مسلم دنیا زوال اور علاج
خلیل احمد تھند
خطرات حفاظت کا احساس دلاتے ہیں اور وہ جس نوعیت کے ہوں اسی نوعیت کے حفاطتی اقدامات کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے
منتشر اور مغلوب مسلم دنیا اس معاملے میں صدیوں سے لڑھک رہی ہے اور بحیثیت مجموعی کوئی واضح سمت اختیار کرنے سے قاصر نظر آرہی ہے
قطع نظر اسکے کہ خطرات کس نوعیت کے ہیں مسلم دنیا کا ایک طبقہ ہر حال میں بندوق بردار رہنا چاہتا ہے جنگ ہتھیاروں کی ہو ، تعلیمی ہو ، ٹیکنالوجی کی ہو ، معاشی ہو ، نفسیاتی ہو ، اعصابی ہو ، حکمت عملی کی ہو یا بائیولوجیکل وہ اس کا جواب صرف بندوق سے ہی دینا درست سمجھتا ہے
بندوق کو امرت دھارا سمجھنے والی قومیں ترقی ، عروج ، آزادی اور غلبہ صرف بندوق کی نالی سے ہی دیکھتی ہیں جبکہ ہوشیار دنیا علم ، ٹیکنالوجی ، تحقیق ، معاشی اور معاشرتی تنظیم و تربیت کے ذریعے ترقی کی منزلیں طے کر کے غلبہ حاصل کرلیتی ہیں
مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض اوقات کوئی قوت کسی کمیونٹی کو درست سمت سے باز رکھنے کے لئے بھی ایک منصوبے کے تحت جذبات کو بڑھکا کر اسے عسکریت کی طرف الجھاتی ہے ایسے حالات میں اس کمیونٹی کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتا ہےکہ وہ مخالف چال کا شکار ہو کر اپنی اصل منزل کھو دیتی ہے یا جذبات کو قابو میں رکھ کر حکمت کے ساتھ اپنے اھداف کی طرف رواں دواں ہو کر عروج کی طرف جانا موزوں سمجھتی ہے
بہترین وسائل اور صلاحیت رکھنے کے باوجود اس وقت سب سے زیادہ علمی ، تحقیقی ، اخلاقی ، تنظیمی ، معاشی اور معاشرتی ابتری مسلم دنیا میں پائی جاتی ہےمسلم دنیا میں پسماندگی کی کئی وجوہات میں سے بہت بڑی وجہ درست حکمت عملی کا فقدان ہے اس کمی کو مسلمان آج تک دور نہیں کر پائے
ہمارے نزدیک مسلم دنیا کی پستی کی بہت بڑی وجہ غیروں کی غلام اور جذباتیت کی غلام دو طرح کی قیادتیں ہیں غیروں کے غلاموں نے ہر حال میں غیروں کی غلامی اختیار کرنے کو ہی ترقی کی معراج سمجھا ہوا ہے اور ان کے برعکس جذباتیت کے غلاموں نے مرنا اور مارنا ہی ہر مرض کا علاج تشخیص کیا ہوا ہے
یہ دو انتہائیں مسلم معاشروں کے لئے ناسور کی مانند ہیں جن سے جان چھڑائے بغیر مسلمان کبھی آزادی اور ترقی حاصل نہیں کر سکتے اس واضح حقیقت کو عام مسلمان جتنی جلدی سمجھ لیں گے اتنی جلدی انکے لئے پستی سے نکلنے کی سبیل پیدا ہو جائے گی
ہمارے جہادی معالجوں نے جذبہ صادق کو جذباتیت کی سان چڑھا کر یک رخا کیا ہوا ہے انکی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ میدان فن حرب میں بھی کوئی تخلیقی کارنامہ سرانجام دینے سے قابل نہیں ہیں اور اس معاملے میں غیروں کی ٹیکنالوجی پر انحصار کے محتاج ہیں
ترقی یافتہ قومیں ہماری مسلم روایات اور اصولوں کو اختیار کر کے دنیا پر راج کررہی ہیں جبکہ مسلم دنیا تریاق جیب میں لیے بھٹک رہی ہے
برصغیر کے دانشور سر سید احمد خان سے نظریاتی اختلاف کیا سکتا ہے لیکن زوال سے نکلنے کے لئے انکی تجویز سے انکار ممکن نہیں ہےہم سمجھتے ہیں کہ مسائل کا یک رخا اور جذباتی علاج کبھی بہتر نتائج پیدا نہیں کرسکتا تدبر اور حکمت کا رویہ اختیار کرکے ہی پستی کا علاج ممکن ہوسکتا ہے