’’تاریخ ساز شخصیت سیٹھ عابد ‘‘ 125

’’سرکاری ہسپتال تباہی کے دہانے پر‘‘

’’سرکاری ہسپتال تباہی کے دہانے پر‘‘

تحریر: اکرم عامر
ملک بھر کے سرکاری ہسپتالوں کی اکثریت میں طبی سہولیات کا فقدان ہے، ملک کے 60 فیصد دیہی علاقوں میں عوام کے علاج معالجہ کیلئے سرکاری ہسپتال یا ڈسپنسری تک نہیں جس کی وجہ سے متوسط اور غریب طبقہ مشکلات کا شکار ہو کر سسک سسک کر دم توڑ رہا ہے، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے برسر اقتدار آنے سے پہلے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو تعلیم کے فروغ اور غریب عوام کو مفت جدید طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے، عوام نے شاید یہی سوچ کر پی ٹی آئی کو ووٹ دیا کہ وہ (عمران خان) اقتدار میں آ کر ان کی تقدیر بدل دیں گے،

کپتان کی حکومت نے آتے ہی سندھ، پنجاب، بلوچستان، گلگت بلتستان کے بڑے اضلاع کے سرکاری ہسپتالوں کو خود مختار بنانے کیلئے ایم ٹی آئی ایکٹ لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے، جس پر محکمہ صحت کی نمائندہ تنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ہسپتالوں میں ہڑتال کی تو حکومت نے ان صوبوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ پر عملدرآمد روک دیا۔2013ء میں پی ٹی آئی کی حکومت کے پی کے میں اقتدار میں آئی تو خیبر پختونخواہ میں ایم ٹی آئی آرڈیننس پر پیپر ورک کیا گیا، اور 2015 میں صوبہ کے کئی ہسپتالوں میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اس پراجیکٹ کو لاگو کر دیا گیا،

کے پی کے میں اب ایم ٹی آئی کے اجراء سے اب تک محکمہ صحت کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں، حکومت اس ایکٹ کے نفاذ سے جو نتائج برآمد کرنا چاہتی تھی وہ نہیں ہو سکے، اب حکومت نے اسلام آباد کے تین بڑے ہسپتالوں، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل (پمز)، پولی کلینک، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ری ہیبلیٹیشن میں ایم ٹی آئی ایکٹ لاگو کر دیا ہے، جس پر اسلام آباد کے ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کے اہلکار چھ ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں، جبکہ حکومت نے اس ایکٹ کو آئندہ چند ماہ میں ملک بھر کے ٹیچنگ سطح کے ہسپتالوں میں مرحلہ وار لاگو کرنے کیلئے پلان ترتیب دے لیا ہے،

اس طرح یہ سرکاری ہسپتال خود مختار ادارے ہو جائیں گے، جو ہسپتال میں ہونے والے اخراجات خود پیدا کریں گے، ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت چلنے والے ہر ہسپتال کے امور چلانے کیلئے پانچ رکنی بورڈ آف گورنر مقرر کیے جائیں گے جن میں شعبہ صحت اور انتظامی تجربہ رکھنے والے افراد شامل ہونگے، اس آرڈیننس کے تحت سرکاری ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کو پہلی شفٹ میں ایمر جنسی اور او پی ڈی کی سہولت دن دو بجے تک مفت میسر ہو گی، شام کی شفٹ میں ڈاکٹرز فیس لے کر مریض چیک کریں گے، جبکہ تمام ٹیسٹ ہسپتالوں سے ہونگے اور ان کی فیس بھی ادا کرنا ہو گی

جو موجودہ شرح سے کئی گنا زیادہ ہو گی۔ سرکاری ہسپتال کا کوئی ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس نہیں کر سکے گا، مگر سرکاری ہسپتال میں دوسری شفٹ میں ڈاکٹر کو پریکٹس کی اجازت ہو گی ، ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں ہونے والی آمدن سے خود مختار ہسپتال کو حصہ دے گا، ایم ٹی آئی ایکٹ کے لاگو ہونے کے بعد ہسپتال میں کام کرنے والے ملازمین بورڈ آف گورنر کے ماتحت ہونگے، ان ملازمین کو سروس سٹرکچر نہیں دیا جائے گا، جس کے باعث ان ہسپتالوں کے ملازمین پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہو جائیں گے، تا ہم ان ملازمین کی تنخواہیں دوسرے ہسپتالوں کے ملازمین سے زیادہ ہونگی۔
اسلام آباد کے تین ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ لاگو ہونے اور دیگر ٹیچنگ ہسپتالوں میں جلد لاگو ہونے کی خبر پر ڈاکٹرز اور ہسپتالوں کے عملہ میں تشویش پائی جا رہی ہے، اورمحکمہ صحت کی نمائندہ تنظیمیں اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ لاگو ہونے پر احتجاج کر رہی ہیں جس کے باعث اسلام آباد کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ کا نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے اور مریض سسک رہے ہیں، جبکہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں محکمہ صحت کی تنظیمیں احتجاج کیلئے لائحہ عمل مرتب کر رہی ہیں جس کا اعلان ہفتہ رواں میں متوقع ہے، چونکہ محکمہ صحت کی نمائندہ تنظیموں کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ سرکاری ہسپتالوں کے ملازمین کے سر پر تلوار ہو گا ، اس ایکٹ سے ریگولر ملازمین بورڈ آف گورنر کے ماتحت ہو کر پنشن اور دیگر مراعات سے محروم ہو جائیں گے جسے کسی بھی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
جناب کپتان عوام سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے تو اقتدار میں آ کر علاج معالجہ کی سہولتیں شہر سے بڑھا کر دیہی علاقوں میں مفت فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن یہ تو اس کے بر عکس ہو رہا ہے، کپتان جی ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ سے سرکاری ہسپتال پرائیویٹ کی صورت اختیار کر جائیں گے اور علاج معالجہ کی سہولت غریب عوام کی پہنچ سے دور ہو جائے گی، اس لئے ہسپتالوں کو پرائیویٹ کرنے کی بجائے ہسپتال میں طبی سہولتوں کا فقدان دور کیا جائے تا کہ عوام کو طبی سہولتیں میسر آئیں، ورنہ تو کپتان جی عوام پہلے کی طرح سسک سسک کر مرتے رہیں گے اور آپ کا وعدہ بھی پچھلی حکومتوں کی طرح ’’نعرہ‘‘ ہی ثابت ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں