’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 182

’’سینٹ انتخابات، حکومت ،اپوزیشن کا کڑا امتحان‘‘

’’سینٹ انتخابات، حکومت ،اپوزیشن کا کڑا امتحان‘‘

تحریر اکرم عامر سرگودھا
حکومت 3 مارچ کو ہونے والے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ یعنی شو آف ہینڈ کے تحت کرانا چاہتی ہے، اس ضمن میںصدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان عارف علوی نے 2021 کا پہلا صدارتی آرڈیننس سینٹ الیکشن کے حوالے سے جاری کردیاتھا، جس کے تحت سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کاکہا گیا، مگر اس آرڈیننس کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط رکھا گیا تھا، حکومت نے اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کیا، عدالت میں اب اس معاملے کی سماعت ہو رہی ہے، حکومت کے وکیل آرڈیننس کے حق میں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل آرڈیننس کی مخالفت میں دلائل دے رہے ہیں، عدالت کی طرف سے اس کیس کا جلد فیصلہ متوقع ہے، کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ سینٹ الیکشن کی پولنگ کے دن بھی قریب آ رہے ہیں، عدالت عظمیٰ اگر صدر مملکت کے جاری کردہ آرڈینس کو معطل کردیتی ہے

تو پھر الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہوں گے،اور اگر آرڈیننس سے اتفاق کرتی ہے تو پھر ملک میں سینٹ الیکشن پہلی بار اوپن بیلٹ کے ذریعے ہونگے اور کسی پارٹی کا سربراہ ، نمائندہ یا امیدوار کو بیلٹ پیپر تک رسائی کا حق ہوگا ،اور پتہ چل سکے گا کہ کس رکن اسمبلی نے کس پارٹی یا امیدوار کو ووٹ دیا ہے، حکومت کہتی ہے کہ ماضی میں سینٹ الیکشن میں امیدوار ارکان اسمبلیز کی بولی لگا کر ان کے ووٹ خرید کرسینیٹ کے ممبر بنتے آئے ہیں، اب کی بار ارکان اسمبلیز کی ہارس ٹریڈنگ روکنے کیلئے آرڈیننس جاری کیا گیا ہے، اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت جو ماضی میں سینٹ انتخابات میں اپ سیٹ کے بعد عندیہ دیتی تھی کہ سینٹ الیکشن شفاف کرانے کیلئے انتخابی طریقہ کار میں تبدیلی کی ضرورت ہے،

اب حکومت نے اس حوالے سے آرڈیننس جاری کیا ہے تو اپوزیشن حکومت کے جاری کردہ آرڈینس کو سینٹ انتخابات میں دھاندلی کا منصوبہ قرار دے رہی ہے،اور مطالبہ کررہی ہے کہ اس آرڈیننس کو واپس لے کر انتخابات سابقہ طریقہ کار کے مطابق خفیہ بیلٹ کے ذریعے کرائے جائیں،اب حکومت اور اپوزیشن میں اس بابت قانونی جنگ جاری ہے، اس طرح حکومت،اپوزیشن کی قیادت، سینٹ انتخابات میں کاغذات جمع کرانے والے امیدوار اور سینٹ الیکشن سے دلچسپی رکھنے والے عوام عدالت عظمیٰ کے فیصلہ کے منتظر ہیں، عدالت جو فیصلہ کرے گی،اس کے تحت سینٹ انتخابات ہو جائیں گے،

پی ڈی ایم میں شامل اپوزیشن جماعتیں جو کہ کپتان کی حکومت گرانے کیلئے 26 مارچ کو اسلام آباد میں لانگ مارچ کی تیاریوں میں مصروف تھیں نے سردست اپنے ڈویژنل مقامات پر احتجاجی جلسے ریلیاں منسوخ کردی ہیں،اور حکومت مخالف ان جماعتوں کے قائدین نے سینٹ الیکشن میں حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے سرجوڑ لئے ہیں اس طرح سینٹ الیکشن، جیتنے کے لئے اپوزیشن اور ،حکومت نے کمر کس لی ہے، اور اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار دئیے ہیں، اب کی بار بھی سیاسی جماعتوں کے امیدوار وں کے ساتھ بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں نے کاغذات جمع کروا کر اپنی انتخابی مہم اور جوڑتوڈ شروع کر رکھا ہے، ذرائع کہتے ہیں کہ سنیٹ الیکشن میں آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرانے والے امیدواروں کی اکثریت کاغذات واپس لے لے گی،

اور مقابلہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں میں ہوگیا،تاہم یہ منظر آئندہ چند روز میں کاغذات کی چھان بین کے بعد واضح ہو جائے گا، تا ہم سینیٹ انتخابات کا میدان خوب سج چکا ہے اور تین مارچ کو سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا ’’امتحان‘‘ ہوگا اس میں کون پاس ہوگا اور کون فیل یہ فیصلہ تو پولنگ کے بعد ہی سامنے آئے گا، اس بارے قبل ازوقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ سیاست بے رحم چیز ہے، جو ہوا کے جھونکے کی طرح بدلتی رہتی ہے۔
واضح رہے کہ ماضی کے ہر سینٹ انتخابات میں اپ سیٹ دیکھنے میں آیا ہے، دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ایک دوسرے پر ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت کے الزامات کا سلسلہ طول پکڑتا جا رہا ہے، اور عوام کی اکثریت جسے دو وقت کی روٹی کی فکر کھائے جارہی ہے آئے روز اس حوالے سے نئی نئی کہانیاں اور افسانے سن کر بیزار ہوچکے ہیں، ملک کے سیاسی ایوانوں میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے ارکان اسمبلی سے ووٹ لینے کے لیے جوڑ توڑ، پیسے کی ریل پیل شروع کردی ہے اور پچھلے ادوار کی طرح اب کی بار بھی کئی اپ سیٹ ہونے کا امکان ہے ماضی میں ارکان کی لگنے

والی اس منڈی کے سیاست میں حیران کن نتائج سامنے آتے رہے ہیں۔ 2018 میں بڑے ایوان کے انتخابات میں بڑے اپ سیٹ ہوئے،سب سے بڑا اپ سیٹ پی ٹی آئی کے موجودہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کیا ۔جنرل نشست پر چودھری سرورکو 34 ووٹ ملنے تھے مگر غیر متوقع طور پر وہ سب سے زیادہ 44 ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہو گئے، پنجاب میں 10 (ن) لیگی ارکان اسمبلی نے ضمیر کا سودا کیا اورخفیہ رائے شماری میں اپنے ووٹ کا وزن چودھری سرور کے پلڑے میں ڈال دیا، اس طرح مسلم لیگ ن کے زبیر گل ٹکٹ ہولڈر ہونے کے باوجود سینٹ الیکشن ہار گئے۔ ان کی جگہ مسلم لیگ ن کے متبادل امیدوار رانا محمود الحسن جیت گئے، اسی طرح 2018 میں سندھ میں ایم کیو ایم کیساتھ بھی ہاتھ ہوا

اور مفاہمت کی سیاست،اور سیاست میں بازی پلٹنے کے ماہر آصف علی زرداری کی سیاست نے جادو دکھایا اورایم کیو ایم دو امیدواروں کے بجائے اپنا صرف ایک سینیٹر فروغ نسیم ہی کامیاب کروا سکی، پیپلز پارٹی ایوان میں ووٹوں کے تناسب سے نو سینٹر دوبارہ منتخب کروا سکتی تھی۔ لیکن آصف زرداری کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کے 10 امیدوار سینیٹر منتخب ہو گئے، 2018 خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں بڑا دھچکا لگا اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود مطلوبہ تعداد حاصل نہ کر سکی،کے پی کے ایوان میں پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد سات تھی لیکن وہ دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی ، روبینہ خالد خواتین اور بہرہ مند تنگی

جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، خیبر پختونخواہ میںتحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑنے والے جے یو آئی س کے مولانا سمیع الحق کو غیر متوقع شکست ہوئی اور مسلم لیگ ن کے دلاور خان نے فتح سمیٹی، 2018 میں ہارس ٹریڈنگ کے الزام پر پی ٹی آئی کے کپتان نے 20 ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکال دیا تھا، جن کے بارے حالیہ سینٹ الیکشن کا شیڈول جاری ہونے سے چند روز قبل وائرل ہونے والی ویڈیو نے سیاست میں بھونچال برپا کر دیا ہے، اس وڈیو سے پی ٹی آئی کی حکومت بالخصوص کپتان عمران خان کے موقف کو تقویت ملی ہے، کیونکہ وڈیو میں کروڑوں روپے کے نوٹوں کی گڈیاں ارکان اسمبلی کو لیتے واضح دیکھا جا سکتا ہے جو پیپلز پارٹی کے ایم پی اے دے رہے ہیں، ارکان اسمبلی کی رقم وصول کرتے وڈیو منظر عام پر آنے پر کپتان نے خیبرپختونخواہ کے وزیر قانون سلطان محمد خان سے وزارت کا جبری استعفیٰ لے لیا ہے،

جبکہ وڈیو میں سامنے آنے والے موجودہ اور سابق ارکان اسمبلی جن کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے کا احتساب کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے، واضح رہے کہ 2018 میں بلوچستان کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کو غیر متوقع شکست ہوئی تھی بلوچستان میں اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن صوبائی اسمبلی میں اکیس ارکان کی موجودگی کے باوجود ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی تھی،اور یہاں سے آزاد امیدوار انوارالحق کاکڑ،احمد خان، کہدہ بابر اور صادق سنجرانی جنرل نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، خواتین کی نشست پر ثنا ء جمالی اور ٹیکنو کریٹ کی نشست پر نصیب اللہ بازئی سینیٹر منتخب ہوئے تھے، ، اسی طرح 2015 کے سینیٹ انتخابات میں بھی “غیبی امداد “کے الزام لگتے رہے ہیں2015کے سینیٹ الیکشن میں سندھ سے پیپلز پارٹی کے اسلام الدین شیخ کو 24ووٹ ملے، حالانکہ ایوان میں پیپلز پارٹی کے ایم پی ایز کی تعداد 21 تھی۔

انہیں تین ووٹوں کی غیبی امداد کہاں سے ملی ، یہ رازآج تک نہیں کھل سکا،2012 کے سینیٹ انتخابات میں بھی بڑا اپ سیٹ ہوا تھا اور دو مارچ 2012 ہونے والے سینیٹ الیکشن میں پنجاب میں پیپلزپارٹی کے امیدوار اسلم گل جیت کی یقینی نشست ہار گئے تھے اور مسلم لیگ(ن ) کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محسن لغاری سینیٹر منتخب ہوئے تھے محسن لغاری کو 46 اور اسلم گل کو 42 ووٹ ملے تھے2012 کے سینیٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی کو مجموعی طور پر 25 نشستیں ملنے کا امکان تھامگر سندھ، پنجاب،وفاق اور بلوچستان میں 4سے6 نشستیں پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل گئیں تھیں،ایم کیوایم اورمسلم لیگ (ق) کے امیدوار پیپلزپارٹی کی نشستوں میں نقب لگانے میں کامیاب رہے تھے، دونوں جماعتوں نے

اپنی دو دو غیر یقینی نشستیں جیت لی تھیں، مصطفی کمال 26 ووٹوں سے ایم کیو ایم کے سینیٹر بن گئے تھے، 2006 کا سینیٹ الیکشن بھی سرپرائز سے بھرپورتھاچھ مارچ 2006 کے سینیٹ کے انتخابات میں بڑا اپ سیٹ اس وقت کے صوبہ سرحد میں دیکھنے میں آیا،جب اس وقت صوبہ میں حکمران جماعت متحدہ مجلس عمل اسمبلی میں اپنی بھاری اکثریت ہونے کے باوجود زیادہ نشستیں نہ سمیٹ سکی، اور ایک سو چوبیس کے ایوان میں مسلم لیگ (ق) صرف دس ارکان کے باوجود دو جنرل اور ایک مخصوص نشست جیتنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔اورمسلم لیگ ق کے عمار احمد خان سینیٹر منتخب ہوئے ، جبکہ ان کے والد گلزار احمد خان اور بھائی وقار احمد خان پہلے ہی سینیٹ کے ایوان میں بطور ممبر موجود تھے،

اس طرح سینٹ کے ایوان میں اس دورانیہ میں ایک ہی وقت میں ایک ہی گھرانے کے تین ممبران ہونے کا اعزاز انہوں نے حاصل کیا تھا جو ملک کی سیاسی تاریخ میں اب تک ریکارڈ ہے، جسے کوئی سیاسی خاندان 14 سالوں میں عبور نہیں کر سکا، 2006 میں سینیٹ الیکشن ،سندھ میں بھی ایک نشست پر غیر متوقع نتیجہ سامنے آیا یہاں سینیٹ کی گیارہ نشستوں پر انتخابات میں حکمران اتحاد نے چھ اور اپوزیشن نے پانچ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب رہی اور وہ ایک اضافی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس طرح متحدہ مجلس عمل نے ایم کیو ایم سے ایک نشست چھین لی تھی، یہ تو تھا 2006سے اب تک ہونے والے سینٹ انتخابات میں ہونے والے غیر متوقع اپ سیٹس کا

احوال،اب سینیٹ الیکشن2021 کی گونج پورے ملک میں جاری ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی سرپرائز دینے کیلئے پر عزم ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ 3مارچ2021 کو ہونے والے سینیٹ الیکشن میں کون کسے سرپرائز دے گا،اس کیلئے جوڑتوڑ عروج پر پہنچ چکا ہے، کیونکہ سینٹ الیکشن میں سب سیاسی پارٹیوں نے اکثریت امیدوار پارٹیز نظریات کو پس پشت ڈال کر مالی طور پر مستحکم طبقہ کو ٹکٹ دئیے ہیں، اور ان سرمایہ داروں نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دئیے ہیں اور طمع نفسی کے مارے ماضی کی طرح بکنے والے ارکان اسمبلی اب پھر ضمیرکا سودا کرنے اور عوام کا دیا ہوا مینڈیٹ بیچنے کو تیار بیٹھے ہیں؟ کون کتنے میں فروخت ہوگا؟ خفیہ بیلٹ کی صورت میں ان کا سراغ لگانا مشکل ہوگا

اور ایسے ضمیر فروش کبھی کسی فورم پر اعتراف کرنے کی بجائے حلف دے کر پھر اپنی پارٹیوں کے سربراہان کو مطمئن کرلیں گے، اور پھر سیاست میں رہ عوامی مینڈیٹ سے کھلواڑ کرتے رہیں گے اور یہی ارکان اسمبلی حکومت اور اپوزیشن میں بھی اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے، بالکل اسی طرح جس طرح 2018 میں خیبرپختونخواہ کے سلطان محمد خان نے حلف دے کرکپتان کو مطمئن کرلیا تھا اور 2018 کے جنرل انتخاب میں پھر پی ٹی آئی کا ٹکٹ حاصل کرکے نہ صرف رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوگئے تھے،بلکہ وزارت قانون کا منصب حاصل کرکے اڑھائی سال تک جھنڈے اور ہوٹر والی گاڑی پر گھومتے رہے کہ ویڈیو منظر عام پر آگئی اگر ایسا نہ ہوتا تو موصوف کے پاس ہوٹروالی گاڑی جھوٹنے کیلئے

مزید وقت تھا کہ وڈیو نے بھانڈا پھوڑ دیااور موصوف کپتان کے جوش کے رگڑے میں آ گئے۔سو بات کہاں سے کہاں نکل کئی بات ہو رہی تھی سینٹ الیکشن میں ارکان اسمبلیز کے ووٹوں کی خریدوفروخت کی تو یہ سلسلہ شروع ہوچکا ہے،ووٹوں کی خرید و فروخت روکنے کیلئے عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن دوسری صورت میں یہ سلسلہ صرف اسی صورت میں رک سکتا ہے کہ سیاسی پارٹیاں ایسے امیدواروں کو سینٹ کے ٹکٹ جاری کرتیں جو سرمایہ دار،جاگیردار ہونے کی بجائے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے مخلص پارٹی ورکر ہوتے،

تا کہ سینٹ انتخابات میں ووٹوں کی خرید و فروخت رک سکتی، اسی صورت میں ملکی سیاست میں استحکام آئے گا، ایسا کب ہوگا؟ ایسا جب ہوگا؟ جب عوام، وڈیرہ ازم، ذات برداری، اور سرمایہ دار کی بریانی کی پلیٹ کھاکر ووٹ دینے کی بجائے ایسے نمائندے منتخب کرکے ایوانوں میں بھجوائیں جو ملک و قوم کا درد رکھتے ہوں گے،ورگرنہ ہرسینٹ، قومی ،صوبائی،الیکشن میں منڈی لگتی رہے گی ارکان اسمبلیز اپنے ضمیر کا سودا کرتے رہیں گے، حالات اب کی بار بھی بتا رہے ہیں کہ سینٹ انتخابات میں بڑے اپ سیٹ کا امکان ہے۔تو اس لیے اپوزیشن اور حکومت کو چوکنا رہنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں