صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ 119

اے محبت میں تمہیں طلاق دیتاہوں

اے محبت میں تمہیں طلاق دیتاہوں

تحریر:شہزادافق
شام کا وقت تھا۔ جب قندیل کرسی پر بیٹھا کتاب کا مطالعہ کررہا تھا ۔اسے واٹس ایپ پر ایک SMS رسیو ہوا ۔۔کہ آج میری منگنی ہوگئی ہے.
وہ SMSشازم کاتھا۔۔۔قندیل کے لیے یہ SMSنہیں تھا ۔۔۔بلکہ یہ تو ایک موت کا پیغام تھا۔جو قندیل کوجیتے جی موت کی جانب دھکیل رہا تھا ۔جیسے موت نے اسے گلے لگالیا ہو۔ اس کی جیسے سانسوں نے جیسے چلنا چھوڑ دیا ہو۔ اسے ایسا لگ رہاتھا کہ زندگی نے ہمیشہ ہمیشہ کیلیے دامن چھڑا لیاہو۔بس وہ خاموشی سے اپنی بربادی کاتماشہ دیکھ رہاتھا۔اس کا ۔۔تھا ہی کون سوائے شازم کے ۔ جسے وہ اپنا دکھ درد سناتا، ایک شازم ہی تو تھی ،جو ہمدرد تھیاس کی، وہ تو پہلے دھوکے کاشکار تھا۔ اور ایک کمرے میں ایک سال تک بند رہاتھا۔نفسیاتی مریض بن چکا تھا، بس اپنی موت کا پل پل انتظار کررہاتھا ۔۔۔!
اچانک پھر اس کی زندگی میں شازم آئی تھی، جیسے وہ کبھی کبھار فرشتہ بھی بلایا کرتاتھا۔اس بدنصیب کویہ سمجھ نہیںآرہاتھا کہ قسمت آخر اس سے چاہتی کیاہے ۔۔۔!اس کے ساتھ ایساکیوں ہورہا ہے۔وہ سوچ سوچ کر پل پل مرنے لگا۔۔۔! وہ کرے بھی تو کیا کرے ،وہ پہلے ہی بامشکل سے پہلے صدمات سے نکل رہا تھا، کہ زندگی اور قسمت نے پھر دو ہاتھ کردیئے۔اس کا جی چاہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور وہ زمین میں دھنس جائے۔ آج اس کا جی چا رہا تھا کہ خدا سے ناراض ہوجائے۔ اپنی قسمت کو کوسنے لگا۔مگر جو ہونا تھا وہ تو ہوچکاتھا۔ اور وہ شازم سے وعدہ کرچکا تھا

،قسم دے چکا تھا ،کہ اگر زندگی میں ہم ایک نہ ہوسکے ،تو اپنی آپ کو موت کے حوالے نہیں کرے گا۔ بس اب تو عہد کرچکا تھا ، اگر اس کے پاؤںمیں عہد کی زنجیر نہ ہوتی تو شاید اب تک وہ اپنے آپ کو موت کے حوالے کرچکاہوتا ،مگراب تواسے ہرحال عہدوفا نبھانا تھا ، اب اسے اب پل پل مرنا تھا۔ اب تو اس کی زندگی موت سے بھی بدتر ہوچکی تھی۔ کیونکہ وہSMS اب تو اس زندگی میںایک نہ تھمنے والا طوفان برپا کرچکا تھا۔۔۔! انہیں خیالوں میں ڈوبتا جارہا تھا ، اس کے اردگر جیسے د دور دورتک میلوں کوئی نظر نہیں آرہاتھا ۔نہیں کرنی بات، اب مجھ سے ،افسردگی کے عالم میں ،شازم نے کہا۔۔۔ ایک آپ ہی تو مجھے سمجھ سکتے ہو۔۔
”تم ایک اُمید تھے، اُمید ہو، اور اُمید رہو گے” جیسے وہ خود کسی صدمات سے گزر رہی ہو۔ قندیل نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھال اور ہمت کرکے شازم سے کہا میں ہمیشہ آپ کیساتھ ہوں اور رہوں گا۔مگر شازم نے جواب دیامجھے آپ کی ہمدریاں نہیں چاہیں۔۔۔!میں ٹوٹ چکی ہوں۔۔آج میرادل چاہ رہا ہے ،کہ آ پ میرے سامنے ہوں میں آپ کوگلے لگا کر بہت روؤں۔۔۔! آپ سے لڑو میرا دل پھٹ رہا ہے۔میں گھبراٹ سے مری جارہی ہوں۔۔!
آپ ہی بتاؤ، قندیل میرا اس میں قصور کیا ہے۔میں ایک لڑکی ہوں ،کیا بغاوت پر اتر آؤمیں؟کیا بھاگ کر آپ میںکے پاس آجاؤں…؟بولو ۔۔۔کیاکروںـــ۔۔۔؟ مرجاؤں ،میں انہیں بتا بتا کر تھک چکی ہوں، ہار چکی ہوں ،مگر کوئی میری بات سننے کوتیار نہیں ہے۔گھر میں۔۔مایوس ہوکر
کہا۔۔۔بولو چپ کیوں ہو اب۔۔۔؟اپنے پیار کی خاطر سب کو رسوا کردوں۔۔؟ معاشرے کے تانے سننے کے لیے۔۔۔؟ کیا میرے ماںباپ جیتے جی مر جائیں۔۔؟
کیامیںایک رشتہ بنانے کے لیے اتنے رشتوں کو قربان کردو ں۔۔۔؟ بولو اب چپ کیوں ہو جواب دو میری باتوں کاچلو ایک بات بتاؤ مجھے
کیا میں بھاگ کر آبھی جاؤ ۔۔۔!اس کے بعد اگرمیری بیٹی پیدا ہوتو بڑی ہو کر ،کیااس معاشرے میں جی پائے گی..؟کیا معاشرے کے تانے اسجینے دیں گے۔۔۔! جب وہ مجھے کہے گی ،ماں آپ بھاگ کر آئی تھیں کیوں ماں۔۔۔۔!کیا میں اس سے نظریں ملا پاؤں گی…؟
قندیل چپ چاپ بت بنایہ سب سن رہاتھا۔اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔کیوں کہ شازم کوپیارتو تھا ،مگر اسے ز مانے کی طرف سے اٹھتی انگلیاں نظر آرہی تھی۔

وہ نہیں چاہتی ،میری طرح میری بیٹی بھی برباد ہو جائے، اس کی بھی زندگی تباہ ہوجائے۔ وہ کرتی بھی تو کیا کرتی ،ماں باپ کی خوشی کی خاطر یہاں کتنی بیٹیاں اپنی خوشی کو ماں باپ کی عزت شان وشوکت کی خاطر اپنا پیار خوشیاں خواہشات سب کچھ قربان کردیتی ہیں۔سمجھ نہیں آتی ،قربانی کے لئے تو رب نے جانور کا کہا تھا ،مگر انسان نے تواپنی بیٹی کو قربان کرنا فرض سمجھ لیا یے۔قندیل سمجھاؤ اس معاشرے کو ہم بھی انسان ہیں ہماری بھی خوشیاں ہوتی ہیں ۔ہمارے بھی کچھ خواب ہوتے ہیں قندیل ایک تم ہی توہوجو مجھے سمجھ سکتے ہو، میرادکھ جان سکتے ہو، میری مجبوری کو سمجھ سکتے ہو، قندیل مجھے آپ پر مان ہے،اور تم میرامان کبھی نہیں توڑو گے وعدہ یاد ہے نا تمہیں۔۔۔بس اب اپنے ساتھ ایسا کچھ نہیں کروگے۔

۔بس یہی سوچ لو ہمارا ملنا مقدر اور بچھڑنا نصیب تھا۔وہ مسلسل بولے جارہی تھی مگر قندیل چپ چاپ سن رہا تھا ،شازم کی سب باتیں۔قندیل کو سمجھ نہیں آرہی تھی کیا جواب دے شازم کو۔۔شازم ٹوٹ چکی تھی ،بکھر چکی بے آسرا،ہوچکی تھی۔ مگر پھر اپنے آپ کو سمیٹنے کی ایک ناکام کوشش کررہی تھی۔اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرنے کی جستجو میں لگی تھی مگر قندیل اس وقت سب جانتاتھا ،کہ وہ شازم پر کیا بیت رہی ہے،حالانکہ شازم ایک پڑھی لکھی باہمت لڑکی تھی اور حالات کا مقابلہ کرنابھی جانتی تھی۔مگرجوحالات اورقسمت نے جس موڑ پر اسے لا کرکھڑا کردیا تھا۔جہاں وہ بہادر لڑکی آج بے بس ولاچار کھڑی اپنی ہی بربادی کاتماشہ، اپنی ہی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔تو آخری الفاظ یہی تھے ــ’

‘محبت مجھے تم سے نفرت ہے” اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شازم چلی گئی۔ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ،قندیل کو تنہائی کے حوالے کر کے۔ قندیل توپہلے ہی ٹوٹ کر بکھر چکا تھا،خوشی ناطہ توڑچکا تھا،اس کی زندگی میں تاریکی نے گھر کرلیاتھا۔ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا تھاشازم ملے ہوئے۔ اس فرشتہ کی وجہ (شازم کو ،قندیل پیار سے فرشتہ کہتاتھا)سے خودکو بربادی کی اس دلدل سے نکال ہی رہاتھا کہ ایک اور بربادی اورغم اس خوش آمدید کہنے کے لئے انتظار میں تھے ۔قندیل نے بھی محبت سے آخری باریہی کہا” اے محبت میں تمہیں طلاق دیتاہوں ۔مجھے تم سے نفرت ہے ،نفرت ہے نفرت ہے”بس اس کے بعد قندیل کہا چلا گیا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں