“کسانوں کا استحصال اور پنجاب سیڈ کارپوریشن “
تحریر اکرم عامر سرگودھا
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے مگر اس شعبے سے تعلق رکھنے والے اداروں نے کرپشن کی وجہ سے اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اور زراعت کا شعبہ اب اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اس سے وابستہ افراد بالخصوص چھوٹے کاشتکار ملک میں مایوسی کی زندگی گزارتے اور آئے روز ملک کے مختلف شہروں کی شاہراہوں پر احتجاج کرتے دیکھے جارہے ہیں، ملک میں کرپشن کا ناسور دہشتگردی سے خطرناک اور بڑا روگ بنتا جارہاہے ہر صاحب اختیار اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پورے ملک کی ساکھ ، ترقی و خوشحالی کو داؤ پر لگائے ہوئے ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت خالصتا “کرپشن فری پاکستان ” کا نعرہ لگا کر قائم ہوئی مگر شومئی قسمت کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور اس کی جماعت کا یہ نعرہ شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا بلکہ موجودہ حکومت میں کرپشن کی ایسی داستانیں رقم ہوئیں جنہیں سن کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ کرپشن کے جتنے بھی سکینڈل منظر عام پر آئے آج تک ان کے ذمہ داران میں سے کسی کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ تکلیف اور حیرت کی بات یہ ہے کہ کرپشن کا جتنا بڑا کیس یا سکینڈل ہو اس پر دوبارہ پھر اتنی ہی بڑی کرپشن کرکے اسے دبا دیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ ملکی ترقی و خوشحالی کو بحرانوں نے پوری طرح سے گھیر رکھا ہے ۔ آٹے چینی اور گندم کے بعد پیش خدمت ہے “کرپشن سکینڈل پنجاب سیڈ کارپوریشن” ۔ اس ادارے کا مقصد کسانوں کو اچھا اور معیاری بیج فراہم کرنا ہے۔ ریسرچ سینٹرز میں سائنسدان قیمتی سرمائے سے پری بیسک بیج تیار کرتے ہیں۔ جس کی کاشت کے بعد غیر ضروری پودوں کو تلف کر کے ایک ہی قسم کے پودوں سے اعلی کوالٹی کا معیاری بیج حاصل کیا جاتا ہے جسے تصدیق کے بعد کسانوں کو دیا جاتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکیں۔ یعنی کسی بھی فصل کی بہتر پیداوار کا دارومدار بیج پر ہوتا ہے۔
جو کہ پنجاب سیڈ کارپوریشن کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس ادارے کو بھی مفاد پرست کرپٹ اور کمیشن مافیا نے پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے ،اور یہ ادارہ اس وقت پوری طرح سے کمرشل ہوچکا ہے جس میں ٹیکنیکل سٹاف نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے تمام افسران ڈائریکٹر پرکیورمنٹ سرور شمسی ، ڈپٹی ڈائریکٹر پرکیور منٹ ملک ندیم ، اسسٹنٹ ڈائریکٹرطاہر ، سپروائزروں رانا شوکت ، خالد کمبوہ ، ندیم ، قیوم ، اشرف حسین ، ندیم طاہر ، اسٹور انچارج رانا مشتاق و دیگران نے لیبارٹری والوں سے ساز باز ہو کر فراڈ کی انتہا کر دی بیوپاریوں اور پرائیویٹ سیڈز کمپنیوں سے مل کر کمیشن مافیا بن چکے ہیں
جنہوں نے کسانوں کو ملٹی نیشنل اور پرائیویٹ کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کی حالیہ کرپشن کی ایک مثال اپنے قارئین کی نذر کرتا ہوں۔ حالیہ کراپ پاک افگوئی ( چارہ مکئی کا بیج) پر پنجاب سیڈ کارپوریشن کے سپروائزروں نے ساہیوال ، پاکپتن ، خانیوال اور وہاڑی میں پرائیویٹ سیڈز کمپنیوں سے ساز باز ہو کر سرکاری خزانے اور کسان دونوں کو لوٹ کر اپنی دکانیں چمکا لیں۔ کرپشن کے ان کاریگروں نے کسانوں کو نظر انداز کرکے پرائیویٹ سیڈ کمپنیوں سے مہنگے داموں بیچ خرید کر بھاری کمیشن کمایا اور پنجاب سیڈ کارپوریشن کے گودام بھر کے اپنا مطلوبہ ٹارگٹ پورا کیا ۔ ان کی ریکوریاں سیڈز کمپنیوں اور بیوپاریوں کی مرضی سے بنائی گئیں جس میں سیڈز کے کریکٹر ، خالص پن اور کوالٹی کو یکسر نظر انداز کیا گیا
جو کہ ورائٹی سب سٹینڈر ہے۔ انہیں کمپنیوں جن میں جالندھر سیڈ کارپوریشن جو کہ پاکستان کی سب سے زیادہ سیڈز بنانے والی کمپنی ہے جو کسانوں سے ہر سال پاک افگوء کے لیے تقریبا 4 لاکھ بوریاں خریدتی ہے۔ امسال اس نے 1800روپے بابا فرید کارپوریشن وہاڑی نے 1600روپے لقمان سیڈ کارپوریشن نے 1500 روپے اور عدن سیڈ کارپوریشن نے 1700روپے فی بوری کے حساب سے کسانوں سے خریدا۔ جبکہ انہی کمپنیوں سے پنجاب سیڈ کارپوریشن نے یہی بیج کسانوں سے خریدنے کی بجائے جن کا بیج وہ اٹھانے کے پابند بھی ہیں 2400 روپے فی بوری کے حساب سے خریدا اور بھاری کمیشن کمایا۔ اب اسی بیج کو پروسیس کرکے جب دوبارہ کسانوں کو مارکیٹ میں دیا جائے گا تو ظاہر ہے اس پر اور بھی خرچ آنے کی وجہ سے اس کا ریٹ بہت زیادہ ہوگا اور اسی سرکاری ریٹس کو دیکھ کر پرائیویٹ کمپنیاں بھی زیادہ ریٹس دیں گی
جس سے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوگا۔ ان افسران نے پہلے بیوپاریوں سے مہنگا خرید کر اپنی تجوریاں بھر لیں اور بعد میں دوبارہ یہی بیج کسانوں کو مہنگا بیچ کر انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹیں گے۔ اس کے علاوہ پنجاب سیڈ کارپوریشن نے تجربہ کار اور ٹیکنیکل سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے ہائی بریڈ بیج بنانا بند کر دیا جس سے پرائیویٹ کمپنیوں نے اپنا بیج مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچنا شروع کر دیا۔ تو یوں پنجاب سیڈ کارپوریشن کے ذمہ داران نے پاک افگوء (چارہ مکی کا بیج ) میں کرپشن کی تمام حدیں دیدہ دلیری سے عبور کر لیں ، اسی طرح کی کرپشن کی کہانیاں پنجاب بھر کے دیگر شہروں میں بھی دیکھنے میں آئی ہیں جہاں پنجاب سیڈ کارپوریشن کے ارباب اختیار نے اپنی حیثیت کے مطابق حصہ بقدر جثہ لوٹا ہے
اور اب کسانوں کا استحصال کرکے اپنی تجوریاں بھرلی جائیں گی۔ اس کے علاوہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر کپاس کی فصل یہاں پر تقریبا ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ ٹیکسٹائل ملز کا را میٹریل ہم باہر کے ممالک سے منگوانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی کپاس کی فصل میں بی ٹی کاٹن کے بیج کو کبھی اپ گریڈ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وائرس اور وہائٹ فلائی کا حملہ ہوتا رہا۔ میکسیکو اور ٹیکساس کے زرعی ماہرین نے بی ٹی کاٹن کے بیج کو اپ گریڈ کرنے کی وجہ سے وہائٹ فلائی و دیگر بیماریوں سے مکمل طور پر چھٹکارا حاصل کرلیا۔ جبکہ ہمارے پاس ابھی تک اس کی پہلی جنریشن ہے تو ان کے پاس ففتھ جنریشن ہے یعنی اس کی پیداوار کا سارا دارومدار بیج پر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ کسان پاکستان میں 71 فیصد آبادی سے تعلق رکھنے والا طبقہ ہے جو سب سے زیادہ مسائل کا شکار اور مصیبت زدہ ہے۔ جس کسان سے 1300 روپے فی من گندم لے کر اسے دوبارہ 2400 سے تین ہزار روپے من بیچ کی صورت میں بیچی جائے تو مس اور بیڈ گورننس کی اس سے بڑھ کر اور مثال کیا ہوگی۔ زرعی ممالک کی مثال لے لیں تو وہاں پر حکومتیں تقریبا 26 فیصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر کرتی ہیں مگر وطن عزیز میں صرف دو تین فصلوں پر گورنمنٹ سبسڈی دیتی ہے۔ محکمہ شماریات کے ذرائع کے مطابق گزشتہ برس کھانے کا تیل ملائیشیا سے 640 ارب کا منگوایا گیا یہی 640 ارب اگر اپنے ملک کے کسانوں پر خرچ کیا جاتا جو خود تیل پیدا کرتے تو ملک میں یقینا خوشحالی آجاتی
،مگر ریفائنری کی سہولت کے باوجود ہم اپنی فصلوں سے تیل بنانے کی بجائے باہر سے منگوانے پر مجبور ہیں۔ بجلی کھاد اور فصلوں پر کسانوں کو سبسڈی ملنی چاہئے۔ بدقسمتی سے ہم زرعی ملک ہونے کے باوجود ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے کاٹن کی مد میں زرمبادلہ باہر کے ملکوں کو دے رہے ہیں۔ اگر ہمارے ریسرچ کے ادارے اس پر دیانتداری سے کام کریں صرف تنخواہیں ہی نہ لے رہے ہوں تو باہر سے کاٹن منگوانے کی نوبت ہی نہ آئے اور ملک کا پیسہ ملک میں ہی رہ جائے اور کاٹن کی پیدوار بہتر ہونے سے ملک میں سینکڑوں بند کاٹن فیکٹریاں چالو ہو جانے سے لاکھوں افراد کو روزگار بھی میسر آسکے گا،حکومت کسانوں کو ان کے حال پر چھوڑنے کے بجائے ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے
تو یقینا یہ ایگریکلچر کا شعبہ ہی ملک کے تمام مسائل حل کر سکتا ہے اور ملک ترقی کرسکتا ہے۔گزشتہ سال دالوں پر 102 ارب خرچ کر کے چنے کی دال باہر سے منگوائی گئی انہیں دالوں پر خرچ ہونے والے 102ارب اور کھانے کے تیل پر 640 ارب روپے باہر کے کسانوں کو دینے کی بجائے اپنے ملک کے کسانوں پر خرچ کیے جاتے تو ملک میں زرعی انقلاب برپا ہوجاتا، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت زرعی ادویات اور بیج اپنی سرپرستی میں کسانوں کو مہیا کر کے پرائیویٹ مافیا سے کسانوں کو تحفظ دے اور پنجاب سیڈ کارپوریشن میں موجود کرپٹ مافیا کو سرکاری خزانے اور کسانوں کو نقصان پہنچانے پر قانون کی گرفت میں لا کر کڑی سزائیں دی جائیں۔کیونکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لہذا کسان خوشحال ملک خوشحال۔
کپتان جی یہ تو کرپشن کا ایک ٹریلر ہے،کرپشن کی اس سے بڑی بڑی کہانیاں کرپشن میں ملوث سرکاری اداروں کا احتساب کرنے صوبائی وفاقی محکمہ جات کی الماریوں میں کھڈے لائن پڑی ہیں کپتان جی ان فائلوں کو نکلوا کر ان کی گرد صاف کرکے انکوائری کرکے ایسے کرپٹ عناصر کا بھی محکموں سے قلع قمع کریں جو ملک اور قوم کے مال کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کر کے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں اور اندرون ملک وبیرون ملک اثاثے بنا رہے ہیں ،کپتان جی ایسا کرنے سے ہی بنے گا نیا پاکستان اور ملک بنے گا ریاست مدینہ ورنہ تو جب آنے والے وقت میں مؤرخ ملکی تاریخ لکھے گا
تو آپ کا شمار بھی ماضی کی طرح صرف”نعرہ” لگانے والوں میں ہوگا اس لئے ہمت کی جیئے اور اپنے وزراء اعلیٰ اور دیگر اداروں کوحکم دیجیے کہ وہ گرد میں اٹی کرپشن انکوائریوں کی فائلیں نکلوائیں اور شروع کریں احتساب بلا امتیاز تویقین سے کہتا ہوں کہ اگر ایمان داری سے کرپٹ ملازمین کا احتساب ہوجائے تو نہ صرف ملک کے قرضے اتر سکتے ہیں بلکہ ملک میں پیسے کی ریل پیل بھی دیکھنے میں آئے گی،کپتان جی دیر نہ کریں کیونکہ آپ کی حکومت کا آدھا دورانیہ گزر چکا ہے اور وقت گزرتے دیر نہیں لگتی،وقت گزر گیا تو پھر کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،
کیونکہ آپ نے بھی دوسری جماعتوں کی طرح 2023 میں دوبارہ ووٹ حاصل کرنے کیلئے عوامی عدالت میں جانا ہے جس کا احتساب سخت ہی نہیں بے رحم ہوتا ہے کیونکہ قوم کسی محسن کو بھولتی نہیں اور کسی کام چور کو بخشتی نہیں،اس لئے ابھی وقت باقی ہے کچھ کرلیجیے،یہ نہ ہو کہ وقت گزر جائے اور آپ اور آپ کے کھلاڑی گھینٹاں بجاتے رہ جائیں گے کپتان جی ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ حکومتیں اور ادارے ایسے کرپٹ عناصر کی وجہ سے ہی پہلے خسارے اور بعد میں صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔