افسانہ (فکر فرات) 119

افسانہ (دستار)

افسانہ (دستار)

ریاض جاذب جوہر آباد
فجر کے وقت مرغ کی بانگ سے بچے بھی جاگ جاتیتھے۔ کو?ی بیٹی یا بیٹا روتا تو وہ اماں فتح کو اکثر کہتا بھاگاں والیے نوروں پیروں کا وقت ہے۔ اس وقت بچوں کو مت رلایا کر۔ جو مانگیں دے دیا کر۔ بیٹیوں کو تو ہرگز روتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔بابا احمد یہ بھی اکثر کہتا تھا پرا?ے گھر میں ٹک جانا (رات گزارنا) تو درکنار، زور سے کھانسی بھی نہیں آنی چاہ?ے۔ یہ تب کی باتیں ہیں جب وہ گا?ں میں رہتے تھے۔ یہاں شہر آنے کے بعد ان کی انا کا جنازہ نکل چکا تھا۔ یہی ورم اور دکھ بابا احمد کو اس دنیا سے دور لے گیا کیونکہ اب وہ سورج کو طلوع ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اب اسے جانوروں کی ٹلیوں کی آوازیں سنا?ی نہیں دیتی تھیں۔ رات کو حقا پینے غلام محمد نا?ی اور خدا بخش بابا کے پاس نہیں آتے تھے۔ وہ جس دیس گ?ے بابا بھی ان سے ملنے چلا گیا تھا۔ دودھ بیچ کر اور بکتا دیکھ کر اسے خوشی نہیں ہوتی تھی، الٹا کڑھتا تھا۔

شام ہو?ی تو دروازے پر ٹھک ٹھک دستک کے ساتھ ساتھ ایک بوڑھی مردانہ آواز بلند ہو?ی ”دروازہ کھولو”۔ فتح بی بی نے جواب دیا۔ ” اچھا اچھا میاں کھولتے ہیں۔ امیراں۔۔۔۔! او امیراں! جا تیرا بابا آگیا ہے دروازہ کھول دے۔ جی اماں۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔۔ آ?ی بابا۔۔۔۔۔ امیراں لپک کر دروازہ کھولتی ہے۔

امیراں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ کل سات بہن بھا?ی تھے۔ دو بھا?ی اور پانچ بہنیں۔ ہاجرہ نے چنگیر رکھی جو وہ اپنے ہاتھوں سے سر کنڈوں اور کھجور کے مختلف رنگ کیے پتوں سے بنایا کرتی تھی۔ مٹی کے کٹورے میں بابا کو پانی لا دیا۔ لے بابا پانی۔ جند مانو، عزتیں پا? میری بچیاں۔ بابا نے ہاجرہ اور امیراں کو دعا?یں دیں۔
بابا۔۔۔! اماں کی طبیعت آج پھر خراب رہی تو ہم نے دو پڑوپیاں گھنگڑیاں رکھی تھیں۔ تندور کے اندر صدقے کی نیت سے بڑے برتن میں چنے ابال کر نمک ڈال کر پکانا اور محلے میں تقسیم کرنا تاکہ گھر میں سے مصیبتیں اور تکلیفیں دور ہو جا?یں, عام رواج تھا۔ شکر ہے، اچھا کیا پتر بابا نے تسلی بھرے انداز میں کہا۔

بابا احمد ایک سیدھا سادہ کسان تھا اور روا?تی زمینداروں کاشتکاروں، اونٹوں کی مہار پکڑ کر محنت کرنے والوں کے خانوادے سے تعلق رکھتا تھا۔ اب تقسیم در تقسیم کے بعد زمینداری کا تو خالی نام تھا۔ بابا اب کٹا?ی کے موسم میں اپنے خاندان کو لے کر نکل جاتا، سب گھر والیبڑے زمینداروں کی فصل کاٹتے، اپنے حصے کا رزق پاتے۔ اس طرح کے موقعوں پر وہ دونوں میاں بیوی سب کے ل?ے دو تھان کپڑوں کے بھی لے لیتے۔ ایک زنانہ ایک مردانہ۔ عید پر کپڑے لینا ان کے ہاں اتنا ضروری بھی نہیں تھا یا وہ جانتے تھے کہ جب کپڑے تن ڈھانپنے کے ل?ے ہوتے ہیں تو اس بات سے عید کا کیا لینا دینا۔
سب سے بڑا بیٹا حق نواز تھا جو اونٹ پر دکانداروں کے ل?ے شہر سے سودا سلف لایا کرتا اور معاوضہ پاتا۔ حق نواز بابا احمد کا بخت تھا۔ بہت محنتی اور ذمے دار اور خوددار انسان تھا۔ اس وقت سب دوکانداروں کو معلوم تھا کہ جو سودا سلف ہے اس میں سے اگر کو?ی بھی چیز کھانے کی ہوگی تو اونٹ والا بھوک لگنے کی صورت میں کھا سکتا ہے۔ اس ل?ے وہ رانھجا سب کا سانجھا تھا۔بابا احمد اپنی جوانی میں کنویں سے پانی نکالنے اور بازو پکڑنے کے جیسے زور آزما?ی کے مقابلوں میں شریک ہوتا اور اکثر جیتتا تھا۔ سر پر سفید پگ (دستار) رکھتا تھا۔

لیکن اب اسے جوان بیٹیوں کی فکر نے ایک دم احمد میاں سے بابا احمد بنا دیا تھا۔
گھر سے زیادہ دور نہیں جا سکتا تھا۔ مرغیوں کے انڈے بیچ کر شہر کی چھوٹی منڈی سے تھوڑی سی سبزی لے آتا اور محلے میں کہیں بیٹھ کر بیچا کرتا۔ محلے کے گھروں میں چلا جاتا کسی کو بابا سے پردہ نہیں تھا۔ جس کو جو چاہیے ہوتا بابا لا دیتا۔ حساب بھی پورا سمجھادیتا تھا۔بابا جب چار پا?ی پر آ گیا تو اماں فتح کو کہتا بھاگاں والیے دعا کر اب میں مر جا?ں۔ مجھے سہارے سے اٹھنا ہر روز ماردیتا ہے۔ اماں کی آنکھیں ابل جاتیں اور کہتی۔۔۔ مر جا!اور باہر چلی جاتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں