’’سینیٹ انتخابات اور سیاسی چالیں‘‘ 101

’’ریاست مدینہ اور این آر او‘‘

’’ریاست مدینہ اور این آر او‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں سیاسی گرما گرمی شدت اختیار کرتی نظر آ رہی ہے، کپتان کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی قیادت کرپشن، منی لانڈرنگ اور ملکی دولت لوٹنے میں ملوث ہے۔ وہ کسی صورت ایسے عناصر جو ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوئے ہیں کو این آر او نہیں دیں گے، یعنی ان سے کسی قسم کی مفاہمت نہیں کریں گے، مگر تعجب ہے کہ بکھری اپوزیشن کے قا ئدین بھی کہنے لگے ہیں کہ وہ کپتان کو کسی صورت این آر او نہیں دیں گے، اور کپتان سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ وہ (اپوزیشن) ہر صورت کپتان کی حکومت گرائے گی، یہاں قابل توجہ امیر یہ ہے کہ حکومت گرانے کی دعویدار اپوزیشن میں پھوٹ پڑ چکی ہے، بلاول بھٹو کی تحریک عدم اعتماد کی تجویز کی (ن) لیگ نے مخالفت کر دی ہے، بہر حال اس کے باوجود حکومت اور اپوزیشن کی قیادت ایک دوسرے کو این آر او نہ دینے کاشور مچائے ہوئے ہے۔
وزیر اعظم اور اس کے کھلاڑی ملک میں ہونے والے کسی بھی نقصان کا ذمہ دار اپوزیشن کو ٹھہرانے میں تاخیر نہیں کرتے اور ساتھ یہ بھی بڑھک مار دیتے ہیں کہ وہ اپوزیشن کو کسی صورت این آر او نہیں دینگے خواہ انہیں اقتدار چھوڑنا پڑے۔ اگر کپتان یا اس کے کھلاڑیوں کی بات کو مد نظر رکھا جائے تو وقت کے حکمرانوں پر فرض ہے کہ این آر او مانگنے والے جو ان کے بقول کرپٹ، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی اثاثہ جات بنانے میں ملوث ہیں کو کیفر کردار تک پہنچائیں ان سے کرپشن اور دیگر ذرائع سے لوٹی ہوئی ملکی دولت برآمد کرا کر قومی خزانہ بھر کر ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کریں، جو دیوالیہ ہونے کے قریب ہے اور آئے روز قرضوں کی بھیک مانگ کر اس کا نظام چلایا جا رہا ہے۔
کپتان شاید بھول رہے ہیں

کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے ماضی میں جس این آر او کو کالعدم قرار دیا تھا اس میں شامل کئی اہم شخصیات اب ان (کپتان) کی ٹیم میں شامل ہو کر حکومت کے مزے لوٹ رہی ہیں عدالت کے فیصلے کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا بھی احتساب اسی طرح ہونا چاہیے جس بے رحمانہ طریقے سے اپوزیشن یا حکومت مخالف شخصیات کا ہو رہا ہے۔ کپتان کہتے ہیں کہ پرویز مشرف ملک میں کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے سیاستدانوں کا دبائو برداشت نہ کر سکے اور موصوف نے کرپشن زدہ عناصر کو این آر او دیا، کپتان کی این آر او دینے کی بات درست ہے لیکن اگر وہ (کپتان) اپنی کابینہ اور ملک چلانے والے کھلاڑیوں پر نظر دوڑائیں تو ان میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جو پرویز مشرف کے دیئے گئے این آر او سے مستفید شدہ ہیں، ان میں اکثریت وہی شخصیات ہیں جو ہر دورمیں چڑھتے سورج کو دیکھ کر قلا بازی کھا کر اپنی سیاسی وفاداری بدل لیتی ہیں۔

اور سیاست میں یہی وہ لوگ ہیں جو ملک کو ریاست مدینہ بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ کیونکہ یہی لوگ ہر دور میں چہرے بدل کر اقتدار میں آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ہر آنے والی حکومت میں صرف چہرے بدلتے ہیں نظام نہیں۔ کیونکہ نظام بدلنے کی صورت میں یہی سیاستدان یا ان کے عزیز و اقارب کڑے احتساب کی زد میں ہونگے۔ تو اگر احتساب صاف شفاف ہو گیا تو یہ ملک ریاست مدینہ بن سکتا ہے۔ ایسا تب ہی ہو گا جب عوام جاگیر داری نظام، برادری ازم اور چمک سے بالا تر ہو کر اپنے نمائندے منتخب کر کے اقتدار میں بھجوائیں گے۔ تب حقیقی نمائندے اقتدار پر براجمان ہونگے جنہیں علم ہو گا کہ عوام کے مسائل کیا ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں اقتدار میں اکثریت جاگیر دار، وڈیروں،سرمایہ داروں پر مشتمل ہے جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں اور جوانی تک انکے ہر طرف پیسے کی ریل پیل رہی ہے،

ایسے منتخب نمائندوں کو غریب عوام کے مسائل اور آٹے، چینی، دال کے بھائو کا کیا علم ہو گا؟ سو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی بات ہو رہی تھی سیاست میں حکومت اور اپوزیشن کے این آر او دینے کی تو اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ تنقید برائے تنقید کی بجائے تنقید برائے اصلاح اور جمہوریت کی بقاء کے لئے جدوجہد کریں۔ نا کہ محض کپتان کی حکومت کو گرانے کے لئے۔ کیونکہ آج نہیں تو کل ان (اپوزیشن) بھی حکومت میں آ سکتی ہے۔تو پھر اس وقت جو اپوزیشن ہو گی وہ یہی راگ الاپے گی اس لئے سیاسی اقدار کو بدلنا ہو گا، احتجاج سیاستدانوں کا حق ہے لیکن احتجاج عوام کے مفاد کیلئے کرنا چاہئے، نا کہ ذاتی مفاد کیلئے۔
کپتان کو بھی چاہیے کہ وہ این آر او نہ دیں اور احتساب کریں مگر بلا امتیاز۔ کیونکہ بادی النظر میں احتساب کی زد میں اکثریت اپوزیشن شخصیات کی ہیں۔ جبکہ ملک لوٹنے والے کئی لٹیرے حکومتی چھترے تلے ہر دور کی طرح پناہ لیے ہوئے ہیں، اسی طرح کپتان جی ملک کے اہم عہدوں پر تقرریاں بھی میرٹ پر ہونی چاہئیں یہاں تو دوستوں کو اہم عہدوں پر نواز کر بڑی تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ ریاست مدینہ میں تو احتساب اپنے آپ سے شروع ہوتا ہے اور ایک مزدور کی تنخواہ اس کی ضروریات زندگی کو مد نظر رکھ کر طے کی جاتی ہے، مگر یہاں سب اس کے بر عکس ہو رہا ہے،

مزدور ملک میں پس رہا ہے اور سرمایا دار کے سرمائے میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ کپتان جی ملک کو ریاست مدینہ بنانے کیلئے مخالفین کے ساتھ ایسے کرپٹ عناصر جو آپ کی چھتری تلے پناہ لیے ہوئے ہیں، ان کا بھی احتساب بے رحمانہ کرنا ہو گا؟ تب بنے گا ملک ریاست مدینہ، اسی صورت میں پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے گا، ورنہ ہر حکومت کی طرح کپتان جی آپ کا شمار بھی ماضی کے حکمرانوں کی طرح صرف احتساب کا نعرہ لگانے والوں میں ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں