تبدیلی میں بڑی روکاوٹ مافیا ہے ! 112

بیک ڈور رابطے نہ سیاست میں گھسیٹا جائے !

بیک ڈور رابطے نہ سیاست میں گھسیٹا جائے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ہر دور اقتدار میں فوج کو زیر بحث لایا جاتا رہا ہے ،تاہم پی ٹی آئی حکومت میں پاک فوج سب سے زیادہ زیر بحث آ رہی ہے، اس کا سبب حکومت ،اپوزیشن اور فوج بھی ہے۔ حکومت سب کو یقین دلانے میں کوشاں ہے کہ فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں ،جبکہ اپوزیشن اس اعتبار سے نالاں فوج کے خلاف بیانات دے رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ فوج مخالفوں کا علاج ہوگا، اداروں پر تنقید کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے،کیو نکہ اپوزیشن قیادت فوج سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت گرا دیں، اگر اپوزیشن واقعی ایسا مطالبہ کر رہی ہے کہ جنرل باجوہ حکومت گرا دیں

تو انہیں چاہیے کہ اپوزیشن کی جانب سے ایسا مطالبہ کرنے والے کو سامنے لاکر ان کا اچھی طرح علاج ہونا چاہیے،ہماری سب سے بڑی بیماری یہی ہے کہ آج تک کسی مرض کا درست طریقے سے علاج نہیں کیاجاتا ،افواج پا کستان کے خلاف بولنے کا علاج ہونا چاہئے ،لیکن کسی ایک کا نہیں،بلا امتیاز سب کا علاج ہو نا چاہیے۔
یہ حقیقت کسی سے پو شیدہ نہیں کہ ماضی میں جمہوری ادوار میں خود سیاستداں اپنی مخالف جماعتوں کی منتخب حکومتوں کو گرانے کے لیے فوجی قیادتوں کو اکساتے رہے ہیں،پی ڈی ایم قیادت بھی اپنی رویت دہرا رہی ہے ،یہ معاملہ محض زبانی محاذ آرائی کا نہیں، بلکہ سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کا طالب ہے، تاکہ اسے مستقل طور پر حل کیا جاسکے ،اس تناظر میںپاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے اپنا موقف واضح طور پر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرتی ہے نہ ہی اسے گھسیٹا جائے، سیاسی جماعتوں کی جانب سے بیانات پر تشویش اپنی جگہ ہے،

تاہم جس نوعیت کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے، فوج حکومت کا ایک ذیلی ادارہ ہے، حکومت نے بہت اچھے طریقے سے الزامات کاجواب دے رہی ہے ،جبکہ،فوج کا جو کام ہے، وہی کریگی، اگر الزامات میں حقیقت ہو گی تو ضرورجواب دیں گے، الیکشن کے وقت پاک فوج سے مدد مانگی گئی جو دی گئی، حکومت کے کہنے پر دیانت داری سے الیکشن کرائے ہیں، اگر الیکشن پر کسی کو اعتراض ہے تو ملک میں موجود اداروں سے رجوع کیاجائے،جہاں تک اپوزیشن قیادت کا راولپنڈی آنے کا معاملہ ہے تو پنڈی آنے کی کوئی وجہ نظرنہیں آتی ،اگر وہ آئے توہم انہیںچائے پانی پلائیںگے‘ ان کی اچھی دیکھ بھال کریں گے ،پاک فوج کیلئے کوئی پریشانی والی بات نہیں ، فوج اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں بخوبی ادا کرتی رہے گی۔
اس میں شک نہیں کہ پاک فوج ایک منظم قابل احترم ادارہ ہے ،حکومت اور اپوزیشن بظاہر اس کا احترام کرتے ہیں اور اسے ریاست کیلئے ناگزیر بھی سمجھتے ہیں،مگر اقتدار کے حصول اور دوام دینے کیلئے ہرزہ سرائی بھی کرتے ہیں۔پی ڈی ایم قیادت بھی حکومت گرانے اور اقتدار حاصل کرنے کیلئے الزام تراشی کی راہ پر گامزن ہے ،مولانا فضل لرحمن کا آئی ایس پی آر کی وضاحت کے بعد بھی کہنا ہے کہ فوج کو مذید وضاحت کرنا ہوگی کہ وہ غیر جانبدار ہے یا عمران کے حق میں فریق ہے، اگر فریق ہے تو ہمارا حق بنتا ہے کہ جی ایچ کیو کے دروازے پر جا کر احتجاج ریکارڈ کرائیں،

جبکہ شیخ رشید کا کہنا بھی یہی ہے کہ راولپنڈی اانے والوں کی خاطر مدارت کی جائے گی۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے سیاست میں فوج کا ذکر کرنا بھی معیوب ہونا چاہئے تھا، مگر دیکھا جارہا ہے کہ دونوں طرف سے اپنے بیانات میں فوج کا حوالہ ضرور دیا جاتا ہے،تاہم پاک فوج کے خلاف پراپیگنڈے کو عوامی سطح پر کوئی پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔
تحریک انصاف حکومت کے سامنے آج کئی مسائل اور مصائب ہیں، ایسے میں حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ اپوزیشن عموماً حکومت کے لئے دردِ سر ہی بنتی ہے،تاہم آج کی اپوزیشن کچھ زیادہ ہی بن گئی ہے۔ حکومتی حلقے کہتے ہیں کہ یہ لوگ چونکہ کڑے احتساب کی زد میں ہیں، اس سے بچنے کے لیے حکومت کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا ہے اور این آر او مانگا جا رہا ہے۔ اپوزیشن اس سب کے باوجود حکومت کو زچ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے۔ احتساب سے عام لوگوں کو اختلاف نہیں،

جس نے ملکی وسائل کو لوٹا، وہ کسی رو رعایت کے حقدار نہیں ہو سکتے، اپوزیشن کے کئی لوگوں کو کرپشن اور آمدن سے زائد اثاثوں کے قانون کے تحت مقدمات کا سامنا ہے، کرپٹ لوگ مقدمات سے بچنے کے لئے ہاتھ پائوں ضرور مارتے ہوں گے، مگر یہ سوچ بھی کلی طور پر درست نہیں ہو سکتی کہ پوری کی پوری اپوزیشن ہی کرپٹ ہے۔
بلا شبہ حکومت ساری دیا نت دار ہے نہ اپوزیشن قیادت ساری کرپٹ ہے ،،مگر آپس کی سیاسی لڑائی میں اداروں پر الزام تراشی دشمن کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔ملک ایک طرف سیاسی انتشار کا شکار ہے تو دوسری جانب دشمن بیرونی اور اندرونی سرحدوں پرکاروائیاں کررہا ہے ، اس صورتحال میں عوام اور عوامی رائے ساز حلقوں اور سیاسی رہنمائوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام میں اتحاد اور قومی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرتے رہیں اور باہمی عدم اعتماد‘ تعصب اور عناد کو پنپنے کا موقع ہر گز نہ دیا جائے،مگر بدقسمتی ہی کہا جائے گا

کہ ہمارے سیاسی قائدین صورتحال کی نزاکت میں اپنے کردار اور صلاحیتوں کا درست طور پر اندازہ نہیں لگا پا رہے ہیں۔ اس جانب پہلے بھی متعدد مرتبہ توجہ دلائی گئی ہے کہ سیاسی رہنمائوں کے باہمی اختلافات ملکی اور قومی مفادات کے آڑے نہیں آنے چاہئیں نہ ہی قومی اداروں کو سیاسی مجادلے میں گھسیٹا جانا روا ہے، تاہم افوج پا کستان کے خلاف بولنے والوں کا علاج بہت ضروری ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میںواضح کردیاہے کہ کسی سے بیک ڈور رابطے نہ سیاست میں گھسیٹا جائے، حقیقت میں یہی آوازِ خلق ہے اور آواز خلق کو نقارہ ٔخدا کہا جاتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں