بیمار مذہبی و سیاسی ذہنیت
ترقی یافتہ قومیں دماغ اور گہرائی سے سوچتی ہیں اور ہم ہر معاملے کو جذبات اور ظاہری آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ہمارے اس طرز عمل کا نتیجہ زوال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے دنیا پر حکمرانی کرنے والے غیر مسلم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہونے والی کتاب میں مذکور واقعے اصحاب کہف کے تین سو نو سال تک سوتے ہوئے زندہ رہنے کی ٹیکنالوجی کا کھوج لگانے پر دماغ خرچ کررہے ہیں اور ہم ایسے واقعات کے ظاہر پر بحث مباحثہ کرکے اپنا وقت اور توانائیاں برباد کرنے میں مصروف ہیںیہ دنیا عمل کی دنیا ہے اور لازم ہے کہ اس میں غالب اسی نے رہنا ہے جس نے بے کار مباحث سے صرف نظر کرتے ہوئے علم ، تحقیق اور عملیت پسندی میں اپنی قوتیں صرف کرنی ہیں
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے ہمیں ایک خوبصورت ، کامیاب اور مکمل نظام زندگی عطا فرمایا آپ نے دنیا میں پہلی مرتبہ بادشاہی نظام کے مقابل ایک مکمل جمہوری نظام متعارف کروایا جس پر عملدرآمد کرتے ہوئے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس سال تک ماڈل حکمرانی کی عمدہ مثالیں قائم کیں ہم اپنے ماڈل جمہوری نظام کی افزائش اور حفاظت کرنے کی بجائے اسے بادشاہت کی نظر کر بیٹھے ہم صلاحیت ، معیار اور کردار کے پیمانوں پر اپنے سربراہ حکومت کے انتخاب کی روائت کی بجائے وراثت کے ذریعے دوبارہ بادشاہت کی جانب دھکیل دئے گئے
خلافت کے جمہوری نظام میں ہونے والی اس جوہری تبدیلی کے ذریعے مستقبل میں آنے والے مضمرات کو سمجھ کر اسکے خلاف آواز بلند کرنے والی عالی مقام ہستی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو امت نے بے یارو مددگار شہید ہونے کے لئے چھوڑ دیا جس کا خمیازہ آج تک پوری امت بھگت رہی ہےکیا کبھی کسی نے اس پہلو پر غور کرنےکی ضرورت محسوس کی کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ باہمی جنگ و جدل سے کیوں بھری پڑی ہے ؟
ایسا اس لئے ہوا کہ ہم نے حکومتوں کی پرامن تبدیلی کا طریقہ کھو دیا تھا جس کے بعد مسلم سلطنتوں پر ہی قبضے کے لئے باہم جنگ و جدل ہوتی رہی اس جنگ جدل میں مسلم عوام کی حمائت حاصل کرنے کے لئے جہاد جیسی مقدس اصطلاح کا بے دریغ استعمال کیا گیا اورجہاد کی وسیع المعنی اصطلاح کو صرف تلوار سے نتھی کرکے امت کی تباہی جاری رکھی گئیعجب تماشا ہے کہ ہم امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی مظلومانہ شہادت پر ہرسال روتے ہیں لیکن انکے مقصد شہادت کو سمجھنے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے بلکہ الٹا ظلم یہ کرتے ہیں کہ اسلام کے جمہوری نظام کو رد کر کے اسے مغرب یا کفار کے نظام سے موسوم کر دیتے ہیں اور طاقت و تلوار ہی کو اسلام کے غلبے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں
جذباتیت ہماری رگوں میں اسقدر رچی ہوئی ہے کہ آج بھی کوئی حکمت کے ساتھ مسلم معاشروں کی آنکھیں کھولنے اور راستہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے تو اپنے ہی اسکے حوصلے پست کرنے کے لئے پورے لاو لشکر کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں حالات کے درست ادراک سے عاری یہ لوگ خود کچھ کر پاتے ہیں نا کسی دوسرے کو کرنے دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہےکہ “حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے وہ اسے جہاں سے ملے لے لے” اس حدیث میں حکمت کو مسلم معاشروں سے مشروط نہیں کیا گیا بلکہ مذہب کی حد بندیوں سے اسے آزاد رکھا گیا ہے
حکمت دانائی اور طبعیتوں میں ٹھہراو کا نام ہے جو جذباتیت کا بالکل الٹ ہےاس وقت ہمارے مسلم معاشرے دانائی کی نعمت سے زیادہ تر خالی جبکہ جذباتیت سے پوری طرح مالامال ہیں یہی دنیا میں غالب طاقتوں کو مطلوب ہے مسلم دنیا کا عام مسلمان استعمار کے پروردہ ایجنٹوں اور مذہبی طبقے کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے مذہبی طبقے میں کوئی سیاست کا قائل ہے تو کوئی جمہوریت کو کفر سے تعبیر کرتا ہے کوئی اقتدار حاصل کرنا ضروری سمجھتا ہے تو کوئی اسے دنیا داری سے تعبیر کر کے اس سے دور رہنے کا مشورہ دیتا ہے مغربی استعمار کے پروردہ گروہ مذہب کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا کر پیش کرتے ہیں اور جدیدیت و ترقی کی آڑ میں ہماری نسلوں کو ہماری بنیادوں سے بھی دور کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں
بعض نادیدہ ہاتھوں کی پیدا کردہ اس لاحاصل کشمکش کی وجہ سے عام مسلمان کو اسلام کی سمجھ آتی ہے نا اپنے حقوق کا شعور حاصل ہو پاتا ہےہم سمجھتے ہیں کہ جس مشکل میں اس وقت مسلم معاشرے گھرے ہوئے ہیں اس گرداب سے نکلنے کا راستہ مذہبی سے زیادہ سیاسی نوعیت رکھتا ہے مذہبی طبقے کے محدود تصورات اور غلط حکمت عملی کی وجہ سے سیاسی میدان میں استعمار کے پروردہ مفاد پرست عناصر غالب ہیں
ہم اپنی دانست کے مطابق رواداری ، برداشت ، تحفظ ، خوشحالی اور حقوق میں مساوات کے لئے پوری انسانیت کو مذہبی و سیاسی طور پر بیمار ذہنیت کی حامل لیڈرشپ سے چھٹکارا دلانا ضروری سمجھتے ہیںکامیابی کی طرف گامزن ہونے کے لئے ہمارے کارکن کو وسعت نظری ، کھلے ذہن اور اعلی انسانی روایات سے خود کو متصف کرنا ہوگا بند سوچ ، چھوٹی ذہنیت اور محدود دائرے میں بند ہونے سے ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے پاکستان میں مختلف مذہبی و سیاسی نظریات کے حامل لوگ موجود ہیں ہمیں ملک و قوم کو پستی سے نکالنے کے لئے وطن سے محبت کرنے والے ہر فرد کو ساتھ ملا کر چلنا ہوگا خواہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب ، نسل علاقے اور طبقے سے ہو ہمیں اپنے معاشرے کے لئے خیر کا باعث بننا ہےاگر ہم ایسا کرپائے تو کامیابی خود آگے بڑھ کر ہمارے قدم چومے گی اور ہم پورے اطمینان سے قائد اعظم رح کے پاکستان کی تشکیل کرسکیں گے