جماعت پی ٹی آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی متوقع ہے، تاہم سیاست وہ بے رحم کھیل ہے جس کے بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی کھلاڑی کسی بھی وقت سیاست کا پانسہ پلٹنے کا ماحول بنا سکتا ہے۔

Exit mobile version