’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 144

انڈیا سانحہ سمجھوتا ایکسپریس کے لاپتہ افراد کو نگل گیا؟

انڈیا سانحہ سمجھوتا ایکسپریس کے لاپتہ افراد کو نگل گیا؟

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
سانحہ سمجھوتا ایکسپریس کو گزرے 14 برس ہو چکے ہیں مگر سانحہ میں لا پتہ ہونے والے افراد کا تاحال بھارت نے کوئی پتہ نہیں چلنے دیا، جس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا شمار دہشتگرد ممالک میں ہوتا ہے، اور بھارت نا صرف پاکستان کا دشمن ہے، بلکہ یہ ہر اسلامی حکومت سے دشمنی رکھتا ہے، پاکستان سے تو اس کا آزادی وقت سے اٹ کھڑکا جاری ہے، بھارتی حکومت پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں دہشتگردی اور اسلام مخالف قوتوں کی پرورش پر سالانہ اربوں روپیہ خرچ کرتی ہے، اور بھارتی میڈیا پاکستان کی کردار کشی کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، انڈیا میں اپنی ہی ایجنسی راء اور دیگر دہشتگرد ایجنسیوں سے وارداتیں کروا کر اس کا الزام پاکستان پر لگانا انڈیا کا وطیرہ بن چکا ہے،

انڈیا میں مسلمانوں کیلئے جمہوریت اور انصاف نام کی کوئی چیز نہیں، بابری مسجد کے واقعہ سے لے کر اب تک انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے دہشتگردی کے بڑے بڑے واقعات میں بھارتی عدالتوں نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف فیصلے دیئے، اس طرح خود کو جمہوریت کا علمبردار کہنے والا انڈیا، امریکہ کے بعد امت مسلمہ کیلئے سب سے خطرناک دہشتگرد ملک ہے، پاکستانی کبوتر انڈیا میں داخل ہو جائے تو بھارتی میڈیا اس پر بھی دہشتگرد ہونے کا الزام تھونپ دیتا ہے۔ عالمی دنیا میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے تناظر میںجائزہ لیا جائے تو مسلم ممالک میں پیش آنے والے دہشتگردی کے بڑے واقعات کے پیچھے ہمیشہ امریکہ یا انڈیا کی ایجنسیوں کا کردار نکلتا ہے؟
2000ء کے بعد 2007ء تک پاکستان اور انڈیا کے لوگ ایک دوسرے ملک میں آنے جانے کیلئے سمجھوتہ ایکسپریس پر سفر کیا کرتے تھے،

دونوں اطراف سے سمجھوتہ ایکسپریس پر سفر کرنے والوں میں 80 فیصد ایسے لوگ ہوتے تھے جن کی پاکستان یا ہندوستان میں رشتہ داریاں تھیں، 20 فیصد لوگ تجارت یا سیر و سیاحت کی غرض سے انڈیا یا پاکستان سمجھوتہ ایکسپریس کے ذریعے آیا جایا کرتے تھے، پاکستان سے پتھر، جپسیم، نمک اور دیگر مصنوعات تاجر انڈیا بھجواتے جبکہ انڈیا سے چھالیہ، پان، تمباکو اور الیکٹرانکس کا سامان پاکستان آتا تھا، سمجھوتہ ایکسپریس پاکستان سے واہگہ بارڈر کے ذریعے نئی دہلی جاتی تھی، پاکستان میں سمجھوتہ ایکسپریس کو صرف لاہور سٹیشن لگتا تھا اور انڈیا دہلی سے سوار ہو کر سمجھوتہ ایکسپریس سے پاکستان آئیں تو درجن کے لگ بھگ بڑے چھوٹے ریلوے اسٹیشن پر سمجھوتہ ایکسپریس سٹاپ کرتی تھی۔
18 فروری 2007ء کے بد قسمت روز سمجھوتہ ایکسپریس نئی دہلی سے پاکستان روانہ ہوئی تو ٹرین میں 755 مسافر سوار تھے کہ انڈیا کی دہشتگرد ’’رائ‘‘ نے منصوبہ بندی کے تحت سمجھوتہ ایکسپریس کو پانی پت کے دیوانہ اسٹیشن کے قریب ٹارگٹ کیا اور سمجھوتہ ایکسپریس میں خوفناک دھماکہ ہوا، جس کے نتیجہ میں 67 مسافر موت کے منہ میں چلے گئے، جن میں سے 48 کی شناخت ہو گئی جن کی لاشیں انڈین حکومت نے انڈیا اور پاکستان میں ان کے لواحقین کے سپرد کیں، سمجھوتہ ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والے 19 مسافروں جن میں 7 مرد،

6 خواتین، 4 بچے، 2 بچیاں شامل ہیں کی شناخت نہ ہو پانے پر انہیں پانی پت کے گائوں مہرانہ کے قبرستان میں لاوارث قرار دے کر دفن کر دیا، حادثہ میں 14 پاکستانی شدید زخمی ہوئے جنکا صفدر جنگ ہسپتال دہلی میں علاج معالجہ ہوا اور پاکستانی حکومت نے اپنا طیارہ بھجوا کر ان زخمیوں کو وطن واپس لا کر ان کے گھروں کو بھجوا دیا۔ ذرائع کے مطابق ٹرین حادثہ کا شکار ہونے کے بعد اس میں سوار 146 مسافر 18 فروری 2007سے اب تک لا پتہ ہیں، جن میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی جنکا اب تک کوئی سراغ نہیں مل سکا اور لا پتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کے انتظار میں سسک رہے ہیں۔
انہی لا پتہ ہونے والوں میں سرگودھا کی تحصیل سلانوالی کے گائوں 122 شمالی کے رہائشی راجہ محمد ظہور کا بیٹا کمپیوٹر انجینئر محمد عرفان اور حافظ آباد کا رہائشی رانا عبدالوکیل بھی شامل ہے، جن کی بعد میں تصدیق ہوگئی کہ محمد عرفان امرتسر جیل میں اور رانا عبدالوکیل بھارت کی دوسری جیل میں زندہ ہیں۔ حافظ آباد کا رانا عبدالوکیل اپنے رشتہ داروں کو ملنے کیلئے انڈیا گیا تھا، سرگودھا کا محمد عرفان کمپیوٹر کورس مکمل کرنے کے بعد سلانوالی میں اپنے علاقہ کے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کیلئے سامان خریدنے کیلئے انڈیا گیا تھا واپس آ رہا تھا کہ ٹرین حادثہ کا شکار ہو گئی

تو محمد عرفان کے بھائی راجہ مبشر حسن اور رانا عبدالوکیل کی بیٹی راحیلہ وکیل نے حادثہ کی اطلاع ملتے ہی ہندوستان میں اپنے جاننے والوں سے رابطہ کیا جو پانی پت ہسپتال گئے تو ہسپتال انتظامیہ نے انہیں بتایا کہ محمد عرفان اور رانا عبدالوکیل معمولی زخمی ہیں جنہیں دو دن بعد ڈسچارج کر کے پاکستان روانہ کر دیا جائے گا۔
راجہ مبشر حسن اپنے زخمی بھائی محمد عرفان کو واپس لانے کیلئے 10 دن کا ویزا لے کر انڈیا پہنچا اور رات 2 بجے یہ حسرت لے کر پانی پت کے ہسپتال پہنچ گیا کہ وہ یہاں سے اپنے زخمی بھائی کو لے کر پاکستان آ جائے گا، جہاں عرفان کا خاندان پہلے ہی تذبذب کا شکار اور اپنے لخت جگر کے وطن واپس آنے کا منتظر تھا، جب راجہ مبشر پانی پت ہسپتال پہنچا تو اس سے قبل ہی عرفان کو زخمی حالت میں امرتسر جیل منتقل کیا جا چکا تھا، راجہ مبشر کے مطابق راحیلہ وکیل اس کے انڈیا پہنچنے سے دو روز قبل اپنے والد رانا عبدالوکیل جسے بھی بھارت نے کسی جیل منتقل کر دیا تھا کی تلاش میں ناکام ہو کر وطن واپس آ گئی تھی، پاکستان سے اپنے پیاروں کی تلاش میں جانے والے سرگودھا کے راجہ مبشر اور حافظ آباد کی

راحیلہ وکیل کا انڈیا میں ڈی این اے ٹیسٹ لے لیا گیا، راجہ مبشر حسن بھی راحیلہ وکیل کی طرح مایوس ہو کر وطن واپس آ گیا، راجہ مبشر حسن اور راحیلہ وکیل نے پاکستان اور انڈین حکومت اور پاکستان اور ہندوستان کے سفارتخانوں کو لا تعداد مراسلے لکھے کہ ان کے پیاروں عرفان اور عبدالوکیل کو پاکستان بھجوایا جائے، مگر دہشتگرد اور تعصب پسند بھارت نے ایسا نہ کیا مگر18 اگست 2007 کو راحیلہ وکیل کی ڈی این اے رپورٹ اور 22 ماہ بعد 17 دسمبر 2008ء کو راجہ مبشر کی ڈی این اے رپورٹ ورثاء کو موصول ہوئی جس نے اس امر کی تصدیق کی کہ ان دونوں لواحقین کا ڈی این اے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں جاں بحق ہونے والی کسی غیر شناخت شدہ لاش سے میچ نہیں ہوا، جس سے اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ محمد عرفان اور رانا عبدالوکیل زندہ ہیں، 2011 میں امرتسر جیل سے رہا ہو کر آنے والے نارووال کے رہائشی سخاوت نے

لواحقین کو اطلاع دی کہ محمد عرفان امرتسر جیل میں ہے اسے پاسپورٹ اور ویزا گم ہونے کی پاداش میں فارن ایکٹ کی دفعات کے تحت 4 سال سزا ہوئی ہے۔ جس پر ورثاء کو امید بندھ گئی کہ سزا پوری کر کے انکا بیٹا رہا ہو کر پاکستان آ جائے گا؟مگر نہ تو راجہ محمد عرفان واپس آیا اور نہ ہی رانا عبدالوکیل کا کوئی اتا پتہ چل سکا جس پر رانا عبدالوکیل کی بیٹی راحیلہ وکیل نے اپنے وکیل کی وساطت سے انڈیا اور پاکستان کی عدالتوں میں کیس کیا جسکا 14 سال گزرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا جبکہ راجہ محمد عرفان کے والد راجہ ظہور نے بھارت میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم پیپلز اگینسٹ ٹیرر کے سربراہ اشوک رندھاوا کی وساطت سے بھارتی سپریم کورٹ میں محمد عرفان کی بازیابی کیلئے 2016 میں رٹ پٹیشن دائر کی، بھارتی سپریم کورٹ نے ابتدائی سماعت کے بعد بھارتی حکومت اور

امرتسر جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو نوٹس جاری کیے کہ وضاحت کی جائے کہ محمد عرفان کو پابند سلاسل کیوں رکھا گیا ہے؟ تو بھارتی حکومت نے جواب دینے کیلئے عدالت سے مہلت مانگ لی جس کے بعد بھارتی سپریم کورٹ سو گیا، جب جاگ آئی تو 2 جولائی 2019ء کو بھارتی سپریم کورٹ میں مقدمہ دوبارہ سماعت کیلئے مقرر ہوا تو بھارتی حکومت نے پھر مہلت مانگ لی، اب نجانے کب بھارتی سپریم کورٹ سرگودھا کے راجہ محمد ظہور کی دائر کردہ رٹ پٹیشن کی سماعت کرے گا؟
اس دوران پاکستان میں چار حکومتیں گزر چکی ہیں، مگر کسی بھی حکمران نے سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے لا پتہ افراد کو بھارت سے لانے کیلئے عملی اقدام نہیں اٹھایا حالانکہ پاکستان اس دوران 2016ء میں 84 ماہی گیر، 2018ء میں 45 ماہی گیر، راستہ بھول کر بارڈر کراس کر کے آنے والی بچی گیتا اور 27 فروری 2019 کو پاکستان پر حملہ کرنے والے انڈین پائلٹ ابھی نندن کو جذبہ خیر سگالی کے تحت بھارت کے سپرد کر چکا ہے، لیکن دہشتگرد اور تعصب پسند بھارت تصدیق ہو جانے کے باوجود محمد عرفان اور رانا عبدالوکیل کو چھوڑنے سے انکاری ہے؟ اور بھارتی سپریم کورٹ بھی ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی بلکہ بھارت کی خصوصی عدالت سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے دہشتگرد ملزمان کرنل پروہت، سوامی آنند اور ان کے ساتھیوں کو با عزت بری کر چکی ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں نہ جمہوریت ہے اور نہ مسلمانوں کیلئے انصاف؟
دوسری طرف سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں جاں بحق ہونے والے پاکستانیوں کے لواحقین فیصل آباد کے رانا شوکت، ملتان کے حکم دین اور لاہور کی مسرت امین انصاف حاصل کرنے کیلئے جبکہ سانحہ میں زندہ بچ جانے کی تصدیق ہو جانے والے سرگودھا کے راجہ عرفان کے بھائی راجہ مبشر حسن اور حافظ آباد کے رانا عبدالوکیل کی بیٹی راحیلہ وکیل اپنے پیاروں کو وطن واپس لانے کیلئے ایک طویل عرصہ سے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں، انہی کی درخواست پر 23 مئی 2019ء کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس جس کی صدارت سینیٹر رحمان ملک نے کی تھی نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، وزارت قانون و انصاف پاکستان کو ہدایت کی کہ عالمی عدالت میں کیس دائر کرنے کیلئے بھارت کے متعلقہ افسران،

بھارتی ریلویز، بھارتی پولیس اور سول ہسپتال پانی پت بھارت سے انٹر پول کے ذریعے معلومات حاصل کریں، زخمیوں اور فوت شدگان کا ریکارڈ اور لواحقین کے بیانات قلمبند کر کے 10 دن میں رپورٹ پیش کریں، ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ پاکستان کے مقننہ ادارے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو ابھی تک حتمی رپورٹ مرتب کر کے پیش نہیں کر پائے، جس وجہ سے یہ کیس ابھی تک عالمی عدالت میں دائر نہیں کیا جا سکا؟ اس طرح بھارت سمجھوتہ ایکسپریس کے لا پتہ افراد کو نگل چکا ہے، 14 سال گزر چکے ہیں اور سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے شہداء و زندہ بچ جانے والے راجہ عرفان اور دیگر کے ورثاء منتظر ہیں کہ کیا تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں سانحہ سمجھوتہ

ایکسپریس میں زندہ بچ جانے والوں کو وطن واپس لانے کیلئے کیس عالمی عدالت میں دائر کیا جا سکے گا، کپتان جی آپ نے تو الیکشن سے پہلے بھارت، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں قید پاکستانیوں کو برسراقتدار آ کر رہائی دلانے کا وعدہ کیا تھا، اب آپ کی حکومت کا نصف دورانیہ گزر چکا ہے مگر ماسوائے سعودی عرب کے چند سو افراد کے دیگر ممالک میں قید افراد آپ کی توجہ کے منتظر ہیں۔کپتان جی کیا آپ بھی سابقہ حکومتوں کی طرح صرف بیان بازی تک محدود رہیں گے یا بھارت میں لا پتہ اور دیگر ممالک میں بے گناہ قید پاکستانیوں کی رہائی کے لئے کوئی عملی اقدامات کریں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں