میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں ؟
خلیل احمد تھند
آہ ! ایک معصوم جان اقراء کائنات جسے جرمنی کے ہٹلر دور میں نازی کیمپوں میں قید یہودیوں کی طرح بھوکا پیاسا رکھ کر اذیت ناک موت دی گئی کاشانہ کی سپریٹنڈنٹ افشاں لطیف شور ڈالتی رہی کہ اقراء کائنات سمیت پچاس سے زائد بچیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اس میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے اعلی افسران سمیت دو صوبائی وزراء راجہ بشارت اور اجمل چیمہ ملوث ہیں افشاں لطیف کے بقول وزیراعلی پنجاب عثمان بژدار اور خاتون اول بشری’ بی بی کاشانہ کا وزٹ کر چکے لیکن نتیجہ چودھری شجاعت حسین والا مٹی پاو !
افشاں لطیف کاشانہ سے باہر ہے بچیاں لاپتہ ہیں اور معصوم اقراء کائنات جان کی بازی ہار چکی ہے اسکا قصور یہ تھا کہ وہ کاشانہ کے مکروہ اسکینڈل کی باشعور گواہ تھی
اقراء کائنات کی موت کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے سوال یہ ہے کہ کیا لاوارث انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں؟ وہ کمزور جان جو معاشرتی ناہمواریوں کی ستم ظریفیوں سے بچنے کے لیے کاشانہ شیلٹر ہوم میں پناہ حاصل کرنے کے لئے آئی تاکہ تحفظ کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرکے معاشرے میں عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا ہنر سیکھ سکے لیکن اسکی عزت محفوظ رہی نا ہی زندگی !دوسرا ظلم اس معصوم پر یہ ہوا کہ اسکی انہونی موت کی تحقیقات کے لئے کوئی مدعی بننے کے لئے تیار نا ہوا اسکا خاوند ، چائیلڈ پروٹیکشن بیورو اور ناہی افشاں لطیف کہ جس کی سرپرستی میں شادی کے بعد کاشانہ سے اسکی رخصتی ہوئی تھی
ہم نے افشاں لطیف سے کاشانہ میں ڈھائے جانے والے ظلم اور اقراء کائنات کی موت کی دلخراش داستان سنی تو لاہور اور اسلام آباد میں اسکے ساتھ مل کر زبردست احتجاج ریکارڈ کروایا جب ہمیں محسوس ہوا کہ افشاں لطیف اقراء کائنات کی موت کا مقدمہ صرف سڑکوں پر لڑنا چاہتی ہیں اور قانونی چارہ جوئی سے کلی طور پر گریزاں ہیں (حالانکہ ہمارے وکیل سے انکی ملاقات میں پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا ) تو ہم نے ان سے مایوس ہوکر معروف ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ عبداللہ منصور کی معاونت اور معروف قانون دان ملک ذیشان احمد اعوان ایڈووکیٹ کی وساطت سے خود عدالت کا رخ کیا ہمیں امید ہے کہ معزز عدالت معصوم اقراء کائنات کی موت کی تحقیقات کے لئے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم جاری کرے گی تاکہ معصوم اقراء کائنات کی موت کے متعلق افشاں لطیف کے مبینہ انکشافات اور اسکی موت کا سبب بننے والے کرداروں کی تحقیقات ہوسکیں
کاشانہ اسکینڈل اور اقراء کائنات کی مظلومانہ موت کی سامنے آنے والی تفصیلات کے بعد افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ سرکاری شیلٹر ہومز میں بے سہاروں کو عزت اور جان کا تحفظ حاصل نہیں ہے اگر افشاں لطیف کے الزامات میں سچائی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کے لاوارث اور بے سہارا افراد کہاں امان حاصل کریں؟
جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے گی تو فصل کی حفاظت کون کرے گا ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے اور ریاست پر اختیار رکھنے والے مائی باپ کی طرح ہوتے ہیں کاشانہ لاہور کی سپریٹنڈنٹ اور گریڈ 17 کی آفیسر افشاں لطیف کے مطابق چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ارباب اختیار اور دو صوبائی وزراء کاشانہ میں سرزد کئے گئے گھناونے فعل میں ملوث ہیں افشاں لطیف کے الزامات معمولی نہیں ہیں ان الزمات سے ریاست کی حیثیت اور کردار پر کئی سوالات کھڑے ہوتے ہیں ان سوالات کے تسلی بخش جواب کے لئے کاشانہ اسکینڈل اور اقراء کائنات کی موت کی تحقیقات بہت ضروری ہیں اسی کام کا بیڑہ پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی نے اٹھایا ہے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے ، مسقبل میں ایسے گھناونے واقعات کی روک تھام ہوسکے اور بے سہارا افراد بے دھڑک سرکاری پناہ گاہوں میں تحفظ حاصل کرسکیں ہمیں امید ہے کہ ہم اس مقصد میں کامیاب ہونگے