’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 102

سوشل میڈیا اور اس کے اثرات

سوشل میڈیا اور اس کے اثرات

تحریر: اکرم عامر
چند سال قبل کی تو بات ہے جب ہم عیدین اور خوشی کے تہواروں پر اپنے عزیز و اقارب کو خوبصورت کارڈز بھجوایا کرتے تھے ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ کارڈ بھجوانے کے عمل میں پہل کرے، ان کارڈز پر تحریروں کیلئے خوبصورت اور دل کو موہ لینے والے الفاظ کا چنائو کیا جاتا تھا۔ بچے اپنے ہم عصروں کو کارٹون اور مزاحیہ کارڈ بھجواتے جب وہ کارڈ کسی کے گھر پہنچتا تو پورا گھر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ غریب، امیر سبھی تو ایک دوسرے کو کارڈ کے تحفے دیتے تھے۔ ہر شخص تہوار پر اپنے پیاروں کے کارڈز کا منتظر رہتا۔ لیکن اب عید الفطر اور عید الاضحی، کرسمس اور دیگر تہواروں پر جوش و جذبے سے کیا جانے والا یہ عمل ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح پیغام رسانی کیلئے ایک دوسرے کو خط لکھے جاتے تھے،

شہروں اور دیہاتوں کے ڈاکخانوں سے وفاقی حکومت کو اس مد میں کروڑوں روپے سالانہ ریونیو حاصل ہوتا تھا۔ اب معاشرے میں خط و کتابت کا سلسلہ سمٹ کر صرف سرکاری دفاتر، کاروباری اداروں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اور اکا دکالوگ ڈاک کے نظام (خط) کے صارف رہ گئے ہیں، اور ان کی جگہ پہلے ٹیلی فون اس کے بعد موبائل فون اور اب سوشل میڈیا نے لے لی ہے جن میں فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر، انسٹا گرام، سکائپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم شامل ہیں۔ جو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سستا ترین ذریعہ ابلاغ ہیں۔ سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ استعمال فیس بک، وٹس ایپ اور ٹویٹر کا ہے،

پاکستان میں فیس بک کے استعمال کا آغاز 2004ء کے ابتداء میں ہوا، جبکہ یہاں ٹویٹر کا استعمال مارچ 2006ء میں شروع ہوا، فروری 2009ء میں وٹس ایپ نے پاک وطن میں قدم رکھا، دیکھتے ہی دیکھتے پھر نجانے کون کون سی ان گنت سوشل میڈیا ایپس متعارف ہوئیں اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے عوام کی اکثریت کو ان ایپس نے اپنی طرف راغب کر لیا، دوسرے ملکوں کی نسبت پاکستان میں خواتین اور بچوں میں سوشل میڈیا کا استعمال تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے جس کے معاشرے پر جہاں بہت سے منفی اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں وہاں سوشل میڈیا کے فوائدبھی ہیں،

بہر حال معاشرے کیلئے یہ آئینہ ہے جس کے اندر طرح طرح کا مواد سوشل میڈیا یوزرز کو ملتا رہتا ہے۔ سوشل میڈیا نے دنیا بھر کے فاصلے سمیٹ کر رکھ دیئے ہیں۔ اس طرح تہواروں پر کارڈزاور خط و کتابت کرنے والوں نے سوشل میڈیا کا رخ کر لیا ہے۔ بچے، بوڑھے، جوان سبھی تو اس کے جال میں پھنس چکے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب دوست، احباب، تعلق داروں کو خوشی غمی و تشہیری حتیٰ کہ ہر طرح کے پیغامات سوشل میڈیا کے ذریعے دیئے جا رہے ہیں، پہلے تو پیغامات کا سلسلہ عیدین و تہواروں پر ہوتا تھا اب یہ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ صبح اٹھتے ہی آپ کو اپنے دوست احباب کے لا تعداد میسجز سوشل میڈیا پر صبح بخیر اور دینی آیات سمیت دیگر نوعیت کے دیکھنے کو ملتے ہیں، یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے

کہ ہماری اکثریتی لا شعوری قوم سوشل میڈیا کا زیادہ غلط استعمال کر رہی ہے، اور چھوٹے چھوٹے اختلافات کو سوشل میڈیا پر ابھار کر دشمنیاں پیدا کرنے کے ساتھ مذہبی، لسانی، سیاسی اختلافات کو ہوا دینے کا باعث بن رہی ہے۔ ملک میں ’’وٹس ایپ‘‘ کا کثرت سے استعمال دیکھنے میں آ رہا ہے، جس نے دیگر سہولتوں کے ساتھ خط و کتابت و تہواروں کے کارڈز کی جگہ بھی لے لی ہے، اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں پیغام رسانی کا سب سے زیادہ استعمال ہونے والا سوشل میڈیا کا ایک جز وٹس ایپ اور دوسرا ٹویٹر ہے۔ اس ایپ (وٹس ایپ) کے ذریعے پاکستان سمیت دنیا بھر میں

اربوں، کھربوں روپے کا کاروبار بھی ہو رہا ہے، اس ایپ کے بہت سے نقصانات بھی ہیں کیونکہ وٹس ایپ پر شیئر کی جانے والی پوسٹ یا ویڈیو دیکھتے ہی دیکھتے ملک سمیت دنیا بھر میں پہنچ جاتی ہے۔ اسے استعمال کرنے والوں کی اکثریت یہ تصدیق نہیں کرتی کہ وہ جو پوسٹ شیئر کر رہے ہیں وہ سچ ہے یا جھوٹ؟ جونہی پوسٹ کسی کو موصول ہوتی ہے تو وہ اسے ثواب سمجھ کر وائرل کر دیتے ہیں جس کے معاشرے پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جبکہ اب پاکستان جون 2021ء میں اس نوعیت کی اپنی پہلی سوشل میڈیا ایپ متعارف کرانے جا رہا ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر کے عوام آزادی سے سوشل میڈیا پر جو چاہیں تحریر کریں انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ کیونکہ سوشل میڈیا اب آندھی طوفان کی صورت اختیار کر چکا ہے جس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو بھی نقصان پہنچایا ہے اور اس کے باعث ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے کئی ادارے سسک سسک کر دم توڑنے لگے ہیں۔ ماضی میں ٹیلیویڑن اسٹیشن قائم کرنے اور اخبار کے اجراء پر کثیر سرمایہ کی ضرورت ہوتی تھی جبکہ کاروباری اداروں کو تشہیر کیلئے سرمایہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔

لیکن اب سوشل میڈیا بالخصوص ویب چینلز کی وساطت سے ہر شخص بغیر معاوضہ کے نا صرف اپنے خیالات کو معاشرے میں پھیلا سکتا ہے بلکہ اکثریت اپنے کاروباری اداروں کی تشہیر بھی سوشل میڈیا کے ذریعے کرنے لگی ہے۔ دنیا بھر کے ممالک اور اقوام کیلئے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ سوشل میڈیا کی گرداب میں نوجوان نسل بالخصوص بچے اور مستقبل کے معماروں کی تربیت کرنے والی مائیں (خواتین) بری طرح دھنس چکے ہیں۔
بات ہو رہی تھی کارڈز کی جو ماضی کا حصہ بن چکے ہیں، کیونکہ اکثریتی عوام اب سوشل میڈیا کی جانب راغب ہے، اور اس بیماری نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، اور سوشل میڈیا کے استعمال سے نسل نو (بچے) بری طرح متاثر ہو رہی ہے، جس کے منفی اثرات آنے والے وقت میں سامنے آئیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کے عوام بالخصوص حکمرانوں کو مستقبل کے معماروں اور نوجوان نسل کو اس لت سے نکالنے کیلئے نئی راہ متعین کرنا ہو گی۔ اس لئے حکومت پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ بروقت سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کی روک تھام کیلئے اقدامات اٹھائے اور اسے ایک حد تک محدود کر دے ورنہ آنے والے وقت میں یہ لعنت بڑھتی جائے گی اور پھر اس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہو جائے گا۔
تسی چٹھیاں پاونیاں بھل گئے
جدوں دا ٹیلی فون لگیااے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں