تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 102

احتجاج سے نکل کرہی راستہ سجھائی دے گا !

احتجاج سے نکل کرہی راستہ سجھائی دے گا !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ملکی سیاست میں ہلچل جاری ہے ، سیاسی قائدین پرنئے مقد مات بنے کے ساتھ گرفتاریاں تو کہیں بیرون ملک روانگی کے ساتھ سیاسی اتحاد ٹوٹنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں،پی ڈی ایم کا مستقبل بھی دائو پر لگا ہے، پاکستان پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے شرکاء نے اسمبلیوں سے استعفوں کی مخالفت کرتے ہوئے مو لا نافضل الرحمن اورمیاں نواز شریف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے، اس فیصلے سے مریم نواز اور ان کی چند رکنی جمہوریت مخالف ٹیم کے خواب بھی بکھر گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں سے استعفوں کے حوالے سے ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے،

سنٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے شرکاء نے کہا ہے کہ اگر میاں نواز شریف وطن واپس آ کر لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہیں تو استعفوں پر غور کیا جاسکتا ہے۔یہ جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار میاں نواز شریف کی سیاسی بصیرت، جمہوریت سے محبت، اورعوام سے لگائوکا امتحان ہے کہ وطن واپس آتے ہیں یا پھر لندن میں ہی باقی ماندہ زندگی گذارتے ہیں۔پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ (ن) کو سیاسی طور پر اس حد تک دبا دیا ہے کہ اس کے لیے دوبارہ اٹھنا مشکل ہو گا،مسلم لیگ( ن ) جو چند پہلے تک خود کو ملک کی سب بڑی سیاسی طاقت سمجھ رہے تھے ، یہ حال کر دیا گیا ہے کہ اپنے قائد کو وطن واپس بلانے کی جرأت بھی نہیں کر سکتے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے اپنے قیام کے بعد جس جوش و جذبہ سے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا تھا اور اس اتحاد میں شامل جماعتیں حقیقی جمہوریت کی بحالی اور موجودہ حکومت کی رخصتی کے حوالے سے جس عہدو پیمان کا اظہار کر رہی تھیں، اس سے تاثر ابھر رہا تھا کہ شاید مریم نواز کے بقول آر یا پار کا مو قع بس آیا ہی چاہتا ہے، لیکن اب جوں جوں اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کٹھن اور سخت مراحل میں داخل ہوتی جا رہی ہے

تو اس کے نٹ بولٹ کسے جانے کے بجائے ،ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید ڈھیلے پڑتے محسوس ہو رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے تمام دعوئے ایک ایک کرکے بکھرنے لگے ہیں،پی ڈی ایم کے بارے میں تاثر حکومت یا کسی ریاستی دبائو یا رکاوٹ کے بجائے خود اپوزیشن جماعتوں کے درمیان موجود اعتماد کے فقدان سے واضح ہو رہا ہے ، پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں کی جانب سے موصول ہو نے والے بیا نات اتنے حیران کن ہیں کہ ان پر خود کش بمباروں کا گمان ہوتا ہے۔
تحریک انصاف حکومت کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسے اپوزیشن سے نہیں خود سے خطرہ ہے ،مگر پی ڈی ایم کا بھی وہی حال ہے ،پی ڈی ایم کو حکومت کیا توڑے گی،وہ اپنے ہی اختلافات رائے میں دوبنے لگی ہے ،اختلاف رائے کی تقسیم تو کئی معاملات میں پہلے روز سے موجود تھی ،لیکن اسمبلیوں سے مستعفی ہونے، لانگ مارچ اور سینیٹ کے انتخابات پر پیپلز پارٹی کے جانب سے پی ڈی ایم کے بیانیے کے برعکس جس مفاہمت کے اشارے دیے جارہے ہیں، نیز پیپلز پارٹی اگلے چند دنوں میں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں جس دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے،

اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں ملکی سیاست میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ آصف علی زر داری کی مفاہمانہ اپروچ کو بنیاد بنا کر پہلے ہی کہا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی اندرون خانہ اسٹیبلشمنٹ سے ملی ہوئی ہے، اس لیے گلگت بلتستان کے انتخابات کے حوالے سے یہ تاثر عام تھا کہ اس میں پیپلز پارٹی نہ صرف سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھرے گی، بلکہ وہ آزاد ارکان اور شاید ضرورت پڑنے پر مسلم لیگ (ن) اور جمعیت (ف) کے ساتھ مشترکہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی ہوگی، لیکن اس کے ساتھ جو ہاتھ کیا گیا، اس کے بعد بلاول زرداری نے انتخابی نتائج پر جس رد عمل اور احتجاج کا اعلان کیا تھا، وہ نجانے خفیہ ہاتھوں کے کن نئے وعدوں کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) دونوں ہی الگ پس پردہ مقتدر قوتوں سے مذاکرات کررہے ہیں، اگر کوئی ایسی بات نہیں تو اصولاً پیپلز پارٹی کو اپنے چیئرمین کے اعلانات کا پاس رکھتے ہوئے نہ صرف سڑکوں پر سراپہ احتجاج ہونا چاہیے تھا، بلکہ اس بے انصافی پر عدالتوں کا دروازہ بھی کھٹکھٹانا چاہیے تھا ،لیکن اس کے برعکس پیپلز پارٹی قیادت کی جانب سے مقتدر قوتوں کیلئے سبز جھنڈیاں مسلسل لہرائی جارہی ہیں ،

جبکہ مسلم لیگ (ن) کا بیانہ بھی دم تورنے لگا ہے ، یہ پی ڈی ایم کے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ اس حوالے سے رہی سہی کسرمختلف سیاسی قائدین کی شہباز شریف سے جیل میں ملاقاتوں نے پوری کردی ہے۔ ٹریک ٹو ڈپلو میسی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن )پس پردہ وکٹ کے دونوں جانب کھیل رہے ہیں، اگر اس پس پردہ سیاسی آنکھ مچولی کے کھیل میں پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ(ن) کچھ نہ کچھ ریلیف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی جماعتوں کا سیاسی مستقبل دائو پر لگ جائے گا۔ پی ڈی ایم حکومت مخالف تحریک میں اپنا مستقبل دائو پر لگا بیٹھے ہیں ،اس احتجاجی سیاست سے باہر نکلیں گے توہی راستہ سجھائی دے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں