صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ 128

صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ

صحرائے کے ریگزاروں کا ایک انمول نگینہ

تحریر :شہزادافق
اگر سرزمین لیہ کی بات کی جائے،تواس دھرتی سے ان گنت نگینوںپیداہوئے۔ جن کی ادبی کاوش کو سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔تاریخ ایسے نگینوں کو فراموش کردے، یہ تاریخ کے بس کی بات نہیں ۔ اگر لیہ کے ان انمول نگینوں کی فہرست تیار کی جائے تو ایک طویل فہرست تیار ہوتی ہوگی۔ اور سب کا اپنا اپنا ایک مقام ہے ،سب ایک دوسرے سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں ۔اور ان میں ایک نام ایسا ہے ،جس کے دل میں دوسروں کے لئے محبت ہی محبت ہے، اس کا مذہب انسانیت ہے اور محبت کو اپنا دھرم مانتا ہے۔ جس نے ادبی دنیا میں اپنی ادبی صلاحیتوں کو منوایا ہے۔

اپنی ادبی کاوش سے ادباء میں منفرد مقام حاصل کیا۔جن کا اصل نام مقبول یوحنا ہے ،مگر ادبی حلقوں میں دنیااسے مقبول شہزاد کے نام سے جانتی ہے۔ جن کا تعلق مسیحی برادری ہے۔ ضلع لیہ کا واحد کرسچن شاعر ہے۔مقبول شہزاد نے لوریتو(تھل کادل)270TDA میں1960میں آنکھ کھولی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سے میٹرک تک کی تعلیم مشن ہائی سکول 270TDA سے حاصل کی1975 ء تک ۔ اور پھرٹیکنیکل ٹریننگ کے لئے گجرانوالہ چلے گئے1978 ٹیکنیکل ٹریننگ مکمل کرلی،F-6 Rebuiltاٹک میں بہ حیثیت Contractorکام کرتے رہے اور پھر واہ کنٹ میں بھی بہ حیثیت Contractorکام کرتے رہے

۔اسی دور زندگی کے ایک بدنما حادثے کا1990ء میںشکار ہوگئے ۔بستر پر کئی سال گزار دیئے، اور ادب سے لگاؤتو بچین سے ہی تھا، اسکول میں ہمیشہ اساتذہ اور دوستوں کے متوجہ کا مرکز بنے رہتے تھے، اور اساتذہ اور دوست احباب اس وقت یہ گواہی دے رہے تھے ،کہ مقبول شہزاد ایک دن بہت بڑے شاعر بنیںگے۔ وہادبی مراحل، ایکسیڈنٹ کے بعد حقیقت کا روپ دھارنے لگے، اورادبان سے کی وابستگی اور مزید گہرارشتہ جوڑنے لگی۔ پھرباقاعدہ طور پرشاعری کا آغاز شروع ہوا جس وقت مقبول شہزادحادثاتی وجوہات کی بنا پر بستر پرتھے۔اورپھر ادبی ذوق سے تعلق رکھنے والوں سے ایک ملاقات کا سلسلہ شروع ہوگیا۔جن میںسب سے پہلے مظہر یاسر،شاکرکاشف ،ناصر ملک ،پروفیسر ملک مزمل حسین ،

محمدبوٹا شاکر،پروفیسرطارق گجرشامل ہیں۔ ،الفاظ کا چناؤاور ادب میںاستعمال کا سلیقہ تو رب کائنات انہیں پہلے ہی عطا ء کررکھا تھا۔ باقی ادبی حلقوں سے بہت کچھ سیکھنا شروع کردیا اور ان کی پہلی ادبی کاوش مجموعہ شاعری کتاب”مجھے خاموش رہنے دو”جو2008ء منظر عام پر آئے اورادبی حلقوں میںمقبول شہزاد کی پہچان بن گئی ۔ان کی کتاب میں ہرموضوع ،دکھ دردغم ،خوشی ،بیوفائی ،مسائل انسانیت سمیت اس معاشرے کے نظام ،اور ہرطبقے کے دل کی بات کی ۔مقبول شہزاد ایک عوامی شاعرہیں۔اوادبی محفلوں میںعوام کے دل کی بات کہہ کر ان کے دل

جیت لیتے ہیں، اورمحفل اپنے نام کرلیتے ہیں۔
برسوں سے گھڑا، درپہ تیرے مانگ رہاہوں
گرمیرے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے
ایمان مصمم سے ا ٹھا ہاتھ یقین سے
کچھ مانگ کے دیکھوں توخدا کیوں نہیں دیتے

جو کچھ عوام کہنا چاہتی اور جو بات سننا چاہتی ہے۔ مقبول شہزاد نے وہ ہربات اپنے کلام میں موضوع بنا یا ۔رب کائنات پہ انہیں پختہ یقین ہے
یہ بھی اپنے کلام میںعیاں کیا ،جہاں شکوہ کرنا مناسب سمجھا ،وہاں ڈٹ بھی گئے ۔مقبول شہزادایک محب وطن انسان ہیں اور وہ پاکستانی قوم کو، ایک قوم دیکھنے کے خواہشمند ہیں ۔وہ صرف محبت کی بات کرتے ہیں بھائی چارے کی بات کرتے وہ صرف انسانیت کو فروغ دینا چاہتے ہیں ۔اپنے ملک کی خاطر قربان ہونے چاہتے ہیں۔انہیں اپنا ملک جان سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔

ملا کرمیںخون اپناخاک ِ چمن میں
تعمیر و طن گلستان چاہتا ہوں

رہے لہلہاتا یہ غنچہ سدا تک
نہ آئے کبھی بھی خزاں چاہتا ہوں

ان کے دل میںاپنی قوم وملت کے لئے اس قدر ہمدردری ہے ۔کہ وہ اس سوئی قوم کو جگانا چاہتے ہیں اور انقلاب کے لئے پرعزم ادارہ رکھتے ہیں۔مقبول شہزاد کاپیغام اپنی پاکستانی قوم کے نام۔۔۔!

اب جاگ میری قوم ،تجھے جاگنا ہوگا
تو وقت ہے پیچھے تجھے بھاگنا ہوگا

اب تک کے سبھی تیر ہواؤں میں چلے ہیں
اب تیر نشانے پہ تجھے داگنا ہوگا

اس افراتفری کے عالم میں ،اس مطلبی دور میں،جہاں اپنوں کو اپنوں کی پرواہ نہیںجہاں انسانیت خود انسانیت کو ترس رہی ہے۔جہاں کوئی بھی آپ کا دکھ درد سننا نہیں چاہتا، باٹنا نہیں چاہتا،وہی مقبول شہزاد اپنے اخلاق کی بنیاد پر زبان کی مٹھاس اورالفاط کی خوشبو سے ،زخموں پر مرہم بن جاتے ہیں، انہیںمل کر اپنائیت سی محسوس ہوتی ہے۔مقبول شہزادایک عظیم انسان ہیں، جو لوگ محبت بانٹتے ہیں وہ محبت ہی پاتے ہیں ۔ان سے مل کر ہمیشہ کچھ منفرد سیکھنے کو ملتا ہے ۔ا ن کی شاعری میں ایک عجب سی کشش ہے جو بھی ان کاشعر پڑھتا ہے بس پھرانہیںکا ہی ورد کرتا نظر آتا ہے۔

رفتہ رفتہ دوستی کے دیب مدھم ہوگئے
اس طرح تنہانہیںتھے جس قدر ہم ہوگئے

آسمان کو اس زمین پرجب بھی پیار آیا تو پھر
اس قدر بارش ہوئی کہ صحرا قلزم ہوگئے

مقبول شہزاد اپنے نام کی طرح عوام میں ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئے ۔اس میں کوئی شک نہیںکہ عوام میں وہی مقبول ہوتا ہے ۔جو عوام کے دل کی بات کرے۔مقبول شہزاد نے ہرغزل ،نظم ،قطعہ ہر شعر میں اس قدر اور د ل نشیں الفاط کا چناؤ کیا ،کہ ان کا کلام دل میںگھر کرجاتا ہے
مقبول شہزادکی دوسری کتاب مجموعہ شاعری ان کی مادری زبان پنجابی میں”اج دی شام ” 2018منظرعام پر آئی اور جس کو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہمسائیہ ملک (ہندوستان،پنجاب) میںبے حد پسند کیا گیا ۔مقبول شہزاد کی زیراشاعت کتب کا اگرذکر کیاجائے تو ان کی ادبی کاوشوں کا سلسلہ مزید مستحکم ہوتا جارہا ہے۔ان کی زیراشاعت کتب

1مذہبی کتاب ”گیت المسحی اورمقدسہ مریم کی شان ”
2 مجموعہ اردو شاعری ” تجھ کو میری یادآئے”
3 اردو ناول ”کھڑکی کی اوٹ سے”

ان کے کلام میں دانش مندی ،اخلاقیات ،اورالفاظ میں شائستگی چھلکتی ہے ۔بس آخر میں یہی کہنا چاہوں گا،مقبول شہزادمنفرداسلوب کا جاندار شاعر ہے ۔المختصر ان کے کلام میںانسانیت کے آداب ملتے ہیں۔ان کی کتاب سے میرا پسندیدہ شعر سب کے نظر ۔۔
نیتوں میں فتور رہتے ہیں دل میں کیسے حضو ر رہتے ہیں

شہر کے دل ربا مکانوں میں
معاشرے کے ناسو ر رہتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں