ٹرمپ ’برطرفی یا مواخذہ‘ کے دوراہے پر پہونچ گئے 210

پاکستانی عوام کے سامنے اصل تاریخ کی نقاب کشائی

پاکستانی عوام کے سامنے اصل تاریخ کی نقاب کشائی

آج کی بات۔شاہ باباحبیب عارف کیساتھ

پاکستان کی اصل اورحقائق پرمبنی تاریخ کے وہ اوراق جو ہمارے نصاب میں شامل نہیں اور نہ ہی کبھی ہم نے اسکو جاننے کی زحمت گوارا کی ہے آج میں پاکستان کے نامور شخصیات کی لکھی گئی وہ تاریخی سچائی جو پاکستانی تاریخ کی کتابوں میں ہمیں نہیں پڑھایا جاتا آج وہ تاریخ جوحقیقت پر مبنی ہے وہ اپکو کتاب (گوہر گزشت) جو جناب الطاف گوہر صاحب نے لکھی ہے وہ تاریخی کڑوا سچ جو شجاع نواز نے اپنی کتاب( The Crossed Sword) میں لکھا ہےجس حقیقت کو جناب قیوم نظامی صاحب نے اپنی کتاب ( قائد اعظم بحیثیت گورنر جنرل )میں لکھا ہے

وہ اصل تاریخ جس کو اپنے کتاب (جنرل اور سیاست) میں پاکستان کے ہیرو سابق ائیرمارشل اصغر خان نے لکھا ہے ایسے تاریخی حقائق جس سے پاکستانی عوام کو بے خبررکھا گیاہے جسکا علم نئی نسل کو ہے ہی نہیں یعنی عوام کی آنکھوں میں بڑی صاف اورشفاف طریقے سےدھول جھونکا گیا ہے یا آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ عوام کو الوبنایا گیا ہے اگر پاکستان کی اصل اورحقائق پرمبنی تاریخ پڑھنا چاہتے ہو تو یہ چار تاریخی کتابیں ضرور پڑھیں تاکہ اپکو پتہ چلے کہ پاکستان اور پاکستانی عوام کی ترقی اورخوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی وہ کونسی طاقت ہے جو رکاوٹ بنا ہوا ہے میں آج ان چاروں پاکستانی مصنفین کے کتابوں سے چند تاریخی حقائق پیش کرتا ہوں پاکستانی عوام بغور ملاحظہ کرے اورموجودہ زمینی حقائق کا جائزہ بھی لیں
پیارے اورعزیز ہم وطنوں جناب قیوم نظامی صاحب اپنے کتاب( قائد اعظم بحیثیت گورنر ) میں لکھتے ہیں کہ قیامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد سردار عبدالرب نشتر نے ایوب خان کے بارے میں ایک فائل قائد اعظم کو بھجوائی تو ساتھ نوٹ میں لکھا کہ ایوب خان مہاجرین کی بحالی اور ریلیف کے بجائے سیاست میں دلچسپی لیتا ہے اس پر قائد اعظم نے فائل پر یہ آرڈر لکھا’’ میں اس آرمی افسر (ایوب خان) کو جانتاہوں وہ فوجی معاملات سے زیادہ سیاست میں دلچسپی لیتا ہے

اس کو مشرقی پاکستان ٹرانسفر کیا جاتا ہے وہ ایک سال تک کسی کمانڈ پوزیشن پر کام نہیں کرے گا اور اس مدت کے دوران بیج نہیں لگائے گا۔قائد آعظم خاص جمہوری انداز میں مملکت چلانا چاہتے تھے۔ اور اسی حوالے سے کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتے تھے۔ اس حوالے سے قائد اعظم نے ایک اور فوجی افسر اکبر خان کے مشوروں سے زچ ہو کر اس سے کہا تھا کہ آپ کا کام پالیسی بنانا نہیں، حکومت کے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔
اور بعد ازاں وہی جنرل اکبر لیاقت علی خان کے خلاف بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوا اور تقریباََ پانچ سال جیل میں رہا اور بد نصیبی دیکھئیے، عدالت سے غداری کی سزا کاٹنے والے، اسی جنرل اکبر کو 1973 میں بھٹو صاحب قومی سلامتی کونسل کا رکن نامزد کر دیتے ہیں
بانی پاکستان جون 1948 میں سٹاف کالج کوئٹہ گئے تو وہاں گفتگو کے دوران انکو اندازہ ہوا کہ اعلیٰ فوجی افسران اپنے حلف کے حقیقی معنوں سے واقف نہیں ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر ایک طرف رکھ کے فوجی افسران کو یاد دہانی کے طور پر ان کا حلف پڑھ کر سنایا، اور انہیں احساس دلایا کہ انکا کام حکم دینا نہیں صرف حکم ماننا ہے
جناب الطاف گوہر اپنے کتاب ( گوہر گزشت)میں تاریخی حقائق کی کچھ اسطرح نقاب کشائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قائد اعظم کا ایوب خان کے بارے میں غصہ بعد میں بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور جب وہ ڈھاکہ گئے اور انہیں فوجی سلامی دی گئی تو انہوں نے ایوب خان کو اپنے ساتھ کھڑے ہونے سے روک دیا دراصل تقسیم کے زمانے میں امرتسر میں ہندومسلم فسادات پر قابو پانے کے لیے ایوب خان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی مگر وہ وہاں جاکر مہاراجہ پٹیالہ کی محبوبہ پر عاشق ہو گئے اور اپنا بیشتر وقت اسکے ساتھ گزارنے لگے اور فسادات پہ کوئی توجہ نہیں دی۔ جس پر قائد آعظم نے سزا کے طور پر انکو ڈھاکہ بھیجا تھا۔
اپنی اس تنزلی پر ایوب خان بہت رنجیدہ ہوئے اور انہوں نے قائد آعظم کے احکامات کے برخلاف اسوقت کے فوجی سربراہ سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس حوالے سے انہوں نے اپنے دوست بریگیڈیئر شیر علی خان پٹودی سے مدد مانگی۔ شیر علی خان پٹودی پہلی فرصت میں کراچی سے راولپنڈی گئے اور کمانڈر انچیف سر فرینک میسروی سے اپنے دوست کی سفارش کی لیکن بات بنی نہیں۔

جناب شجاع نوازصاحب اپنے کتاب( The Crossed Sword) میں لکھتے ہیں کہ بد نصیبی یہ ہے کہ جس ایوب خان سے قائداعظم اسقدر نالاں تھے اسی ایوب خان کو لیاقت علی خان نے اسوقت کے سینئرترین جنرل، جنرل افتخار پر فوقیت دے کر فوج کا سربراہ بنا دیا کہا جاتا ہے کہ اس حوالے سے بھی انکے دوست بریگیڈیئر شیرعلی خان پٹودی اور دیگر رفقاء نے اہم کردار ادا کیا اور بدنصیبی دیکھئے، وہی ایوب خان پاکستان کا پہلا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا اور پاکستان پر گیارہ سال گک حکومت کرتا رہا۔
سابق پاکستانی ہیرو ائیر چیف مارشل اصغر خان دنیا کے لیے کسی تعارف کے مختاج نہیں وہ اپنے کتاب جنرل اور سیاست میں لکھتے ہیں کہ بعد کے ادوار میں فوجی جرنیلوں نے اس حلف کی اتنی خلاف ورزی کی کہ ائیر مارشل اصغر خان کو لکھنا پڑا کہ میری تجویز ہے کہ اگر ہم پر جرنیلوں ہی نے حکمرانی کرنی ہے تو یہ الفاظ حلف سے حذف کردیے جائیں: ’ْمیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں، خواہ ان کی نوعیت کچھ بھی ہو، حصہ نہیں لوں گا۔‘‘
میں یہ تاریخی حقائق اس لیے پاکستانی عوام کے سامنے رکھ رہا ہوں کیونکہ حقیقت اورسچ کڑوا ہوتا ہے لیکن جس دن ہم نے اپنی نئی نسل کو پاکستان کی اصل تاریخ پڑھانا شروع کردیا اسی دن سے پاکستان ترقی اور عوام خوشحالی کے زینے طے کرنا شروع کر دے گا ورنہ اسطرح رلتے رہینگے جسطرح آزادی سے لیکر آج تک رل رہے ہیں اور یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب پاکستانی دستور کے مطابق عوام کو اپنا جمہوری حق دیا جائے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں