کسی قسم کی ٹھوس منصوبہ بندی موود نہیں
تکنیکی شعبے میں فنی مہارت کے حامل افراد کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ پاکستان کے قیام سے اب تک تمام تر حکومتی وعدوں اور دعوں کے باوجود ہمارے ہاں فنی تعلیم کے فروغ اور ایسے تربیتی اداروں کے قیام اور تنظیم کے لئے کسی قسم کی ٹھوس منصوبہ بندی موود نہیں ہے جس کا نتیجہ نکلا ہے کہ ملک اقتصادی زبوں حالی ، معاشی پسماندگی اور مالی درماندگی کی دلدل میں گھٹنوں گھٹنوں نہیں
بلکہ گردن تک دھنس چکا ہے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کسی ملک کی اقتصادی و معاشی ، ترقی و خوشحالی کا انحصار بڑی حد تک پیشہ وارانہ علم مختلف فنی شعبوں کے ماہروں کی ہنر مندی اور مہارت کے اداروں کے انتظامی امور چلانے کے لئے اعلیٰ صنعت یافتہ انتظامی عملے پر ہوتا ہے جو آزاد منڈی کے تقاضو ں کے مطابق ضروری فیصلے کر سکے صنعتی کارکنوں اور افرادی قوت کی مہارت اور کار رکردگی کا معیار جتنا عمدہ ہو گا
انہیں بے روزگاری کے خلاف اتنا ہی موثر تحفظ حاصل ہو گا اور اس کے نتیجے میں روزگار کے مزید مواقع پیدا ہونگے اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ ہنر مند کارکنوں اور اعلیٰ پیشہ وارانہ مہارت سے آراستہ انتظامی عملے کے بغیر اقتصادی ترقی ممکن ہو ہی نہیں سکتی یہی وجہ ہے کہ موجودہ بین الاقوامی اقتصادی اور سماجی صورتحال کے پیش نظر دنیا میں ہر جگہ بنیادی اہمیت کے حامل شعبوں میںترقی کو اولیت دی جارہی ہے کوئی بھی ملک خواہ وہ امریکہ ہو یا اس کا تعلق یورپین برادری سے ہو یا پھر مشرقی یورپ کے ممالک جہاں اصلاحات کا دور دورہ ہے
یہ بات دنیا کے تمام ملکوں پر یکساں منطبق ہوتی ہے جدید تقاضوں کے پیش نظر صنعتی و کمرشل کمپنیوں ، اداروں اور فنی مہارت کے شعبوں میں جہاں تربیت یافتہ عملے کی گراں قدر ضرورت ہے وہاں جدید الیکٹرانک ڈیٹا پراسیسنگ یونٹ کی ضرورت اور اہمیت بھی رو بروز برحتی جارہی ہے ایسے اداروں میں نئی کنٹرول تیکنیکس کا استعمال ضروری ہوگیا ہے اور ذمہ داری کے نئے شعبوں میں مثلاً مارکیٹنگ ، اکاﺅنٹنگ اور انتظامی امور کے لئے جدید طریقے بروئے کار لانے کا رجحان فروغ پذیر ہے اور وہی کمپنیاں یا ادارے یہ تقاضے پورے کرنے کے اہل ہوتے ہیں
جن کے پاس مطلوبہ اہلیت اور معیار کے ماہرین کی خدمات موجود ہوتی ہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑیءتعداد میں بے روزگار افراد کی مالی امداد کرنا کسی بھی مملکت کے لئے نہ صرف غیر پیداواری عمل ہوتا ہے بلکہ اس طرح کی امدا د پر اعلیٰ معیار کی پیشہ وارانہ تربیت کے اخراجات سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہوتی ہے لہٰذا ترقی پذیر ممالک میں اس نوع کے لوازمات و اہداف کی تکمیل ایک انتہائی کھٹن کام ہوتا ہے ترقی یافتہ ممالک اشتراک و تعاون کی مختلف صورتوں میں ایک دوسرے کو ماہرین کی فنی خدمات اور ٹیکنالوجی مہیا کرتے ہیں رہنمائی کے لئے سیمینار اور مجالس مذاکرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور متعلقہ فنی نظریاتی مواد مہیا کیا جاتا ہے اور پیشہ وارانہ تربیت کے شعبے میں ادارتی بنیاد پر اصلاحات کے لئے بنیادی قوانین اور تربیت کے ضابطے مرتب کیے جاتے ہیں اور نئی انتظامی ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے جدید مثالی تربیتی مراکز کے قیام میں مدد تجارتی ،
صنعتی اور ٹیکنیکل تربیتی مراکز کے قیام میں اس بات کا بطور خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان میں مختلف شعبون کے بارے میںاسی تربیت دی جاسکے و منڈی کی معشیت کی ضروریات پوری کر سکے اور اس کے ساتھ ہی انتظامی ضروریات بھی پوری کر سکے علاوہ ازیں انتظامی امور کی تربیت کے ایسے ادارے بھی قائم کیے جاتے ہیں جہاں ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کی جا سکے آگے چل کر فیصلے کرنے کی ذمہ داریاں نبھانی ہیں
اس بارے میں دی جانے والی مدد اور تعاون میں ترقیاتی منصوبہ بندی عملے کی تعلیمی نصاب کی تیاری اور تعلیم و تدریس کے لئے استعمال ہونے واے جدید مواد اور سازو سامان کی فراہمی شامل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طریقہ کار کے ذریعے متعلقہ ممالک تربیتی اقدامات کو خود بروئے کا ر لاسکتے ہیں اور اپنے حالات کا ر اورضروریات کے مطابق نئے طریقے اپنا سکتے ہیں فی الوقت ڈیٹا پراسیسنگ انجینئر نگ کے شعبوں میں کمپیوٹر کے استعمال کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے سب سے زیادہ اہمیت اس بات پر دی جاتی ہے کہ پیشہ وارانہ تربیتی مراکز کے سر براہوں ،
انسٹرکٹروں کو ان کے متعلقہ شعبے یا ٹریڈ کے تما پہلوﺅں سے مکمل واقفیت دلائی جائے اس طرح کمپنیوں اور فرموں میں بھی اہم مناسب پر خصوصی ماہر اور ہنر مند افراد بغیر کسی سیاسی سفارش کے فائز کیے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں تحقیقی و تخلیقی پروگرام اور سر گرمیاں بامِ عروج کو پہنچ چکی ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک پسماندگی کی متعفن دلدل سے باہر نکلنے کے لئے تنکے کاسہارا ڈھونڈ رہے ہیں پاکستان میں فنی تعلیم کے فروغ اور سائنس و ٹیکنالوجی میں تحقیق و تخلیق کے منصوبے ابھی تک ہچکولے لے رہے ہیں
حکومتی دعووں اور وعدوں کی تکمیل صدیوں سے پوری نہیں ہورہی اور نہ نئے فنی تربیتی مراکز کھولنے کی طرف توجہ دی جاتی ہے جبکہ پرانے سسک سسک کر چلنے والے تربیت کے بےشتر اداروں کی بحالی صحت کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی اس وقت وفاقی حکومت کی مختلف وزارتوںکی گرانٹ سے چاروں صوبوں میں کام کرنے والے وو کیشنل و ٹیکنیکل ٹریننگ سنٹروں کا کوئی پُر سان حال نہیں ۔ انکی کار کردگی زیرو ہے مالی وسائل کی عدم دستیابی اور بو سیدہ تربیتی نظام نے قیمتی فنی تعلیمی مراکز کو دیمک کے حوالے کر رکھا ہے صوبہ پنجاب میں مختلف محکموں کو اسپانسر کیے گئے ٹیکنیکل اور ووکیشنل ٹریننگ مراکز وفاقی حکومت کی طرف سے مناسب توجہ کے منتظر ہیں ۔
دیہی مزدروں کے تربیتی مراکز کے درجے بلند کر کے اور اسے جدید خطوط پر استوار کر کے پسماندہ علاقوں کے پڑھے لکھے اور اَ ن پڑھ بے روزگار نوجوانو ںکو ہنر کاری سے لیس کیا جاتا ہے ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ ادارے آج کل فنڈ ز کی عدم دستیابی کے باعث بے کار پڑے ہیں مشینری اور ٹولز بو سیدہ ہوجانے سے تربیت کا معیار بھی متاثر ہوا ہے حالانکہ چند برس پیشتر ان اداروں کی کار کردگی خاصی بہتر تھی ان اداروں سے تربیت حاصل کرنے والے متعدد نوجوان یا تو اپنا کاروبار چلا رہے ہیں یا پھر مختلف صنعتی یونٹوں اور تجارتی مراکز میں کاریگر کے طور پر مثالی کردار ادا کررہے ہیں حکومت کو ایسے قیمتی اداروں کی ترقی اور بحالی صحت کے لئے فوری ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو چاہئیے کہ ٹیوٹا کے