عالمی یوم خواتین اور عورت 239

مادری زبان کا عالمی دن اور پنجابی

مادری زبان کا عالمی دن اور پنجابی

خلیل احمد تھند
دنیا بھر میں21 فروری مادری زبان کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے اس روز مادری زبانوں کی اہمیت کو اجاگر کر کے اس کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا ہےمادری زبانیں اس لئے اہمیت رکھتی ہیں کہ ان میں مافی الضمیر سمجھنا اور سمجھانا دونوں آسان ہوتے ہیں
پاکستان میں متعدد زبانیں بولی جاتی ہیں ہم سب زبانوں کو قابل قدر سمجھتے ہیں اس لئے ان کی بقا ، تدریس اور پرورش کے بھی قائل ہیں
پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں میں قدیم ترین زبان پنجابی زبان ہے جو اپنی تاریخ کے ساتھ ایک وسیع ہوم لینڈ بھی رکھتی ہے اس وقت پاکستان میں پنجابی زبان کے تمام لہجوں کو

ملا کر 11 کروڑ سے زائد جبکہ برصغیر میں 22 کروڑ سے زائد افراد پنجابی زبان بولتے ہیں پاکستانی پنجاب کے علاوہ پنجابی زبان کا دائرہ کارخیبر پختون خواہ ، سندھ ، بلوچستان اور کشمیر کے علاقوں تک پھیلا ہوا ہےانڈین پنجاب میں تعلیم و تدریس کے ذریعے اس زبان کا لب و لہجہ اور رسم الخط محفوظ رکھا گیا ہے لیکن پاکستان میں کروڑوں افراد کی زبان کی تعلیم و تدریس اور صحت کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے
پنجابی زبان بڑے حجم ، تاریخی حیثیت اور وسیع ذخیرہ الفاظ رکھنے والی زبان ہونے کے باوجود وہ مقام نہیں حاصل کر پائی جو اسکا حق بنتا ہے اس لحاظ سے یہ زبان ملک کی مظلوم ترین زبان ہےہماری مشاہدے کے مطابق پاکستان میں پشتون ، سندھی ، بلوچی زبان بولنے والے دو افراد جب اکھٹے ہوتے ہیں تو وہ قومی زبان کی بجائے اپنی مادری زبان میں بات کرتے ہیں جبکہ پنجابی زبان بولنے والے اکثر قومی زبان اردو میں بات کرتے نظر آتے ہیں

اس کی وجہ اس زبان کو اچھوت بنا کر پیش کرنا ہےہمارے بعض طبقوں میں اسےگالیوں کی زبان قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ہر زبان میں گالیوں کے الفاظ موجود ہیں لیکن بدنامی صرف پنجابی زبان کے حصے میں آتی ہے ماضی میں جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد مرحوم و مغفور نے پنجابی ہونے کے باوجود اس زبان کو گالیوں کی زبان قرار دیا جس پر شدید ردعمل کے بعد انہیں معذرت کرنا پڑی
پشتو ، بلوچی، سندھی تینوں زبانیں اپنے اپنے علاقوں میں بولی اور لکھی جاتی ہیں لیکن پنجابی زبان کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے
پنجابی زبان بلاشبہ

دیگر زبانوں سے قدیم زبان ہے یہ زبان شعری ادب کا وسیع اور باکمال ذخیرہ رکھتی ہے سلطان باہو ، بابا فرید ، بلھے شاہ ، شاہ حسین ، میاں محمد بخش فن شاعری میں غالب اور دنیا کے بڑے شاعروں سے کسی بھی طرح کم نہیں ہیں برصغیر کا شعری ادب اور گائیکی پنجابی زبان کے بغیر بالکل ہی ادھورے ہیںہمیں حیرت ہوتی ہے کہ ملک میں بولی جانے والی دیگر زبانوں کی نسبت صرف پنجابی زبان کی بقا ، تدریس اور تحریر کے حق کی بات کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ہمارے ہاں بعض افراد پنجاب کی انتظامی تقسیم (جس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے) پر بہت

واویلا کرتے ہیں لیکن پنجابی زبان کی بے توقیری پر آواز اٹھانے کے لئے کوئی دکھائی نہیں دیتاپنجابی زبان کے لئے آواز بلند کرنے والوں میں پپلز پارٹی کے فخر زبان کا نام بہت نمایاں ہے جس کا اعتراف نا کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی ہم سمجھتے ہیں کہ تمام مادری زبانوں بالخصوص پنجابی زبان کے ساتھ روا رکھا گیا ناروا سلوک ختم ہونا چاہئے اور اسے اس کے حجم ، تاریخ اور فن و ادب کے اعتبار سے جائز مقام ملنا چاہئے
برصغیر میں پنجابی زبان کے ادبی لٹریچر کا اصلاح معاشرہ اور اسلام کی ترویج میں بہت کلیدی کردارہے لہذا یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تشکیل پاکستان میں پنجابی زبان کا بنیادی کردار موجود ہےہمارے نزدیک پنجابی زبان کامعدوم ہونا دنیا کے بہترین ادبی و اصلاحی لٹریچر سے محروم ہونے کے مترادف ہے #

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں