افسانہ (فکر فرات)
ریاض جاذب
ایک چھوٹے سے شاپر میں لنگر کے چاول لیے وہ ماتمی قافلوں کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ ایک دو بار وہ لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے بے دھیانی میں شاپر میں ہاتھ ڈالتا ہے اور پوری طرح سے منہ کھول کر تھوڑے سے چاول منہ میں پھینک دیتا ہے۔ماتمی قافلے۔ نوحے کی آواز۔ شور ہی شور۔ نعرے ہی نعرے۔ ان نعروں کی گونج میں۔ اس شور کی یلغار میں کو ئی کیسے سوچ سکتا ہے۔ کوئی کیسے سن سکتا ہے۔ ایک باز گشت۔ ایک انجانی بازگشت۔ ایک جھنجھوڑ پن جو اس کی طبیعت پر چھایا ہوا ہے۔
وہ بس چلتا جا رہا ہے۔ بغیر ارادے کے بے خبر۔ بے دھیانی میں۔ اپنی ذات کے اندر گم اور جہاں وہ خود کو بھی گمشدہ پاپا ہے۔ کبھی وہ ہلکی سی سینہ کوبی بھی کرتا ہے۔ کبھی رک جاتا ہے۔ ایک جگہ دیکھتا ہے کہ سادہ پانی اور میٹھے شربت کی سبیل لگی ہے۔ایک پل کو سبیل کے پاس جا کے رکتا ہے۔ گلاس اس کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے جسے وہ لے کر ایک گھونٹ پی کر رکھ دیتا ہے۔ پھر گلاس اٹھاتا ہے۔ سرخ رنگ کا شربت پیتے ہوئے پھر سے اسے جانے کیا سوجھتی ہے کہ جھٹ سے گلاس رکھ اپنی قمیص کو پکڑ کر اس سے منہ صاف کرتاہے۔ سر اٹھاتا ہے۔ سڑک کی طرف دیکھتا ہے۔ سرخ خون کے دھبے۔ جھٹ سے گلاس رکھ کر ہجوم کی جانب لپکتا ہے۔ جیسے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ جیسے وہ کچھ بے تاب سا ہو۔
اس رش کو چیرتا ہوا لوگوں کے عین اندر پہنچ جاتا ہے۔ کالے کپڑے بھی اس نے زیب تن کر رکھے تھے۔ سر پر سیاہ پٹی بھی باندھی ہوئی تھی۔ ہجوم کو چھوڑ ایک سیدھی لمبی سڑک پڑ دیوانہ وار دوڑنا شروع کر دیتا ہے۔دس منٹ دوڑنے کے بعد اسے ایک اور ہجوم دکھائی دیتا ہے یہاں بھی لوگ تو بہت ہیں مگر کالے کپڑے نسبتاً کم نظر آ رہے ہیں۔
کیا دیکھتا ہے۔ بہت سارے لوگ آجا رہے ہیں جیسے کسی میلے پر آئے ہوں۔
پھلوں کے سٹال لگے ہیں، چائے کے سٹال بھی۔ گرما گرم جلیبی بھی تیار ہو رہی ہے۔
سڑک سے تھوڑی دور ایک ساتھ بہت سارے لوگ جمع ہیں۔ قریب جا کر دیکھتا ہے تو وہ بھی غم زدہ ہیں۔ اشکبار ہیں۔ کیا دیکھتا ہے سفید اجلے کپڑوں میں ملبوس ایک مولوی صاحب سب کو رلائے جا رہے ہیں۔ پیچھے کی طرف ذرا جھک کر سب کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔
گھر کی طرف چلنے کا ارادا کرتا ہے۔ گھر پہنچتا ہے تو کیا دیکھتا ہے۔ گھر میں بالکل سناٹا ہے۔ نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ بہت دھوپ بھی ہے۔ جانور دھوپ میں بندھے ہیں۔ مرغیاں اپنی جالی میں پابند سلاسل پیاس سے تڑپ رہی ہیں۔ طوطا بھی شرین کے درخت کے ساتھ پنجرے میں بند ہے جس کے اندر نہ تو کچھ کھانے کو ہے نہ پینے کو۔
شاپر سے چاول نکالتا جاتا ہے۔ بھاگتا جاتا ہے۔ طوطے کے پنجرے میں ڈال۔ مرغیوں کی جالی میں ڈال بھاگتے بھاگتے نل سے پانی بھرتا ہے اور پہلے طوطے اور مر غیوں کو پلاتا ہے پھر گائے وغیرہ کو بھی پانی پلاتا ہے۔ اچانک مڑتا ہے اور پہلے مرغیوں کو با ہر نکال دیتا ہے۔
پھر طوطے کو پنجرے سے نکالتا ہے، اسے لے کر ریتلی زمین پر بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں ہاتھوں میں لے کر اسے چومتا ہے اور ہوا میں اچھال دیتا ہے۔ طوطا اڑ کر ایک دوسرے درخت پر جا بیٹھتا ہیاور اپنی خوبصورت آنکھیں مٹکاتا ہوا اسے دیکھتا ہے جیسے شکریہ ادا کر رہا ہو۔ وہ خود اس پورے دورنیے میں پہلی بار مسکراتا ہے۔ اذان کی آواز آتی ہے۔