اس طرح تو کچھ نہیں بدلے گا۔۔ 119

جیسے گمان، ویسے حالات

جیسے گمان، ویسے حالات

تحریر فرزانہ خورشید
اپنے اردگرد اگر ہم نظر دوڑائیں تو ہمیں ایسے لوگ باکثرت ملتے ہیں جو ہر وقت مایوسی، نا امیدی ،ناکامی و محرومی کا رونا روتےنظر آتے ہیں۔انکی زندگی پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ واقعی ان کے حالات ہی کچھ ایسے قابل ترس ہیں جن کی وجہ سے وہ ہر وقت نا خوش رہتے اور اداس دِکھتے ہیں۔ پہلے میں اسے سب نصیب کا کھیل سمجھتی تھی اور شاید اسی غلط فہمی میں ہی رہتی اگرمیں ربِ تعالی کےاس حکم سے جو بعد میں لا آف آٹریکیشن کے نام سے بھی ماہرین نے ثابت کیا، آگاہ نہ ہوئی ہوتی۔ میں یہ تو جانتی تھی کہ مثبت خیال انسان کی کامیابی کی ضمانت ہے اور منفی سوچ ناکامی کی وجہ،مگر اس حقیقت سے کہ انسان جو کچھ سوچتا ہے وہی کچھ اسے حاصل ہوتا ہے اور اس کا مقدر بن جاتا ہے ، آشنا نہ تھی۔

انسان کے حالات و احساسات کا بہت زیادہ تعلق تو اس کے اپنے موڈ،جذبات سے ہوتا ہے۔ خوشی و غمی کی کیفیت و منفی سوچ کو بھی وہ کتنی دیر سنبھال کر رکھتا ہے وہ بھی اس کے دائرہ اختیار میں ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ” صرف نو منٹ میں انسان اپنے غصے کی کیفیت سے باہر نکل آتا ہے ” مگر ہم نو سال بھی اسی کیفیت میں رہ کر اپنے رشتوں کو موت کی نیند سلا دیتے ہیں۔ اگر انسان ہر دم نا خوش ہی رہتا ہے تو پھر زیادہ تر امکان ہے کہ اس کی زندگی میں خوشی کم ہی آۓ۔یا پھر وہ خوشی کو بھی اپنے منفی مزاج کی وجہ سے مدھم کرکے جلد ہی کھو دے گا۔

کتاب “دا سیکریٹ “کی مصنفہ رونڈا بائرن جنھوں نے دنیا کو لا آف اٹریکشن سے متعارف کروایا، کی فلاسفی ہے کہ “ہرشے کی اپنی ایک فریکوئنسی ہوتی ہے وہ اپنی لہروں سے ملتی جلتی اشیاء کی لہروں سے جا ملتی ہیں”. یعنی انسان کی سوچ، وہم خیالات کے مطابق چیزیں اس کی زندگی میں آٹریکٹ ہوکر خودبخود آنے لگتی ہیں۔ جس چیز کے لئے بھی کوشیش و سعی کی جائے اپنا تن من لگا دیا جائے وہ یقینی ہوجاتا اوربالآخر مل جاتا ہے۔

ہمارارب کہتا ہے تم شکر کرو میں اوردونگا ،نا شکری گِلے سے دور رہو ورنہ محروم ہو جاؤ گے ۔نا امیدی مایوسی کو کفر قرار دیا تا کہ منفی خیال پاس بھی نہ بھٹکے ،صرف اسی پر بھروسہ کرنے کا حکم دے کر منفی سوچ سے واسطہ منقطع کرکے ہر حال میں مثبت و مطمین رہنےکی تلقین کی ،کہ پریشان نہ ہو،غم نہ کھاؤ ،یقین رکھو،وہ بہترین کارساز ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق قانون
‏لاآف اٹریکشن کا اطلاق ہر ایک پر ہوتا ہے چاہے اسے معلوم ہی کیوں نہ ہو انسان کو جو کچھ بھی حاصل ہوتا ہے وہ اسکی توجہ اٹریکشن کی وجہ سے ہی اسے میسر آتا ہے۔تب ہی تو ہمارے دین میں شکر گزاری پوزیٹیویٹی کا حکم اور ناشکری منفیت پر زندگی بھر پابندی لگادی گئی ۔ انسان کے حالات اسکی سوچ و گمان کے تابع، یعنی سوچ کی ہی بدولت زیادہ تر بگڑتے یا سنورتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سبھی لوگ اپنی زندگی میں اچھا چاہتے ہیں اور صحت، شہرت ،دولت کامیابی کے خواہشمند ہیں مگر بہت کم ہی یہ سب حاصل کر پاتے ہیں ایسا کیوں ہے؟

تو جواب یہی ہےکہ سب ہی حاصل تو بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر ہم میں سے اکثر اسکے حصول کے طریقوں پر اپنی توجہ کوشش، جدوجہد و محنت کو کم کرکے ساری انرجی ،طاقت، راہ میں حائل رکاوٹوں خطرات،خوف و خدشات پر برباد کر ڈالتے ہیں،بس جو خطرات،رکاوٹوں اور بے بنیاد وسوسوں کو کچل کراپنے رب پر پختہ یقین و بھروسہ کرتا ہے وہی منزل کے پار پہنچ کر سرخرو ہوتا ہے ۔اور جو ڈرتے ہیں غلط گمان کرتے ،بے وجہ منفی راۓ اخذ کرتے رہتے ہیں، تو وہی وہم، ڈر ،خدشات جسے زیادہ سوچا جاتا ہے محرومی و ناکامی کی شکل میں آٹریکٹ ہو کر انکی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں،

پھر انسان نصیب کا گلہ کرتا ،ناامیدی کے سمندر میں ڈوب کر مایوسی کے دلدل میں غرق ہوتا چلا جاتاہے۔ اللہ رب العزت تب ہی نا امیدی کو ناپسند کرتا ہےکیونکہ جب مایوسی غالب آنے لگتی ہے تو منفی طرز فکر سے بچنا محال ہو جاتا ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے “میں اپنے بندوں کے گمان کے ساتھ ہوں ۔”یعنی جیسے گمان پھر ویسے حالات ،گمان کے مطابق حالات بنتے پھر زندگی بھی ویسی ہی بن جاتی ہے۔یہ ہم پر منحصر ہے اگر ہم روتے ہوۓ اپنا آج بیتاتیں ہیں تو عین ممکن ہے کل بھی ایسا ہی آۓ۔ اللہ نے ہمیں متّعد بار پر امید رہنے اور شکر کی تاکید کی۔ تاکہ ہم مثبت رہیں مثبت سوچیں اور پھر مستقبل خود ہی مثبت یعنی بہترین بن جاۓ ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں