نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 140

قانون کے رکھوالے قانون شکنی کرنے لگے!

قانون کے رکھوالے قانون شکنی کرنے لگے!

! تحریر:شاہد ندیم احمد
دنیا بھر میں وکلاء برادری کو قانون و آئین کی بالا دستی کا اولین محافظ تسلیم کیا جاتا ہے ،تاہم اگر قانون کے رکھوالے وکلاء خود ہی لاقانونیت پر اُتر آئیں تو پھر قانون و انصاف کے ایوان بھی محفوظ نہیں رہتے ہیں،گزشتہ پیر کے روزایک ایسے ہی منظر نامے نے عدلیہ کی حرمت پر یقین رکھنے والے باشعور شہریوں کو مغموم کردیا کہ جب سلام آباد کچہری میں قائم غیر قانونی وکلاء چیمبرز منہدم کرنے پر قانون کے رکھوالوں نے احتجاجاً اسلام آباد ہائیکورٹ پر دھاوا بول دیا، وکلاء کی بڑی تعداد نے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ نعرے بازی کرتے ہوئے

چیف جسٹس کو تین گھنٹے تک یر غمال بنائے رکھاجو انتہائی قابل مذمت ہے، اس واقعے میں ملوث وکلاء کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے ،نامزد وکلاء کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی کے ساتھ لائسنس معطل کرنے کیلئے بار کونسل کو ریفرنس بھی بھیجا جارہا ہے ،اس قابل مذمت واقعے پر جہاں عالمی سطح پر وطن عزیز کی بہت زیادہ ساکھ متاثر ہوئی ،وہیں اس کا خمیازہ عدالتوں کی بندیش کی شکل میںسائلین کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
یہ امر واضح ہے کہ سیاست سے لے کر عدالت تک کے احتجاج کا خمیازہ عوام ہی کو بھگتنا پڑرہا ہے ،تاہم عوام حیران ہیں کہ قانون کے رکھوالے ہی قانون شکنی کیسے کرنے لگے ہیں ، دارالحکومت کی ضلع کچہری میں وکلا کے چیمبر غیر قانونی طور پر تعمیر کئے گئے تھے ،اِس لئے انتظامیہ نے اُنہیں گرانا، اپنی ذمے داری خیال کیا،وکلا نے جس ردعمل کا اظہار کیا، اس کی بہرحال مذمت کی جانی چاہئے اور احتجاج کا سلسلہ چیف جسٹس کے چیمبر تک دراز کرنے کا تو سرے سے کوئی جواز ہی نہیں تھا،نہ صرف اُن کے ساتھ بدتمیزی کی گئی، بلکہ نعرے بھی لگائے گئے

اور چیف جسٹس بلاک میں کمروں کے شیشے بھی توڑ دیئے گئے،وکلا اپنے اِس احتجاج کو جتنا بھی حق بجانب قرار دیں کوئی صاحب ِ عقل اُن کے اِس متشدانہ اقدام کی حمایت نہیں کر سکتا،بار کے سینئر ارکان نے بھی ایسے احتجاج کی سخت مذمت کی ہے،لیکن جس انداز میں وکلا کے چیمبر گرائے گئے اس پر بھی بعض سوالات اٹھتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ یہ تجاوزات ناجائز طور پر تعمیر کئے گئے تھے، لیکن سی ڈی اے کے افسروں کو بخوبی علم تھا کہ اگر وکلا کے چیمبر گرائے گئے تو جائز و ناجائز کو نظر انداز کر کے وکلا احتجاج پر اُتر آئیں گے، غالباً اسی خدشے کے پیش ِ نظر یہ کارروائی منہ اندھیرے کی گئی،لیکن سی ڈی اے سے پوچھا جانا چاہئے کہ جب یہ تجاوزات تعمیر ہو رہیں تھیں، اُس وقت کسی ذمہ دار افسر نے توجہ کیوں نہ دی،یہ تجاوزات کا سلسلہ صرف اسلام آباد تک محدود نہیں

،ہر شہر کی کچہری میں مناظر عام دیکھے جا سکتے ہیں، سی ڈی اے کسی بھی شہر میں اب کارروائی کر کے دیکھ لے، وکلا کی جانب سے اسی طرح کا پُرتشدد ر دعمل ہو گا اور یہ دلیل کہ تجاوزات جائز یا ناجائز ہے، زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو گی ،اگر شروع میںہی حوصلہ شکنی کی جاتی تو یہ سلسلہ زیادہ وسیع نہیں ہو سکتا تھا،مگر ہمارے ہاں اداروں میںذمہ دارانہ رویئے کا فقدان ہے ،یہاں افسران بالا مسائل کم کرنے کی بجائے بڑھانے میں مہارت رکھتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ قانون کے رکھوالے بھی قانون شکنی کرنے لگے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اسلام آباد کا واقعہ انتہائی قابل ِ مذمت ہے،

لیکن جو حالات کچہریوں میں موجود ہیں، اُنہیں پیش ِ نظر رکھیں تو آسانی سے کہا جا سکتا ہے کہ جہاں کہیں تجاوزات گرانے کی کوشش ہو گی پُرتشدد ردعمل بھی ہو گا،اِس لئے بہتر ہے کہ تجاوزات گرانے ہیں تو متبادل انتظامات کا بھی کوئی منصوبہ پیش کیا جائے، تاہم وکلاء کو بھی اپنے معزز پشے کا احترام مد نظر رکھنا چاہئے ،ایک عرصے سے وکلاء کی طرف سے ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑکے واقعات معمول بن چکے ہیں جو ایک طرف انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تو دوسری طرف معاشرے میں وکالت جیسے معزز پیشے پر بھی انگلیاں
اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں،

ماضی میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں اور بالخصوص لوئر کورٹس میں تو صورتِ حال نہایت ہی پریشان کن ہے، جہاں آئے روز معزز ججوں کے ساتھ غیرمہذب رویہ اختیار کرنا معمول بن چکا ہے،کون نہیں جانتا کہ انصاف کی قانونی تقاضوں کے مطابق اور بروقت فراہمی کے لئے بار اور بنچ کا تعلق نہایت اہم ہے ،جس میں دراڑ ڈالنا درست نہیں، وکلاء برادری میں دوسرے شعبوں کی طرح اچھے برے لوگ موجود ہیں ، یہ اچھی وکلاء قیادت کی ذمہ داری ہے کہ اپنی کمیونٹی کی تربیت کر کے جہاں انہیں شائستہ بنائیں،وہیںکالے کوٹ کے وقار کو مقدم رکھنے کیلئے اپنی صفوں سے کالی بھیڑوں کو نکالنا بھی لازم ہے ،اگر کسی مصلحت کے پیش نظر عدلیہ پر حملوں کی کوئی توجیہ، کوئی جواز تلاش کیا گیاتوعذ ر گناہ بدتراز گناہ کے مترادف ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں