بزم الکرم کے زیر اہتمام تقریب و مشاعرہ اور تعزیتی ریفرنس 221

بزم الکرم کے زیر اہتمام تقریب و مشاعرہ اور تعزیتی ریفرنس

بزم الکرم کے زیر اہتمام تقریب و مشاعرہ اور تعزیتی ریفرنس

ادبی تنظیم بزم الکرم کے زیر اہتمام 17 جنوری 2021 کو معروف شاعر و ادیب اور صحافی جناب شاکر نظامی کی وفات پر تعزیتی ریفرنس اور سرگودھا کے معروف شاعر جناب علامہ رشک ترابی کی یاد میں تقریب اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا۔
جس کی صدرارت معروف شاعر و ادیب اور ماہر تعلیم جناب پروفیسر ہارون رشید تبسم نے کی جبکہ مہمانان خصوصی میں پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم (سربراہ شعبہ اردو ، سرگودھا یونیورسٹی ) ، جناب پروفیسر ڈاکٹر شفیق آصف (سربراہ شعبہ اردو ، میانولی یونیورسٹی )، اور ممتاز شاعر و ادیب اور صحافی جناب ممتاز عارف تھے ۔ جبکہ مہمانان اعزاز معروف شاعر جناب ذوالفقار احسن ، جناب ملک محمد فاروق اور جناب ندیم شاکر تھے ۔
نظامت کے فرائض ارشد محمود ارشد (جنرل سیکرٹری بزم الکرم ) نے ادا کیے ۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ جس کی سعادت محمد اسامہ یوسف نے حاصل کی ۔ نعت رسول پاک پڑھنے کی سعادت محمد ذیشان نے حاصل کی۔ تقریب کا آغاز کرتے ہوئے ارشد محمود ارشد نے جناب شاکر نظامی کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جناب شاکر نظامی پرخلوص شخصیت کے مالک تھے وہ خاص طور پر نئے لکھنے والوں کی بہت خوصلہ افزائی کیا کرتے تھے آج سے پندرہ سوالہ سال پہلے وہ ادبی حوالے سے بہت متحرک تھے اور اکثر شہر سے باہر ان کی صدارت میں مشاعرے ہوتے رہتے تھے جن میں سنئیرز کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو بھی اپنے ہمراہ لے جاتے اور انہیں ادبی منظر نامے پر متعارف کراتے ۔

میں نے بھی ان کے ساتھ متعدد شہروں میں مشاعرے پڑھے اور جناب شاکر نظامی کی عظمت کو قریب سے دیکھا ، سرگودھا کے علاوہ دیگر شہروں کے ادبی حلقوں میں بھی جناب شاکر نظامی کو عزت و توقیر حاصل تھی۔ جناب ذوالفقار احسن نے جناب شاکر نظامی کی شخصیت اور ان کے حوالے سے اپنا مقالہ پرھتے ہوئے فرمایا کہ میں جب نیا نیا ادبی محافل میں آنے لگا تو اس وقت بحر و وزن کا مجھے اتنا شعور نہیں تھا مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ شاکر نظامی صاحب کو غزل دکھا لیا کرو ۔ ایک بار میں نے انہیں غزل اصلاح کے لیے دی تو غزل مجھے اصلاح کے بعد ملے تو وہ میری کہی ہوئی غزل سے بہت مختلف تھی ۔ میں اکثر ان کے دفتر ان سے ملنے جاتا تو وہ محسوس انداز میں سیگریٹ کا کش لگاتے کسی گہری سوچ میں غلطاں دکھائی دیتے۔

جناب شاکر نظامی ایک درویشانہ طبیعت کے حامل شخص تھے ۔ وہ ہمیشہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ۔ جناب ڈاکٹر شفیق آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری سرگودھا قبل ہی سرگودھا کہ جن ادبا و شعراء سے شناسائی تھی ان میں ایک شاکر نظامی بھی تھے جن سے ایک دو بار وہاڑی اور بورے والا کے کل پاکستان مشاعروں میں ملاقات ہوئی تھی جن میں مرتضی برلاس بھی آئے تھے ۔ سرگودھا آمد کے بعد جن اشخاص سے میرا تعلق گہرا بنا ان میں ایک جناب شاکر نظامی بھی تھے۔ وہ ایک زندہ دل اور شگفتہ مزاج آدمی تھے جو بھی ان سے ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا ۔ وہ ریڈیو پاکستان سرگودھا کے قیام سے پہلے ریڈیو پاکستان لاہور کے نمائیندہ خصوصی ہوا کرتے تھے ۔ ان کی تیار کی گئی رپورٹس سے سرگودھا کے کلچرل اور تعلیمی اداروں ثقافتی تہواروں کو ملکی سطح پر پہچان ملی ۔ جناب ندیم شاکر نے اظہار خیال کرتے ہوئے

کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں کہ جسے سرگودھا ہی نہیں ملک بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے میں بزم الکرم انتظامیہ کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس خوبصورت تقریب کا انعقاد کیا اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں علم و ادب کی آبیاری کے لیے اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کروں گا ۔ یہ تقریب جس دوسری شخصیت کی یاد میں تھی وہ جناب علامہ رشک ترابی تھے ۔ ان کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کے داماد اور اس تقریب کے مہمان اعزاز جناب ملک محمد فاروق نے کہا کہ علامہ رشک ترابی اور جناب شاکر نظامی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اس خوبصورت تقریب کے انعقاد پر بزم الکرم انتظامیہ اور خاص طور پر ڈاکٹر ملک یوسف اور ارشد محمود ارشد کا شکر گزار ہوں ۔

انہوں نے مزید کہا کہ احمد حسین انقلابی سے علامہ رشک ترابی بننے میں علامہ صاحب نے کتنا کھٹن سفر طے کیا یہ وہی جانتے ہوں گے مگر ایک بات جو سرگودھا کا ادبی حلقہ مانتا اور جانتا ہے وہ یہ کہ وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ ان کا زیادہ تر کلام حمد و نعت اور شہدائے کربلا کے حوالے سے ہے مگر انہوں نے غزل بھی خوب کہی ۔ محترمہ منزہ انور گوئیندی نے بھی جناب شاکر نظامی اور علامہ رشک ترابی کی ادبی خدمات پر اظہار خیال کیا ۔ انہوں نے علامہ رشک ترابی کے ساتھ اپنی کئی ملاقاتوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ بہت ملنسار طبیعت کے حامل تھے ۔ جناب انور گوئیندی جب کامران رسالہ نکالتے اور کامران مشاعرہ کرایا کرتے تھے تو علامہ رشک ترابی ہمیشہ اس میں شامل ہوتے ۔
تقریب کے مہمان جناب ممتاز عارف نے اظہار خیال کرتے ہوئے

فرمایا کہ علامہ رشک ترابی دبنگ لہجے کے شاعر تھے جب وہ مشاعرہ گاہ میں آتے تو حاضرین ان کے احترام میں اپنی نشستوں سے آٹھ کھڑے ہوتے ان کی شخصیت بڑی رعب دار تھی ۔ جب وہ کلام پڑھتے تو سامعین پر ایک سحر طاری ہو جاتا انہیں اپنا زیادہ تر کلام ازبر تھا وہ دو اڑھائی گھنٹے تک اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے رہتے ۔ ان جیسا لہجہ سرگودھا تو کیا پورے پاکستان میں کسی اور شاعر کا نہ تھا اور نہ ہے ۔
اس تقریب کے صدر جناب پروفیسر ڈاکٹر ہارون رشید تبسم نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا ۔ کہ ہمیں اپنے سنئیرز کو ان کی زندگی میں بھی وہی عزت و احترام دینا چاہئیے جو ہم ان کے گزر جانے کے بعد دیتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم جن دو شخصیات کے لیے یہاں اکٹھے ہوئے ہیں میرا بہت سا وقت ان دنوں شخصیات کے ساتھ گزرا ہے ۔ جناب شاکر نظامی کو میں ہمیشہ استاد محترم کہہ کر مخاطب کرتا تھا حلانکہ میں ان کا شاگرد نہیں تھا کسی نے پوچھا کہ آپ تو ان کے شاگرد نہیں تو پھر ایسا کیوں کہتے ہیں میں نے کہا کہ میرا پہلا مضمون جناب شاکر نظامی نے نوائے جمہور میں شائع کیا تھا ۔
انہوں نے علامہ رشک ترابی کے حوالے سے فرمائے کہ علامہ صاحب عشق رسول کے جذبے سے سرشار تھے ان کے پڑھنے کا انداز بڑا دلنشیں ہوتا کہ سامع انہیں دو دو گھنٹے سن کر بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ شرف حاصل ہے میں نے علامہ رشک ترابی کے ساتھ بہت وقت گزارا ۔ اس وقت سرگودھا کے مشاہیران میں الطاف مشہدی ، اخگر سرحدی، تاجدار دہلوی ، انوار گوئیندی اور علامہ رشک ترابی ادبی حوالے سے بہت متحرک ہوا کرتے تھے ۔اس کے بعد جناب پروفیسر ہارون رشید تبسم نے دونوں شخصیات کے لیے دعائے مغفرت کرائی ۔ اس تقریب کے بعد مشاعرہ کا آغاز ہوا جس میں درج ذیل شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ۔

ایک آنسو بھی نہ تپکایا کسی نے لاش پر
جانے کیوں قاتل مرا کچھ دیر تک روتا رہا

ڈاکٹر ہارون رشید تبسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے کیوں خاک کھینچی ہے اسے
میری پلکوں پہ جو ستارہ ہے

خالد ندیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کہہ کے جگنو نے سب کو خموش کر ڈالا
چراغ میں نے ہواءوں میں بھی جلایا ہے

ممتاز عارف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک چیز تو پتھر نہیں ہوا کرتی
تو اپنی آنکھ میں ذوق نظر کو زندہ رکھ

شفیق آصف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے آخر دیا جلانا ہے
شام کو میں نے ڈوب جانا ہے

ذوالفقار احسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے درمیاں میں بھی محبت مختلف نلکی
تری آنکھوں میں شوخی ہے مری آنکھیں برستی ہیں

بی ۔ اے ندیم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کبھی بجھنے نہ دیا ہے چراغ ماضی کو
طلوع اشک سے راہوں کو تابناک کیا

منزہ انور گوئیندی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم لوگ جو جنت سے نکلوانے ہوئے ہیں
شرمندہ نہیں آج بھی اترائے ہوئے ہیں

حسنین اختر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھ کو اکیلا چھوڑ کہیں دور جا بسیں
اتنی تو بے رحم میری تنہایاں نہیں

صائمہ ضیاء رانا
۔۔۔۔۔۔۔۔

بے عیب چاہتا تھا مجھے ہر لحاظ سے
میں نے بھی کہہ دیا کہ فرشتہ نہیں ہوں میں

جی آر بسمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت کیا نشانی چھوڑ جاتی ہے
فقط آنکھوں میں پانی چھوڑ جاتی ہے

کنیز بتول کھوکھر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راس آئی وفا کی نہ سوداگری
سود جتنا لیا سب خسارا بنا

شاہ حسین جوہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ میں نے منصب شاہی پہ بیٹھ کر جانا
کہ ساری دنیا ہی طاقت کے گرد گھومتی ہے

اسامہ منیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت لے جائے گی اپنے ساتھ انگلی تھام کر
چاہنے والوں کی پیچھے سسکیاں رہ جائیں گی

ارشد محمود ارشد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے علاوہ دیگر شرکاء میں اظہر امین، حسان ندیم ، چودھری زمانت، مشعال ، محمد عمیر فاروق، ڈاکٹر محمد ارشد اور ڈاکٹر محمد یوسف نے شرکت کی۔ مشاعرے کے بعد بزم الکرم کے چیئرمین ڈاکٹر محمد یوسف نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب و مشاعرہ کے اختتام پر تمام شرکاء کے لیے ضیافت کا انتظام تھا۔

رپورٹ
ارشد محمود ارشد
جنرل سیکریٹری بزم الکرم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں