شہہ رگ پاکستان کی آزاد ی! 167

امریکہ بدل گیا ہے !

امریکہ بدل گیا ہے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 46 ویں صدر کی حلف برداری 25 ہزار سے زیادہ فوجیوں کے سائے میں خوش اسلوبی سے ہوگئی ، عام طور پرپا کستان میں کہا جاتاہے کہ ہمیں باہر سے نہیں اندر سے دہشت گردی کا خطرہ ہے، بالکل اسی طرح امریکا میں بھی اسٹیبشلمنٹ نے کم و بیش اسی خطرے کا اظہار کیا تھا، اگرچہ یہ الفاظ تو ادا نہیں کیے گئے، لیکن گھر کے بھیدیوں کو شناخت کے لیے کیپٹل ہل میں تعینات 25 ہزار فوجیوں کی اسکریننگ ایف بی آئی کے حوالے کر دی گئی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی اسٹیبشلمنٹ کو اپنی فوج پر بھی اعتماد نہیں تھا،

امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ جمہوری صدر کی حلف برداری سنگینوں کے سائے میں ہو ئی ، اس کا سہرا ایک غیر سنجیدہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کو لانے والوں کے سر جاتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے جو ہائیڈن کی حلف برداری میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی کوئی نا خوش گوار پیش آیا،تاہم امریکا کے دارالحکومت میں فوج کی تعیناتی ایک سرسری واقعہ نہیں ہے، اس کے اثرات تا دیر نظر آتے رہیں گے اور جوبائیڈن پر بھی اس کا اثر کچھ عرصے تک ضروررہے گا،اس کے ساتھ پہلی مرتبہ امریکا سے یہ آواز سننے کا دنیا کو انتظار بھی رہے گا کہ ہمیں باہر سے نہیں اندر سے خطرہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار میںکوئی نئی جنگ شروع نہیں ہوئی ،مگر امریکہ کے اندر خلفشار ضرور بڑھا ہے ،اس کامظاہرہ دو ہفتے قبل دنیا نے دیکھا کہ جب ٹرمپ کے بھڑکانے پر ان کے حامیوں کی کثیر تعداد نے سینیٹ کی بلڈنگ پر دھا وا بول دیا تھا، اس پرتشدد ہنگاموں میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے ، جس کے بعد مزید مسلح مظاہروں کے پیش نظر پورے امریکہ میں ریڈالرٹ جاری کر دیا گیا ،ٹرمپ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ واحد امریکی صدر ہیں کہ جن کو دومرتبہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کی کثیر آبادی کے

انتہا پسندانہ نظریات کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے اپنا حامی بنا لیا ہے۔ اس منفی سوچ کا بنیادی مقصد امریکہ کی سیاہ فام آبادی سے نفرت اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی لبرل پالیسیوں کو مطعون کرنا تھا۔ ٹرمپ کے پیشرو باراک اوباما کے بھی یہ لوگ سخت مخالف تھے، اس پس منظر میں ٹرمپ نے حالیہ انتخابات میں ہارنے کے باوجود قریبا ً 47 فیصد پاپولر ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے الیکشن ہارنے کے ببعد صدارت سے دست بردار ہونا نہ قابل برداشت تھا، اسی بناپر جو بائیڈن کی راہ میں قانونی رکاوٹیں پیداکرنے کے باوجود جب راستہ نہ روک سکے تو اپنے حامیوں کو کھلم کھلا تشددکی طرف مائل کرنا شروع کردیا،اس سے امریکہ جیسے ملک کو بھی ناخوشگوار صورتحال کاسامنا کرنا پڑاہے ۔
دنیا بھر میں

امریکہ میں ہونے والے ہنگاموں کاشدید نوٹس لیا گیا ہے،تیسری دنیا کے با سی حیران ہیں کہ امر یکہ ساری دنیا کو جمہوری اقدار کی آبیاری اور اداروں کے احترام کا درس دیتا ہے، اس کے اپنے گھر میں کیا ہو رہاہے، لیکن اس پر داد د بھی دینا پڑے گی کہ تمام تر قباحتوں کے باوجود ٹرمپ امریکہ کے جمہوری اداروں کو تباہ کرنے میں ناکام ہوئے اور بالآخر امریکی جمہوریت سرخرو ہوئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپکے تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجود جو بائیڈن نے حلف اٹھالیا اور ٹرمپ قصہ پارینہ ہوگئے ہیں۔ صدر بائیڈن باراک اوباما کے ساتھ آٹھ برس تک نائب صدر رہے ہیں، انہیں حکومت کاوسیع تجربہ ہے، وہ اپنے پیشرو کی طرح لاابالی طبیعت کے مالک بھی نہیں، امریکہ سمیت دیگر ممالک ان سے بہتر سوچ کے حامل فیصلوں کی توقع رکھتے ہیں

۔اس وقت امریکہ کے لیے سب سے بڑ اچیلنج کووڈ 19کی مہلک وبا ہے جس میں قریبا ً اوسطا ً روزانہ ایک ہزار سے زائد اموات ہو رہی ہیں اور اس پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا،اس کے علاوہ نئے صدر کے لیے امریکہ کی اقتصادیات کو بحال کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، اسی طرح خارجہ پالیسی کے محاذ پر نئی امریکی انتظامیہ کو بعض بنیادی فیصلے کرنا پڑیں گے ،جہاںجہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی کے امکانات معدوم ہیں، کیونکہ امریکہ بہت پہلے بھارت کو اپنا سٹرٹیجک سا تھی چن چکا ہے، کیونکہ چین کے ساتھ بھا رت اور امریکہ دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو چین کے ساتھ پاکستان کا ’سی پیک‘ معاہدہ بہت کھٹکتا ہے

اور کئی بار پاکستان کو مشورہ دیا جا چکا ہے کہ ’سی پیک‘ سے چھٹکارا حاصل کیا جائے،اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، اس کے باوجود پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی مقدور بھر کوشش کرنا ہو گی ۔پا کستان نے اپنے مفادات کے تنا ظر میں دنیائے ممالک سے بہتر تعلقات کو یقینی بنانا ہے ، چین اور پا کستان ایک دوسرے کیلئے لازم مزلوم ہیں،مگرپاکستان مکمل طور پر چین پر منحصر نہیںکرسکتا ہے، امریکا بھی پاکستان کو چین کا ایک کمزور اتحادی دیکھنا چاہتا ہے، لیکن اس کے ساتھ پاکستان کو اتنا مضبوط بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ امریکی مفادات کے لیے معاون ثابت ہو سکے، امریکا کو افغانستان کے معاملے میں پاکستان کی مدد کی ضرورت رہے گی۔امریکہ مسئلہ کشمیر میں بھی دلچسپی رکھتا ہے،

مگر اس کے حل کے لیے کچھ نہیں کرے گا، امریکا کو اس مسئلے سے تو کوئی سروکار نہیں ہے، لیکن اس سے پیدا ہونے والے بحران کے بارے میں ضرور تشویش رہتی ہے ،جو بائیڈن کیری لوگر بِل کے اصل خالق تھے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ مذکورہ معاملات پر کام کرنے کے لیے شراکت داری کا ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا ہوگا کہ جس میں دونوں ممالک کے مفادات کا تحفظ ہوسکے ،کیو نکہ اب امداد کے ذریعے تعلقات بنانے کا دو چلا گیا ہے، تاہم پاکستان کی معیشت کو دیکھتے ہوئے معاشی شراکت داری کا امکان موجود ہے، دو طرفہ تعلقات کے مستقبل کا جتنا انحصار پاکستان پر ہے، اتنا ہی امریکا پر بھی ہے ،تاہم امریکہ بدل نہیں رہا،بلکہ جوبائیڈن کی فتح کی صورت میں امریکہ بدل گیا ہے، اگر حکومت معاملات کو اپنے حق میں کرنے کے لئے یکسو ہو جائے تو ہمارے لئے بہتری کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں