ڈائیلاگ اپنا راستہ خود بنا ئے گا !
تحریر:شاہد ندیم احمد
پی ڈی ایم قیادت گرتے وقت کے ساتھ اختلافات کا شکار نظر آنے لگی ہے ،تاہم مریم نواز کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اتحاد میں اختلافات کی باتیں جھوٹ ہیں،حکومت کو سمندر میں غرق کرنے تک لڑیں گے ،اگرمولانا حکم کریں توعوام کا رخ اسلام آباد کی طرف کر دوں گی۔ پی ڈی ایم قیادت کی طرف سے جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے،ان کے الفاظ کو دیکھا جائے تو حقائق سے کوئی تعلق نہیں، یہ سب سیاسی باتیں ہیں۔ پی ڈی ایم قیادت میں حکومت کو سمندر میں عملی طور پر غرق کرنے کی صلاحیت ہے نہ ہی اسلام آباد کی طرف عوامی ریلے کو لے جایا جا سکتا ہے۔ پی ڈی ایم قیادت کی باتیں محض اپنے حامیوں کو جوش دلانے کے لیے ہیں اور حکومت سے ہر صورت نجات کی کوشش ہے۔ اپوزیشن اتحاد سے تو حکومت نہیں گرے گی
،اگر حادثاتی طور پر حکومت چلی گئی توسیاسی افراتفری میں مزید اضافہ ہو گا۔ اپوزیشن اتحاد کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ حکومت کی تبدیلی کے لئے غیر آئینی طریقہ اختیار کرنے کی بجائے آئینی طریقہ اختیار کرے اور پارلیمنٹ میںتحریک عدم اعتماد لائے، اپوزیشن اتحاد بظاہر استعفوں کے آپشن پر تیار نظر آتے ہیں، اس کی دانست میں بڑی تعداد میں استعفوں سے حکومت کے لئے اپنا وجود برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا،اگر پی ڈی ایم قیادت کے پاس اتنے نمبر ہیں تو مستعفی ہو کر عدم اعتماد کی طرف جانے کی کوشش کرے،اس کے برعکس اپوزیشن اتحاد نے جو طریقہ اپنارکھاہے ، اس سے ملکی سیاست میں بہتری آنے کی بجائے انتشار پھلے گا۔یہ امرواضح ہے
کہ پی ڈی ایم قیادت کو ملکی و عوامی مفاد سے کوئی غرض نہیں ،ان کا ایجنڈا حکومت گرانا اوراقتدار حاصل کرکے خود کو بچانا ہے،اپوزیشن قیادت اپنے ادوار میں قومی خزانہ دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں ۔تحریک انصاف حکومت نے احتساب شروع کیا تو سب اکھٹے ہو کر حکومت مخالف تحریک چلا رہے ہیں اور نظام درست کرنے کی بات کرتے ہیں ،جبکہ اس نطام کو تباہ کرنے کے خود ہی زمہ دار ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر پارٹی ترجمانوں کو اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو پی ڈی ایم سے کوئی خطرہ نہیں، اپوزیشن کی پوری تحریک این آر او کے لئے ہے جو کبھی نہیں دیا جائے گا،کیو نکہ کوئی بھی معاشرہ احتساب کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا،
اس لیے احتساب کاعمل جاری رہے گا۔حکومت نے کمزور معیشت کو درست ٹریک پر ڈال دیا ہے، تمام معاشی اشاریے درست سمت میں جارہے ہیں،حکومت کی نئے سال میں کارکردگی مزید بہتر کرنے پر توجہ ہو گی۔اس میں شک نہیں کہ تحریک انصاف حکومت سے عوام پرُ اُمید ہیں کہ ان کی زندگی میں واقعی تبدیلی آئے گی ،مگر آڈھائی سالہ دور اقتدار میںبڑھتی مہنگائی ،بے روزگاری کے سبب عوام کی اُمید مایوسی میں بدلنے لگی ہے،اس موقع پر وزیر اعظم کی جانب سے نئے سال میں کارکردگی بہتر بنانے کی یقین دھانی حو صلہ افزا ہے، تاہم محض یقین دھانیاں کافی نہیں،حکومتی کار گزاری کے اثرات عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہئے ۔وزیراعظم کا کہنا بجا ہے کرپٹ حکمرانوں کا 10 سالہ اقتدار ایک سیاہ دور تھا،اگر ریاستی اداروں کو سیاسی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے تو اس کے نتائج واضح طور پر نظر آئیں گے،لیکن اگر اداروں میں بے ضابطگیاںہو تی رہیں گی اور میرٹ کی دھجکیاں بکھیری جاتی رہیں گی تو ادارے آزاد ہوتے ہوئے بھی بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرنے سے قاصر ہی رہیں گے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ تحریک انصاف حکومت میں اداروں کی کار کردگی قدرے بہتر ہو ئی ہے، لیکن اپوزیشن قیادت کا سب سے زیادہ ا عتراض نیب کی کا ر کر دگی پر ہے ۔ نیب نے سال 20۔2019 میں 389 ارب روپے کی ریکوریاں کی ہیں، جبکہ 2008 تا 2018 کے 10 سال کے دوران یہ ریکوریاں صرف 104 ارب روپے تھیں۔ پنجاب میں اینٹی کرپشن کے محکمہ نے 27 ماہ کے دوران 206 ارب روپے ریکور کئے، جبکہ کرپٹ حکمرانوں کے 10 سالہ دور میں یہ ریکوری صرف 3ارب روپے تھی ،دونوں اداروں کے اعداد و شمار سے واضح ہو تا ہے کہ جب ریاستی
ادارے سیاسی مداخلت کے بغیر آزادانہ طور پر میرٹ پر کام کریں گے تو قوم کو اس کے ثمرات ضرورملتے ہیں،تاہم اپوزیشن قیادت کے خلاف امتیازنہ کاروائی کے سبب اداروں پر اعتراض اُٹھتا ہے ،اگر حکومت اور اپوزیشن قائدین کے خلاف بلا امتیاز کا روائی کی جائے گی تو امتیازنہ کاروائی کا اعتراض غیر موثر ہونے کے ساتھ عوام کا اداروں پر اعتماد بحال ہو گا۔ بلا شبہ عوام کا اعتماد بھال کرناحکومت وقت کی ذمہ داری ہے ،تاہم اپوزیشن قیادت کی بھی قومی مفاد کے پیش نظر ذمہ داری بنتی ہے کہ اداروں کی اصلاحات کیلئے قانون سازی میں حکومت کی معاونت کرے،اپوزیشن قیادت قانون سازی میں اپنے مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں ،جبکہ حکومت اسے این آر او کا نام دے کرمفاہمت کیلئے تیار نہیں ہے ۔سیاسی احتجاج سے نہ حکو مت کو گرایا جاسکتا ہے
اور نہ ہی اپوزیشن کو دبا کر دیوار سے لگایا جاسکتا ہے ،اس لیے قومی ڈائیلاگ کی ہوا چل رہی ہے،اس وقت حکومت اور اپو زیشن بے شک نہ مانے ،مگر مستقبل نیشنل ڈائیلاگ کا ہے، یہ کیسے ہوتا ہے، کب ہوتا ہے اور کب اس پر عملی کام شروع ہوگا، اس میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا،کیو نکہ سیاسی انتشار کے غبارے سے ہوا نکلنے لگی ہے ، حکومت کے لیے بہتر ہے کہ اس سلسلے میں پہل کرے اور اس ڈائیلاگ کی قیادت کرے، اگر حکومت اور اپوزیشن نے مکالمہ کر نے میں دیر کردی تو اس کا سیاسی نقصان بھی دونوں کو ہی ہو گا، اگر سیاسی حالات بدستوریو نہی چلتے رہے تو پھر نہ کوئی (ن) لیگ، نہ پی پی پی اور نہ ہی کوئی پی ٹی آئی ہو گی، پھر وہی ہو گا جو اس ملک کے لیے بہتر ہو گا اور ڈائیلاگ بھی اپنا راستہ خود ہی بنا لے گا۔