خواب اور الہ دین کا چراغ
خلیل احمد تھند
خان اعظم کی دھواں دار اور خوبصورت خوابوں سے مزین تقاریر سن کر ہم جیسے افراد جنہیں اپنے سیاسی تجربے کی بنیاد پر ان کی ذات سے کسی بھی کارنامے کی توقع نہیں تھی ایک مرتبہ اسی طرح ٹھٹھک جاتے تھے جیسے ہمارے بچپن کے زمانے میں سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود اچھے بھلے لوگ دیہاتوں میں مجمع لگانے والے کی باتیں سن کر رک جاتے تھے حالانکہ نتیجہ وہی پرانے والا ہی نکلتا تھا
ماضی کے سیاستدان بھی عوام کی ہمدردیاں جیتنے کے لئے بہت کچھ کرتے رہے ہیں ماضی کی سیاست دائیں اور بائیں ، بھٹو اور اینٹی بھٹو کے گرد گھومتی رہتی تھی
اس دور میں بھٹوز کے آنے اور جانے سے عوام کی خوشحالی وابستہ کی جاتی تھی اسی لئے شائد براہ راست دادی اماں کی کہانیوں کی طرح کے دلچسپ اور خوبصورت خواب دکھانے کی اتنی ضرورت بھی نہیں تھی خان صاحب کے آنے تک چونکہ نظریاتی سیاست دم توڑ چکی تھی لہذا نظریاتی چورن بکنے کے امکانات بھی نا ہونے کے برابر تھے اس لئے خان صاحب کی فلم کے ڈائریکٹرز نے ریاست مدینہ اور اہل مغرب کی ترقی پر مشتمل ڈائیلاگ انہیں ازبر کروا دئے
خان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کینیڈا کا حکمران سائکل پر سفر کرتا ہے اور ہمارے ملک میں وی وی آئی پی کلچر قائم ہے جسے وہ اقتدار میں آکر ختم کردیں گے وزیراعظم کے منصب تک پہنچنے کے بعد نجانے خان صاحب کی وہ سائکل کہاں گم ہوگئی ہے ؟ البتہ وہ سادگی دکھانے کے لئے اپنی قمیص میں دو سوراخ ضرور کرلیتے ہیں جو قدرتی طور پیدا ہونا ممکن نہیں ہے سوراخوں والی پوشاک کے ذریعے غریب عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی انکا قوم پر بہت بڑا احسان ہے
خان صاحب کا فرمانا تھا کہ مہنگائی تب ہوتی ہے جب حکمران چور ہوتے ہیں ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ صادق امین کے آنے کے بعد مہنگائی کی رفتار میں کمی کی بجائے اضافہ کیوں ہورہا ہے ؟ انکے فرمان عالی شان کے مطابق یا تو وہ خود چور ہیں یا انکے ارد گرد چور لوگ جمع ہیں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام ہم جیسے سیاسی کارکنوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں پرانے چور ہی لوٹا دو ہمیں ایسے ایماندار نہیں چاہئیں عام لوگ ہم سے بڑی معصومیت سے اس طرح تقاصا کرتے ہیں جیسے اقتدار کی شیرینی ہمارے ہاتھوں بٹ رہی ہو
خان اعظم کا فرمان تھا
کہ کرپشن کی وجہ سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ہوچکی ہیں انکے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں کرپشن کس حد تک ختم ہوئی ہر کس و ناکس اچھی طرح جانتا ہے آج بھی تھانوں اور سرکاری محکموں میں رشوت کا راج ہے جس کے خاتمے کی بجائے ریٹ بڑھنے کی باتیں سننے کو ملتی ہیں پشاور میٹرو کی کرپشن کہانیاں زبان زدعام ہیں آٹا ، چینی چوری کی داستانیں پرانی نہیں ہیں خان صاحب کا فرمان تھا کہ قرضے نہیں لیں گے بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے تمام شہری بچوں سمیت دبے ہوئے ہیں وہ آکر اس بوجھ سے قوم کو نجات دلائیں گے آج صورتحال حال یہ ہے
کہ قرضے اپنی بلند ترین شرح پر موجود ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے بوجھ میں کمی کی بجائے اضافہ کیا گیا ہےخان اعظم کے فرمان کے مطابق گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی قائم ہوگی لیکن معلوم نہیں کہ گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کہاں قائم ہے حکومتی نظام میں اس قدر ابتری ہم نے ماضی میں کبھی دیکھی نا سنی !
قانون کا شکنجہ پہلے کی طرح اج بھی کمزوروں کی گردنوں میں ہی پورا آرہا ہے مبینہ چوروں کے دور حکمرانی میں آئے روز پولیس کے ہاتھوں ہاتھ بندھے ڈکیتوں کے پولیس مقابلے سننے کو ملتے تھے جس پر ردعمل میں ہم ماورائے عدالت قتل کو غلط قرار دیتے تھے ہمارا موقف تھا اگر یہ روش برقرار رہی تو مستقبل میں بے گناہ شہری قتل ہونگے سانحہ ساہیوال ، اسلام آباد کے اسامہ ستی اور ڈجکوٹ فیصل آباد ناکے پر نہتے شہری کی ہلاکت کی خبریں ہمارے موقف کی تائید کررہی ہیں
انہوں نے فرمایا تھا اقتدار میں آکر عافیہ صدیقی کو وطن واپس لاوں گا وطن کی بیٹی 17 سالوں سے امریکی جیل میں ناحق قید سہہ رہی ہے اپنے ڈھائی سالہ اقتدار میں خان صاحب نے ایک دفعہ بھی اسکا ذکر نہیں کیا نا ہی عافیہ کی اسکے گھر والوں سے ٹیلیفون پر بات کروانا گوارا کیا
ڈھائی سال میں حکومت اپنی صفیں درست کرسکی ناہی سمت ! لگتا ہے جناب وزیر اعظم کو صبح اٹھتے وقت جو چہرہ نظر آتا ہے وہ وزیر یا مشیر بنا دیا جاتا ہے خان صاحب کی کارکردگی نے ماضی کے حکمرانوں کو معصوم بنا دیا ہے اور ساتھ ہی تبدیلی کا راستہ بھی مشکل تر کردیا ہے جو خواب تھے نجانے کہاں کھو گئے ہیں ؟ خوابوں کی تعبیر بتانے والوں کے بقول بعض خوابوں کی تعبیر الٹی ہوتی ہے لگتا ہے قوم کو دکھائی گئے
سارے خوابوں کی تعبیر الٹی ہوگئی ہے ایسی ابتر کارکرگی کے باوجود یار لوگ اپنی کارگزاری پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے اس فریب کاری کو فن یو ٹرن بنا کر نئے علم کی بنیاد رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیںسمجھ نہیں آرہی کہ الہ دین کا وہ کونسا چراغ حکمران رگڑنے میں مصروف ہیں جس سے تبدیلی اور خوشحالی کا جن برآمد ہوگا؟