’’سینٹ الیکشن اور ضمیر فروش‘‘
تحریر: اکرم عامر سرگودھا
سینٹ انتخابات 2018ء کا شیڈول انائونس ہونے سے چند روز قبل خیبر پختونخواہ کے ارکان اسمبلی کی نوٹوں کی گڈیاں وصول کرتے ہوئے وائرل ہونے والی ویڈیو نے ملکی سیاست میں نا صرف نیا پنڈورا بکس کھول دیا ہے بلکہ اس ویڈیو نے پی ٹی آئی کے کپتان اور حکومتی کابینہ کے ارکان کے موقف کو بھی جلا بخشی ہے کہ سینٹ انتخابات میں ارکان اسمبلی کی بھیڑ بکریوں کی طرح منڈی لگتی ہے اور کئی ارکان اسمبلیز اپنا ضمیر اور عوامی مینڈیٹ فروخت کرتے ہیں، حکومت کہتی ہے کہ اسی ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کیلئے صدارتی آرڈیننس سینٹ الیکشن 2021 کے حوالے سے جاری کیا گیا ہے
جس میں آئندہ الیکشن شو آف ہینڈ کے تحت کرائے جانے کا کہا گیا ہے، اور اس ضمن میں عدالت عالیہ سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے، عدالت اس حوالے سے جو فیصلہ یا تشریح کرے گی حکومت اس پر عملدرآمد کی پابند ہو گی، منظر عام پر آنے والی ویڈیو خیبر پختونخواہ کے موجودہ صوبائی وزیر قانون و انصاف سلطان محمد خان سمیت دیگر ارکان اسمبلی کو نوٹوں سے انصاف کرتے نوٹوں کی گڈیاں وصول کرتے واضح دیکھا جا سکتا ہے، کپتان کے حکم پر ویڈیو میں سرفہرست نظر آنے والے کپتان کے کھلاڑی سلطان محمد خان نے نا صرف استعفیٰ دے دیا ہے بلکہ کہا ہے
کہ وہ پی ٹی آئی کی اس ضمن میں بنائی گئی کسی بھی احتساب کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی بے گناہی ثابت کریں گے یعنی موصوف ابھی بھی’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘کے مصداق ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، سلطان محمد خان نے صرف وزارت قانون سے استعفی دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو وائرل ہونے پر مجھ پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ میں اپنے عہدے استعفیٰ دے دوں، سو وزیر اعلی خیبر پختونخواہ نے یہ استعفی بھی منظور کر لیا ہے، مگر ایم پی اے کی نشست پر ابھی تک موصوف براجمان رہ کر ایوان سے بدستور مراعات لیتے رہنا چاہتے ہیں،
حالانکہ موصوف نے ٹویٹر پر شیئر کی جانے والی استعفیٰ کی کاپی میں اخلاقیات کا ذکر کیا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ موصوف وزارت قانون کے عہدہ کے ساتھ اپنی ایم پی اے کی نشست سے بھی استعفیٰ دے دیتے تا کہ حالیہ سینٹ الیکشن میں جس کا شیڈول جاری ہو چکا ہے میں موصوف دوبارہ ووٹ فروخت نہ کر سکتے؟سو بات ہو رہی تھی خیبر پختونخواہ میں ارکان اسمبلی کے ووٹ فروخت ہونے کی وائرل ہونے والی ویڈیو کی تو اس میں واضح بتایا جا رہا ہے
کہ 2018ء میں ایک ارب 20 کروڑ روپے خرچ کر کے ارکان اسمبلی کے ضمیر خریدے گئے، ویڈیو میں نظر آنے والوں میں مستعفی ہونے والے خیبر پختونخواہ کے وزیر سلطان محمد خان کے علاوہ سابق ارکان اسمبلی خیبر پختونخواہ سردار ادریس، وینا ناز، محمد علی شاہ، مہراج ہمایوں و دیگر شامل ہیں، جو اپنے ضمیر بیچ کر بڑے پراطمینان نوٹوں کی گڈیاں وصول کر رہے ہیں۔2020ء میں خیبر پختونخواہ اسمبلی میں 11 نشستوں پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے، اس وقت ایوان میں ارکان اسمبلی کے تناسب سے پی ٹی آئی کا ٹارگٹ سینٹ کی 6 نشستیں جیتنا تھا مگر وہ 5 پر کامیابی حاصل کر پائی تھی،
ایک نشست پر کپتان کا کھلاڑی طمع نفسی کیلئے ووٹ فروخت کرنے والے اپنے ارکان اسمبلیز کی وجہ سے ہار گیا تھا، پیپلز پارٹی نے دو، مسلم لیگ (ن) نے دو، جمعیت علماء اسلام نے ایک اور جماعت اسلامی نے 1 نشست جیتی تھی، قومی وطن پارٹی، مولانا سمیع الحق شہید، عوامی نیشنل پارٹی، جمیعت علمائے اسلام کے اس وقت کے صوبائی امیر نصیب اﷲ خان سینٹ الیکشن 2018ء میں کوئی نشست جیت نہ پائے تھے،
ان انتخابات میں پی ٹی آئی کی طرف سے فیصل جاوید، ایوب افریدی، فدا محمد جبکہ ٹیکنو کریٹ کی نشست پر اعظم سواتی، خواتین کی نشست پر ڈاکٹر مہر تاج روغانی، مسلم لیگ (ن) کے پیر صابر علی شاہ، ٹیکنو کریٹ نشست پر دلاور خان، پیپلز پارٹی کے بہرہ مند تنگی اور خاتون روبینہ خالد، جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان،جے یو آئی کے طلحہ محمود سینیٹر منتخب ہوئے تھے۔2013 سے 2018 تک بھی کے پی کے میں کپتان کی پارٹی پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور کپتان بڑے مان سے ملک بھر کے دوسرے صوبوں کو چیلنج کر کے خیبر پختونخواہ حکومت کی کارکردگی،
اپنے ارکان اسمبلی کی ایمانداری اور محنت کی مثالیں دیتے تھے، پچھلے سینٹ انتخابات میں خیبر پختونخواہ سے ایک نشست ہارنے پر کپتان اور پی ٹی آئی کو سیاسی جھٹکا لگا تھا، اور کپتان نے اس موقعہ پر ایک بڑا سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے 20 ارکان کو پارٹی سے نکال دیا تھا، جن میں سمیع اﷲ زیب، فیصل زمان، نرگس علی، وینا ناز، فوزیہ بی بی، نسیم حیات، نگینہ خان، سردار ادریس، عبید خان، زاہد درانی، عبدالحق، قربان خان، امجد آفریدی، وجیہ الزمان، بابر سلیم، عارف یوسف، جاوید نسیم، یاسین خلیل و دیگر شامل تھے، جن کے خلاف پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر نوٹس لیا گیا تو منظر عام پر آنے والی ویڈیو میں نظر آنے والے بعض ارکان اسمبلی کپتان کو اس وقت برحلف صفائیاں دیتے رہے،
کئی ارکان نے تو اس وقت میڈیا کی وساطت سے مقدس کتاب پر ہاتھ رکھ کر بھی کہا تھا کہ وہ ووٹ بیچنے والوں میں شامل نہیں تھے لیکن اب ویڈیو منظر عام پر آ چکی ہے اور ماضی میں صفائیاں دینے والے سابق و موجودہ ارکان اسمبلی منظر عام سے سردست غائب ہو چکے ہیں۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ کے وزارت قانون سے استعفیٰ دینے والے سلطان محمد خان اب بھی کہتے ہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کریں گے اور بے قصور ثابت ہونگے۔
ویڈیو سکینڈل میں گو کہ چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی جو کہ خلاف توقع کامیاب ہوئے تھے پیسے تقسیم کرتے نظر نہیں آ رہے، تا ہم ارکان اسمبلی کی ووٹوں کی خرید کا براہ راست فائدہ صادق سنجرانی نے اٹھایا تھا اور وہ چیئر مین سینٹ بنے تھے، ویڈیو سکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد بعض حلقوں نے الزام عائد کیا کہ ماضی میں ووٹوں کی خرید و فروخت پر اربوں روپیہ صادق سنجرانی نے خرچ کیا تھا تو اب چیئر مین سینٹ بھی حلفا صفائیاں دے رہے ہیں کہ ویڈیو سکینڈل سے ان کا کوئی تعلق نہیں تو یہاں پوچھنا یہ تھا کہ پھر ارکان اسمبلی کو ایک ارب 20 کروڑ روپے کس نے تقسیم کیے، کیونکہ ویڈیو میں جو پیپلز پارٹی کے ایم پی اے پیسے تقسیم کرتے نظر آ رہے ہیں ان کی اتنی سکت نہیں کہ وہ ایک ارب 20 کروڑ روپے ارکان اسمبلی کو دے سکیں؟
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی بات ہو رہی تھی سینٹ انتخابات میں ارکان اسمبلی کے ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کیلئے آئندہ سینٹ انتخابات اوپن ووٹوں کے ذریعے کرانے کی جس بارے اپنے ادوار اقتدار میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کہتی رہی ہے کہ سینٹ انتخابات کو شفاف کرانے کیلئے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی لائی جانا ضروری ہے، ان جماعتوں نے اس وقت اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ الیکشن کرانے کا عندیہ بھی دیا تھا، اب پی ٹی آئی کی حکومت نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کیلئے آرڈیننس جاری کر دیا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہے، اب اپوزیشن واویلہ کر رہی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے سینٹ الیکشن کا طریقہ کار تبدیل کر کے دھاندلی کا پروگرام بنا لیا ہے۔
لیکن ویڈیو چیخ چیخ کر بیان کر ہی ہے کہ ماضی میں سینیٹ الیکشن میں ووٹ خریدنے والوں میں پی ڈی ایم میں شامل پیپلز پارٹی کے ایم پی اے علی محمد باچا واضح نظر آ رہے ہیں، یہ ویڈیو بہت کچھ بیان کر رہی ہے اور بتا رہی ہے کہ ملک میں کون پیسے کی سیاست کے بل بوتے پر اقتدار میں آتے ہیں اور پھر قومی خزانے کو کس طرح بے دریغ طریقے سے لوٹ کر منی لانڈرنگ کر کے بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں۔ تا ہم اب سینٹ انتخابات کا شیڈول جاری ہو چکا ہے اور سینٹ الیکشن ہونے جا رہے ہیں جس کیلئے 100 کے لگ بھگ امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرو ادیئے ہیں، پیپلز پارٹی، (ن) لیگ اور دیگر جماعتوں کی طرح پی ٹی آئی نے بھی پرانے کھلاڑیوں کو سینٹ الیکشن کے میدان میں اتارا ہے
حالانکہ کپتان کہتے تھے کہ وہ نوجوانوں کو آگے لائیں گے لیکن کیونکہ سیاست بے رحم اور مفادات کا نام ہے اسی بناء پر کپتان پرانے کھلاڑیوں کے ہاتھوں مجبور ہو گئے اور نوجوانوں کو سامنے لانے کی بجائے انہیں پرانے سیاسی گرگوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، سو بات پھر ادھر سے ادھر نکل گئی، بات ہو رہی تھی سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کی تو اس ضمن میں حکومت عدالت سے عالیہ سے رجوع کر چکی ہے اور معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے، اگر عدالت عالیہ سپریم کورٹ نے صدارتی آرڈیننس 2021ء جو کہ صدر مملکت عارف علوی نے
سینٹ الیکشن کے حوالے سے جاری کیا تھا کو معطل نہ کیا تو پھر سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونگے تو ان ارکان اسمبلی جو الیکشن مہم کے دوران بھاری رقم خرچ کر کے ضمیر بیچنے کیلئے الیکشن لڑ کر اسمبلیوں میں آتے ہیں کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اگر آرڈیننس معطل کر دیا اور سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوا تو ان ضمیر فروش ارکان اسمبلی کی ’’موجاں ہی موجاں‘‘ ہونگی۔ تا ہم اس کیلئے قارئین اور عوام کو عدالت عظمی کے فیصلہ اور سینٹ الیکشن کے پولنگ کے دن کا انتظار کرنا ہو گا۔