ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت 138

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں خلیفہ بلافصل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات پر کہ جن کے اہل اسلام پر لاکھوں احسانات ہیں۔ وہ قومیں دنیا کے افق سے غروب ہوجاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو فراموش کر دیتی ہیں آئیے آج اس عظیم محسن امت کامختصر تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کے تذکرے سے ایمان کو تازگی اور عمل کو اخلاص کی دولت ملتی ہے۔ولادت:آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تین سال بعد 573ء میں ہوئی۔نام و کنیت اور لقب:
زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام عبد رب الکعبہ تھا۔ امام قرطبی کے بقول حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا نام عبداللہ تجویز فرمایا۔ کنیت ابوبکر ہے۔ اور لقب صدیق و عتیق ہیں۔حلیہ مبارک:تاریخ کی کتب میں آپ رضی اللہ عنہ کے حلیہ مبارک کچھ اس طرح منظر کشی کی گئی ہے کہ آپ کا رنگ سفید، رخسار ہلکے ہلکے، چہرہ باریک اور پتلا، پیشانی بلند۔
پاکیزہ بچپن:
مرقاۃمیں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تشریف فرماتھے تو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے بچپن کا واقعہ سناتے ہوئے فرمانے لگے کہ یارسول اللہ! میریوالدزمانہ جاہلیت میں مجھے بت خانے لے گئے اور بتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا یہ تمہارے خدا ہیں انہیں سجدہ کر۔ وہ تو یہ کہہ کر باہر چلے گئے۔ تو میں نے بتوں کو عاجز ثابت کرنے کے لیے کہا میں بھوکا ہوں مجھے کھانا دے۔وہ کچھ نہ بولا۔فرمایا:میں ننگا ہوں مجھے کپڑا پہنا۔وہ کچھ نہ بولا۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے پتھر ہاتھ میں لے کر فرمایا میں تجھ پر پتھر مارتا ہوں اگر تو خدا ہے تو اپنے آپ کو بچا۔وہ پھر بھی کچھ نہ بولا تو آخر کار میں پوری قوت سے اس کو پتھر مارا تو وہ منہ کے بل گر پڑا۔ عین اسی وقت میرے والد واپس آئے۔یہ ماجرا دیکھ کر فرمایا

کہ یہ کیا کیا؟ میں نے کہا وہی جو آپ نے دیکھا۔ وہ مجھے میری والدہ کے پاس لے کر آئے اور سارا واقعہ ان سے بیان کیا۔انہوں نے فرمایا اس بچے سے کچھ نہ کہو کہ جس رات یہ پیدا ہوئے میرے پاس کوئی نہ تھا میں نے ایک آواز سنی کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا: اے اللہ کی بندی! تجھے خوشخبری ہو اس آزاد بچے کی جس کا نام آسمانوں میں صدیق ہے اور جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست ہے۔
تاریخ الخلفاء میں ہے کہ ایک بار صحابہ کرام میں سے کسی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے جاہلیت میں شراب پی ہے۔آپ نے فرمایا خدا کی پناہ میں نے کبھی شراب نہیں پی۔لوگوں نے کہا کیوں؟فرمایا میں اپنی عزت و آبرو کو بچاتا تھا اور مروت کی حفاظت کرتا تھا۔اس لئے کہ جو شخص شراب پیتا ہے اس کی عزت و ناموس اور مروت جاتی رہتی ہے۔جب اس بات کی خبر حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے دو بار فرمایا سچ کہا ابوبکر نے سچ کہا۔
مبارک خواب:
سیرت حلبیہ میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ بغرض تجارت شام تشریف لے گئے وہاں آپ کی ملاقات بحیرا راہب سے بھی ہوئی وہ خوابوں کی تعبیر بتلایا کرتے تھے ان سے اپنا خواب ذکر کیا کہ میں نے خواب دیکھا کہ مکہ میں کعبۃ اللہ کی چھت پر چاند اترا ہے اور اس کی روشنی سارے گھروں میں پھیل گئی ہے پھر وہ روشنی میری گود میں آگئی ہے۔ بحیرا راہب نے تعبیر دیتے ہوئے کہا کہ تو اس نبی کی تابعداری کرے گا جس کی اس زمانے میں انتظار کی جا رہی ہے اور اس کے ظہور کا زمانہ بہت قریب آچکا ہے تو اس نبی کے قرب کی وجہ سے لوگوں میں سب سے زیادہ سعادت مند ہوگا۔
قبول اسلام:
خصائص الکبریٰ میں ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے شام میں خواب دیکھا۔اس کی تعبیر بحیرا راہب سے پوچھی تو اس نے کہا کہ تیری قوم میں ایک نبی مبعوث ہوگا تو اس کی زندگی میں اس کا وزیر ہوگا اور اس کی وفات کیبعد اس کا خلیفہ ہوگا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس بات کو اپنے دل میں چھپائے رکھا پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے نبی سے اس پر دلیل مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ اس کی دلیل وہ خواب ہے جو تو نے شام میں دیکھا تھا۔ چنانچہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر بوسہ دیا۔
مقام نگاہ نبوت میں:
آپ کا مقام نگاہ نبوت میں بہت بلند تھاحضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی چیز ایسی اللہ تعالی نے میرے سینہ میں نہیں ڈالی جس کو میں نے ابو بکر کے سینہ میں نہ ڈال دیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ’’وہ کون شخص ہے جس نے آج روزہ رکھ کر صبح کی ہو؟ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا وہ کون ہے جو آج کسی جنازہ کے ساتھ گیا ہو؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیامیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا!وہ کون ہے جس نے آج مسکین کو کھا نا کھلا کر تسکین دی ہو؟ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا، وہ کون آدمی ہے جس نے آج کسی بیمار کی خبر گیری کی ہو؟ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، میں نے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا، یہ کام اُسی آدمی میں جمع ہوتے ہیں جو جنت میں جائے گا۔
ہجرت حبشہ کا ارادہ:
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہیجب اہل اسلام پر آزمائشوں کا شکار ہوئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے حبشہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا اور برک الغماد تک پہنچ بھی چکے تھے تو وہاں قبیلہ قارہ کے سردار ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔ اس نے پوچھا ابوبکر کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا: مجھے میری قوم قریش نے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے تو میں نے ارادہ کیا ہے کہ یہ زمین چھوڑ کر حبشہ چلا جائوں تاکہ اپنے رب کی عبادت کر سکوں۔ ابن الدغنہ نے کہا: اے ابوبکر!آپ جیسے لوگ نہ از خود نکلتے ہیں اور نہ ہی نکالے جانے چاہییں آپ لوگوں کو وہ چیزیں دیتے ہو جو ان کے پاس نہیں ہوتیں۔ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں۔لوگوں کیاخراجات وغیرہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔مہمان نوازی کرتے ہیں اور جھگڑوں میں حق والوں کی مدد کرتے ہیں۔ ابن الدغنہ کہنے لگے: میں آپ کو پناہ دیتا ہوں آپ واپس لوٹ جاؤ اور اپنے شہر میں رب کی عبادت کرو۔ تو آپ واپس آگئے۔(صحیح البخاری، الرقم:3905)
اوصافِ نبوت کا عکس جمیل:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی جس کی ہیبت و عظمت سے آپ خشیت کے عالم میں گھر تشریف لائے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: مجھے کپڑا اوڑھا دو مجھے کپڑا اوڑھا دو۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑا اوڑھا دیا اور کچھ دیر بعد وہ خوف کی کیفیت ختم ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو واقعہ سنایا،فرمایا مجھے اپنی جان کا خوف محسوس ہو رہا ہے۔اس موقع پر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئیفرمایا:خدا کی قسم!اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا۔ آپ توصلہ رحمی کرتے ہیں،بے کس و ناتواں لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، دوسروں کو مال واخلاق سے نوازتے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق بجانب امور میں مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔
رفیقِ غار و مزار:
قبول اسلام کے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق بنے اور ایسے رفیق بنے کہ یہ رفاقت ہمیشہ قائم رکھی اور وفا کی انتہاء دیکھیے کہ آج بھی صدیاں بیت جانے کے بعد مزار اقدس میں اسی رفاقت کو نبھائے چلے جا رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی سچی رفاقت کی گواہی اپنے عمل سے دی۔ چنانچہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ اشاعت و تحفظ اسلام کے عظیم مشن پر لگ گئے۔ اس کے لیے دعوت و تبلیغ اور فتنوں کا مقابلہ کیا۔
صحبت و معیت:
قبول اسلام سے پہلے بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت عمدہ تعلقات تھے اور قبول اسلام کے بعد تو ساری زندگی آپ سے لمحہ بھر کے لیے جدا نہ ہوئے۔ یہاں تک کہ آج تک روضہ مبارکہ میں آپ کے پہلو میں ساتھ نبھا رہے ہیں۔
دعوت و تبلیغ:
سیرۃ لابن ہشام میں چند ان جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام موجود ہیں جنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، نام یہ ہیں: عثمان بن عفان، زبیر بن العوام، عبدالرحمٰن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، طلحہ بن عبیداللہ، عثمان بن مظعون، ابوعبیدہ، ابو سلمہ بن عبدالاسد حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم اجمعین۔ ان میں سے بعض کا شمار عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے جن کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں نام لے کر جنتی ہونے کی بشارت دی تھی۔
ہجرت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اللہ کے دین کی دعوت دیتے رہے بعض خوش نصیب افراد نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اسلام قبول کر لیا لیکن اکثر اپنی سرکشیوں کی وجہ سے آپ کو اور آپ کے رفقاء کار کو طرح طرح کی تکالیف دیتے، اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم نازل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خطر سفر میں اپنے رفیق سفر کا جب انتخاب فرماتے ہیں توآپ کی نگاہ سیدنا صدیق اکبر پر جا کر ٹھہرتی ہے۔ اسی سفر میں وہ واقعہ بھی پیش آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر سوار ہو گئے اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر غار ثور تک پہنچے۔ غار کی صفائی کی، آپ تین دن تک وہاں رہے۔ آپ کی بیٹی روزانہ لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر آپ کے لیے کھانا پہنچاتیں۔ دشمن آپ کی تلاش میں پیچھے پیچھے غار تک پہنچ گیا یہاں تک کے اس کے قدم بھی دکھائے دینے لگے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم کے بارے میں خوف ہوا تو تسلی کے لیے قرآن کی آیات نازل ہوئیں مزید سیدنا صدیق اکبر کی صحابیت کا اعزاز بھی اپنے سینے پر تاقیامت نقش کردیا۔اس غار میں وہ سانپ کے ڈسنے والا واقعہ بھی پیش آیا۔ جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب دہن سیدنا صدیق اکبر کی ایڑی پر لگایا۔
خلافت :
سیرت حلبیہ میں موجود ہے کہ امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس لیے اتفاق کر لیا تھا کہ اس آسمان کے نیچے ابو بکر سے بہتر اور کوئی شخص نہیں تھا۔
خلافت کا مفہوم:
امام شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’ازالۃ الخفائ‘‘ میں خلافت کے مفہوم پرنہایت ہی عمدہ اور لطیف بحث کی ہے۔جس کا خلاصہ یہ ہے: حضرت سرور ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عام تھی اور آپ تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے واسطے مبعوث ہو ئے تھے بعد بعثت آپ نے جن امور کا اہتمام کوشش بلیغ کے ساتھ فرمایا…تمام کوششوں کا مرجع اقامت دین تھی … علوم دین کا احیاء (قائم رکھنا اور رائج کرنا) علوم ِ دین سے مراد ہے قرآن و سنت کی تعلیم اور وعظ و نصیحت، ارکانِ اسلام نماز، روزہ، حج وغیرہ کا قیام و استحکام، لشکر کا تقرر غزوات کا اہتمام، مقد مات کا انفصال، قاضیوں کا تقرر، امر با لمعروف (عمدہ افعال و اوصاف کا حکم دینا اور ان کو رائج کر نا) اور نہی عن المنکر (بری باتوں کو روکنا اور ان کا انسداد کر نا) جو حکام ِ نائب مقرر ہوں ان کی نگرانی کہ پا بند ِ حکم رہیں اور خلاف ورزی احکام نہ کریں۔ ان جملہ امور کا

اہتمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس ِ نفیس فر مایا اور ان کے انصرام کے واسطے نا ئب بھی مقرر ہوئے وعظ و نصیحت فر مائی، صحابہ کو ممالک میں وعظ و نصیحت کے واسطے بھیجا، جمعہ و عیدین و پنج وقتہ نماز کی امامت خود فرمائی، دوسرے مقامات کے واسطے امام مقرر کیے، وصول زکوٰۃ کے واسطے عامل ما مور کیے، وصول شدہ اموال کو مصارف مقررہ میں صرف کیا۔رویت ہلال کی شہادت آپ کے حضور میں پیش ہوئی اور بعد ثبوت روزہ رکھنے یا عید کرنے کا حکم صادر ہو تا، حج کا اہتمام بعض اوقات خود فر مایا بعض اوقات نائب مقرر کیے جس طرح 9ہجری میں حضرت ابوبکر صدیق کو امیر حج مقرر کر کے بھیجا، غزوات کی سپہ سا لاری خود کی نیز اُمراء نائب سے یہ کام لیا گیا مقد مات و معاملات کے فیصلے کیے گئے قاضیوں کا تقرر عمل میں آیا۔ گویا خدائی احکامات کو نبوی منہج کے مطابق نافذ کرنے کا نام خلافت ہے۔
خلافت کے بعد ابتدائی خطبہ:
البدایہ والنہایہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد دوسرے دن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت عام ہوئی۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک فقید المثال خطبہ دیا:حمد وثنا کے بعد فرمایا: لوگو!میں آپ لوگوں پر ولی منتخب کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہترین نہیں ہوں۔ اگر میں اچھی بات کروں تو تم میرا ساتھ دینا اگر میں خطا کروں تو میری غلطی درست کرا دینا۔ سچائی ایک امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے میں اس کا حق ضرور دلواؤں گا۔ اور جو تم میں سے قوی ہے میرے ہاں کمزور ہے میں اس سے پورا حق وصول کر وں گا۔ جو قوم بھی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ترک کر دیتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ ذلت و رسوائی ڈال دیتے ہیں اور جو قوم علانیہ برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اللہ تعالی ان پر مصائب و تکالیف مسلط کر دیتے ہیں۔ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کروں تم میری بات ماننا اور جب خدا اور رسول کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہیں اللہ تم پر رحم فرمائے۔
حضرت علی کی نظر میں:
محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے والدحضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے پوچھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر انسان کون ہے؟ تو میرے والد نے فرمایا: ابوبکر(رضی اللہ عنہ)میں نے پھر پوچھا کہ ان کے بعدکون؟ جواب دیا کہ عمر(رضی اللہ عنہ)۔ (صحیح البخاری، الرقم:3671)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوا تھا جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے لیے دعائیں کر رہے تھے اس وقت آپ رضی اللہ عنہ کا جنازہ رکھا گیا تھا اتنے میں ایک شخص میرے پیچھے سے آکر میرے کندھوں پر کہنیاں رکھ دیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اللہ آپ پر رحم کرے!مجھے تو یہی امید تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ) کے ساتھ جمع کرے گا۔ میں اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا کرتا تھا کہ میں اور ابوبکر و عمر تھے۔ میں نے اور ابوبکر و عمر نے یہ کام کیا۔ میں اور ابوبکر وعمر گئے۔ اس لیے مجھے امید یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان ہی دونوں بزرگوں کے ساتھ رکھے گا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔(صحیح البخاری، الرقم:3677)
ریاستی ذمہ داریاں:
تمام تاریخ نویسوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضر ت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد ریاستی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھایا۔ امن و آشتی، عدل و انصاف،خوشحالی و ترقی گھر گھر تک پہنچائیں،معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے اقدامات کیے اور مدینہ منورہ کے ریاستی انتظامات جیسے عہد نبوی میں چلے آ رہے تھے ان کو بحال رکھا۔
حفاظتِ ختم نبوت:
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بے شمار کارنامے ایسے ہیں جن پر دنیا رہتی دنیا تک ناز کرے گی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مختلف ایسے فتنے رونما ہوئے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی توانیاں صرف کر رہے تھے۔ ان میں مدعیان نبوت کا فتنہ سر فہرست ہے۔یمن میں اسود عنسی، یمامہ میں مسیلمہ کذاب، جزیرہ میں سجاح بنت حارث، بنو اسد و بنو طی میں طُلیحہ اسدی نے نبوت کے دعویٰ داغ دیے،ختم نبوت کوئی معمولی مسئلہ نہ تھا کہ جس کے لیے مصلحت اختیار کر لی جاتی بلکہ یہ تو اسلام کے اساسی و بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ اس لیے اس فتنے کے خلاف سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں اور لشکر اسلامی کو بھیج کر ان کا قلع قمع کیا۔
مانعین زکوٰۃ کی سرکوبی:
فتنہ مانعین زکوٰۃ نے سر اٹھایا اور کہا کہ ہم سے زکوٰۃ وصول کرنے کا اختیار صرف رسول پاک تو تھا آپ کو نہیں آپ نے اس فتنے کا پوری قوت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور برملا فرمایا کہ جو عہد نبوی میں زکوٰۃ دیتا تھا اور اب اگر اس کے حصے میں اونٹ کی ایک رسی بھی زکوٰۃ کی بنتی ہے وہ نہیں دیتا تو میں اس سے قتال کروں گا۔
دشمنان اسلام کا قلع قمع:
اس کے بعد ہر سو کفار کی طرف سے جنگوں کی ابتداء ہوئی۔ عراق میں آپ نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کیتحت لشکر روانہ کیا۔ عراق کے بہت سے مضافات آپ نے فتح کیے۔ خورنق، سدیر اور نجف کے لوگوں سے مقابلہ ہوا۔ بوازیج، کلواذی کے باشندوں نے مغلوبانہ صلح کی۔ اہل انبار سے کامیاب معرکہ لڑا گیا، عین التمر میں اسلام کو غلبہ ملا، دومۃ الجندل میں اہل اسلام کامیاب ہوئے، اس کے بعد حمید، فضیع اور فراض پر اسلامی لشکر فتح و نصرت کے جھنڈے لہراتے گئے۔ لشکر صدیقی نے شام میں رومیوں کو ناکوں چنے چبوائے۔
بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے:
البدایۃ والنہایہ میں ہے کہ حضرت علاء حضرمی رضی اللہ عنہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں مرتدین کی سرکوبی کے لیے بحرین کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں ایک دریا آیا۔ حضرت علاء کو لشکر والوں نے کہا کہ کشتی تیار نہیں ہے اس لیے کچھ وقت کے لیے رک جائیں تاکہ کشتی تیار کر لی جائے۔ حضرت علاء رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ خلیفۃ الرسول سیدنا ابوبکر کا حکم ہے وہاں جلدی پہنچنے کا اس میں میں رک کر انتظار نہیں کر سکتا اور یہ کہہ کر دعا کی اے اللہ آپ نے جس طرح اپنے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت سے بنی اسرائیل کو( بغیر کشتیوں کے)دریا پار کرایا اسی طرح آج ہم کو ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے بغیر کشتیوں کے

دریا پار کرادے!پھر آپ نے ان الفاظ سے دعا کی:یا علیم یا حلیم یا علی یا عظیم انا عبیدک وفی سبیلک نقاتل عدوک اللھم فاجعل لنا الیھم سبیلا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں اتارا اور آپ کے ساتھ لشکر والوں نے بھی اپنی سواریاں دریا میں ڈال دیں۔ دریا عبور کرتے وقت تمام لشکر کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے: یا ارحم الراحمین یا حکیم یا کریم یا احد یا صمد یا حی یا قیوم یاذاالجلال والاکرام لاالہ الا انت ربنا۔حضرت علاء اور آپ کا لشکر اس دریا پر ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی زمین پر سہولت کے ساتھ چلتا ہے دریا کا پانی ان کی کے جانوروں کے گھٹنوں تک ہی پہنچا تھا۔ جب پورا لشکر دریا کے دوسرے کنارے پہنچ گیا تو سارا سامان وغیرہ جوں کا توں باقی تھا کوئی چیز گم نہ ہوئی۔
جمع وتدوینِ قرآن:
جمع قرآن کی خدمت بھی آپ کے مبارک دور کی یادگار ہے۔ قیامت کی صبح تک آنے والے ہرشخص پر آپ رضی اللہ عنہ کا احسان موجود ہے جتنے بھی لوگ قرآن پڑھتے رہے ہیں،پڑھ رہے ہیں یا آئندہ پڑھیں گے ان کے ثواب میں سیدنا صدیق اکبر برابر کے شریک ہیں۔
علمی خدمات:
آپ کی علمی خدمات بھی موجود ہیں چنانچہ ایک قول کے مطابق ایک سوبیا لیس حدیثیں بہ روایت حضرت ابو بکر صدیق مروی ہیں۔ جن کو امام جلال الدین سیو طی نے ’’تاریخ الخلفائ‘‘ میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے،اُمت کو فقہی معاملات میں جو مشکلات در پیش تھیں آپ نے اُ ن کا حل تجویز کیا مثلاًمیراث جدہ، میراث جد، تفسیر ِ کلالہ، حد شُرب خمر۔وغیرہ۔
وفات:
بالآخر وہ وعدہ وفا ہونے کا وقت آ پہنچا کہ ہر ذی روح موت کا پیالہ ضرور پیے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پہلا جانثار وفادار صحابی اور پہلا خلیفہ13 ہجری جمادی الثانی کے ساتویں دن بیمار ہوئے اور 15 دن علیل رہ کر 22 جمادی الثانی مغرب اور عشاء کے درمیان فراق یار کے خیر باد کہہ کر وصال یار کے لیے عازم سفر ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
وصیت اور تدفین:
الشریعہ میں امام آجری رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے روضہ رسول کے سامنے رکھ دینا اور عرض کرنا کہ آپ کا غلام آیا ہے اگر اجازت مل جائے تو وہاں دفن کرنا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ تفسیر کبیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ وصیت کے مطابق آپ کی میت کو روضہ رسول کے سامنے رکھا گیا اور یوں عرض کی گئی: یارسول اللہ آپ کاغلام ابو بکر سامنے حاضر ہے۔قبر مبارک سے آواز آئی محب کو محبوب تک پہنچا دو چنانچہ آپ کو روضہ رسول میں ہی دفن کیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہمیں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سچی محبت عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں