تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 121

دہشت گردی کی نئی لہر اداروں کیلئے بڑا چیلنج !

دہشت گردی کی نئی لہر اداروں کیلئے بڑا چیلنج !

تحریر:شاہد ندیم احمد
بلوچستان میں کچھ عرصہ خاموشی کے بعد دہشت گرد پھر سر اٹھانے لگے ہے ، پچھلے دو ماہ سے دہشت گرد گروہوں نے اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں، گزشتہ دنوںمچھ میں دہشت گردوں نے ہزارہ شیعہ برادری کے گیارہ کان کنوں کو اسلحہ کے زور پر قابو کرکے ہاتھ پائوں باندھ کر نہایت بیدردی سے ذبح کردیا،اس واقعہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ بلوچستان کی سرزمین پرعلیحدگی پسند تنظیمیں اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے والے گروہ بدامنی پھیلانے میں سرگرم رہے ہیںاور ان کی پشت پناہی بھارت کررہا ہے،بھارت نے داعش کے دہشت گرد بھی بلو چستان بھیج رہا ہے ،

داعش کی طرف سے مقامی آبادی میں خوف پھیلانے‘ معاشی مفادات پر حملہ کرنے اور مقامی انتظامیہ کی ناکامی کا تاثر پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ابھارنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سکیورٹی ادارے شہریوں کو دہشت گرد عناصر سے بچانے میں ناکام ثابت ہورہے ہیں۔اس فرقہ وارانہ دہشت گردی کے تازہ واقعے کی داعش کی جانب سے ذمہ داری قبول کرنا نہایت تشویش کی بات ہے، کیونکہ عرب ملکوں میں اس گروہ نے کافی تباہی پھیلائی ہے،

پاکستان میں اس کا وجود ملک کے استحکام کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔اس میں شک نہیں کہ بلوچستان کے امن کو ان قوتوں سے خطرہ رہا ہے جو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتی ہیں،بھارت عرصہ دراز سے بلوچستان کی سرزمین پرعلیحدگی پسند تنظیموں اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے والے گروہ بدامنی پھیلانے کیلئے استعمال کررہا ہے ، بھارت کی جانب سے داعش کے دہشت گردوں کی آمد کے پا کستان کے پاس ثبوت موجود ہیں،بھارتی دہشت گرد پہلے بھی ہزارہ برادری کو نشانہ بنا کر بلو جستان میں انتشار پھلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں ،حالیہ دہشت گردی کا واقعہ بھی انہی کی کارستانی ہے

اکیسویں کے پہلے عشرے میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی کی بیسیوں وارداتیں ہوئیں، جس کے بعد اس کے کئی خاندان صوبے سے کوچ کرگئے، تاہم کافی لوگ اب بھی یہاں موجود ہیں، ان میں سے کچھ مچھ کے پہاڑی سلسلے میں انگریزوں کے دور میں دریافت ہونے والی کوئلہ کانوں میں کان کنی کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں ان کی آبادی مری آباد اور ہزارہ ٹائون تک محدود ہو گئی ہے۔ ان میں سے صاحبِ ثروت لوگ تجارت پیشہ ہیں،ہزارہ برادری اپنی مخصوص شکل و صورت اور زبان کی وجہ سے وہ الگ پہچان رکھتے ہیں اور اپنے مسلک کی وجہ سے انتہا پسندوں کا آسان نشانہ بنتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حفاظتی اقدامات کی وجہ سے وہ شدت پسندوں کی کارروائیوں سے کافی حد محفوظ ہو گئے تھے، لیکن بھارت کی شرانگیزی کے نتیجے میںایک بار پھر بلوچستان میں دہشت گردی کی نئی لہرسر اُٹھا رہی ہے تو ہزارہ قبائل ایک بار پھر عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔
یہ امر قابل افسوس ہے کہ ایک طرف ہزارہ برادری عدم تحفط کا شکار ہے تو دوسری جانب ہزارہ افراد کے قتل کو سیاسی جماعتوں نے بھی نظر انداز کیاہے، بلوچستان کی سیاسی جماعتیں جو مرکزی دھارے کے ساتھ جڑی ہیں، ان کی حکمت عملی فعال دکھائی نہیں دے رہی ہے۔سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے صرف زبانی ہمدردی جتائی، عملی طور پر کچھ نہیں کیا ہے ،بلکہ زیادہ تر لوگوں شکایت کرتے نظر آئے کہ ہزارہ لوگوں کے احتجاج نے ٹریفک کا نظام تباہ کر دیا ہے۔بلوچستان کے لوگوں کے مسائل سے وفاقی جماعتوں کی لاتعلقی نے حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے

وفاقی حکومت نے بھی بار ہا ہزارہ برادری کے احتجاج اور دھرنوں میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی ہے ،اس دہشت گردی کے واقعہ میں جو لوگ قتل ہوئے ،ان پر افسوس کے ساتھ ،آئندہ کیلئے حفاظتی اقدامات میں بہتری لانے کی بجائے ،اس برادری اور مسلک کی شناخت کو نمایاں کر کے دیکھا جا رہا ہے،ان زاویوں سے ایسے واقعات کا تجزیہ حالات کی ابتری پیش کرتا ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے ہی ہزارہ برادری ایک بار پھر سراپہ احتجاج ہے اور سیاسی جماعتوں، حکومت اور مقامی با اثر حلقوں کی بجائے فوج سے مدد کی اپیل کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ حکومت اور فوج نے ہی عوام کی حفاظت کو یقینی بنا نا ہے ، یہ بھی درست ہے کہ ہمارے انٹیلی جنس نظام‘ کائونٹر ٹیررازم نظام اور مقامی آبادی کے ساتھ بھروسے پر مشتمل تعلقات کی سطح میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ سکیورٹی اداروں کو سی پیک کے علاوہ دوسرے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے بھی اقدام بروئے کار آنا چاہیے ، در اصل دشمن عناصر نے جن گمراہ کن اور فسادی نظریات کو پھیلانے کا کام شروع کر رکھا ہے، وہی دہشت گردوں کے لیے مقامی حمایت کا سبب بنتا ہے۔ بلوچستان ایک ترقی پذیر علاقے کی حیثیت سے عالمی توجہ حاصل کررہا ہے، ان حالات میں دہشت گردوں کا آزادانہ سرگرم ہونا تشویش کا باعث ہے ،جبکہ سیکورٹی اداروں کو اچھی طرح آگاہی حاصل تھی

کہ بھارت کھلے عام بلوچستان میںدہشت گردی کروانے کی دھمکیاں دے رہا ہے،سیکورٹی اداروں کو جہاں اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ،وہیں ضروری ہے کہ قتل ہونے والے مزدوروں کے خاندانوں سے حکومت اور سکیورٹی ادارے صرف ہمدردی کا اظہار کرنے کو کافی نہ سمجھیں، بلکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا سوفیصد انسداد کو بھی یقینی بنایا جائے،حکومت کو بھی ہزارہ برادری کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے ہو گے، خاص طور پر کان کنی جیسی صنعت سے وابستہ لوگوں کا تحفظ جو بلوچستان کی آمدنی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، بلو جستان کے علاقہ مچھ کے پہاڑ کوئلہ کی دولت سے مالا مال ہیں، یہاں کسی تخریبی گروہ کا وجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں