عورت مارچ قرار داد پاکستان کے تناظر میں 270

خوشبو قرآن کریم سے

خوشبو قرآن کریم سے

قمرالنساء قمر

وہ مرد مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جس کی رگ و پے میں فقط مستی کردار

محبت کرنے والے خوشبودار لوگ ، خلوص کی بیھٹکیں وہ احساس کی مٹی سے گندھے بے ریا لوگ اب قصہ پارینہ بن گئے ہیں۔ دور رواں،میں بڑا عجیب لگتا ہے خوشبوؤں ، رنگوں ، روشنیوں اور موسموں، کی باتیں کرنا ،اور اس سے بھی عجیب لگتا ہے اس دور کے لوگوں کے سامنے خلوص، محبت ، پھولوں اور چاہتوں کا ذکر کرنا، اگر آپ کو لگتا ہے، کہ نہیں یہ سب تو اس دور میں بھی ہیں، تو میں اس سے اختلاف نہیں کروں گی، لیکن اگر میں کہوں کہ سب چیزیں ذکر میں تو ہے ،مگر عمل میں نہیں ہے ،تو آپ یقیناً اس سے اختلاف نہیں کر سکیں گے۔
انسان ذکر سے نہیں عمل سے نمو پاتا ہے ،فعل کے بغیر قول کی کوئی اہمیت نہیں ہے، جیسے کسی بھی مقصد کو پانے کے لیے، محنت ضروری ہے، اب اگر کوئی شخص چوبیس گھنٹے بھی اس کا ذکر کرتا رہے، یعنی محنت کے فضائل بیان کرتا رہے ،اور عملاً محنت نہ کرے ، تو کیا اسے کوئی فائدہ ہو گا !!اس کے برعکس اگر وہ لفظاً ایک بار بھی محنت کا ذکر نہ کرے ،لیکن مسلسل محنت کرے، تو وہ یقیناً کامیاب ہو گا۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نوری ہے نہ ناری

بد قسمتی سے یہ آسان سا اصول ہم بھول چلیں ہیں، ہم محبت ، اچھائی ، خلوص اور ایمانداری کا راگ الاپتے ہیں، مگر حقیقت میں یہ جذبے ہمیں اپنے آس پاس یا اپنے اندر، ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔بات ہو رہی تھی کہ ہم خوشبوؤں اور رنگوں سے بہت آگے نکل آئے ہیں ،ہماری زندگیوں میں محبت کا لفظ ہے مگر محبت کا وجود نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم بے سکونی اور ڈپریشن کا شکار ہے، کیونکہ سکون محبت اور خلوص بانٹنے سے حاصل ہوتا ہے،اور ہم اسے دوسروں کا سکون اور خوشی چھین کر لینا چاہتے ہیں، اور دولت اور دنیا میں اسے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔
اس مشینی زندگی میں ہر شخص کی ایک ہی دھن ہے دنیا اور صرف دنیا، وہ دنیا جو برائیوں کی جڑ ہے، اگر ہمارا مقصد حیات بن جائے گی، تو ہم یقیناً ??اچھا مسلمان،، تو دور کی بات?? اچھا انسان ،،بھی نہیں بن سکتے، رزق حلال کمانا بیشک عبادت ہے ، لیکن جب مقصد پیسا بڑھانا ہو جائے، تو انسان شیطان کی راہ پر چل پڑتا ہے۔اور آج ہم شیطان کے ایسے آلہ کار، بن چکے ہیں کہ ہمیں دیکھ کر شیطان کو بھی شرم آتی ہو گی۔
پیسے کی محبت میں انسانوں کا قتل ہو رہا ،تو کہیں جذبوں کا، کہیں رشوت دی جاتی اور کہیں رشوت لی جاتی ہے کہیں کرسی لینے کی چاہ، تو کہیں شہرت کا نشہ، نہیں نظر آتی تو انسانیت نہیں آتی۔ خلوص جذبے سب بے معنی ہو گئے ہیں۔انسان نے یہ کیسی ترقی کی ہے، کہ صحیح اور غلط ادنی اعلیٰ کا فرق بھول گیا ہے۔وہ مسلمان جو کل تک کسی کے کام آنا اپنے لیے باعث فخر، سمجھتا تھا۔ آج بغیر کسی غرض کے سلام دینا ،پسند نہیں کرتا۔
ہماری زندگی میں رنگ ،خوشبو ، محبت ،کیوں ہو گی ،ہم تو دوست کے لیے مخلص نہیں رہے بہت عجیب لگتا تھا، کبھی یہ سن کر کہ ہمارے نوٹس Best friendنے چرائے ، لیکن اب اور ترقی ہو گئی ہے ، اب تو دوستوں سے حسد بھی ہو رہا، اور قتل بھی عام ہو گئے ہیں۔
کل لوگ غیروں کے لیے جان کی بازی لگا دیتے تھے لیکن اب بہن ،بھائی موت کے منہ میں، جا رہے ہوتے جب کہ ان کے پیارے ان کی جان بچانے کے لییانہیں خون کی چند بوندیں دینا گوارا نہیں کرتے، ہر کام غرض کے لیے کیا جاتا، لمبے عرصے کے بعد ایک فون کال بھی، کسی مقصد کے بغیر نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ کسی سے سلام دعا ،بھی یہ سوچ کر رکھی جاتی کہ آج یا آنے والے وقت میں یہ شخص ہمارے کسی کام آ سکتا، تو ٹھیک، ورنہ کسی کام نہ آنے والے شخص سے کون تعلق نبھاتا پھرے۔
بھلے کوئی اتنا مخلص ہو کہ وقت آنے پر جان بھی دے سکتا ہو ، لیکن چونکہ دنیاوی منصب نہیں رکھتا، نہ ہی کسی منصب والے تک پہنچنے کا ذریعہ بن سکتا ہے، تو خواہ مخواہ اس سے رابطہ کیوں رکھتے پھرے۔ لیکن چھوٹی سی کرسی والے کے پیچھے ہم جوتیاں گھساتے، پھرتے ہیں۔ خوشامد کرتے ہیں، مگر ہمارے ضمیر کو گراں نہیں گزرتا۔ اپنے دو رخے پن سے ہمیں اکتاہٹ محسوس نہیں ہوتی، لیکن ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ ہم یہ سب کر کے عرش و کرسی کے مالک کی نا فرمانی تو نہیں کر رہے، نتیجہ میں ہمیں در، در کی غلامی، اور ٹھوکریں ہی ملتی ہیں۔

بقول شاعر مشرق
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

اس قدر تنگ نظر ہو چکا ہے، ہمارا معاشرتی ماحول، کہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا ،قوم کے معمار کی بات کی جائے یا مسیحا کی ہر صاحب نظر جانتا ہے کہ انسانیت مر چکی ہے۔ چند ٹکوں کے لیے ہر شخص بک جاتا ہے، گھریلو ماحول ملکی سیاسی ماحول کو بھی مات دے رہا ،ساس نند کو تو چھوڑ یں، بہن بہن کی دشمن ہو گئی ہے۔ دوسری جانب پروفیشنل کلاس ، میں اس سے بھی بڑا سیاسی ماحول ملتا ہے Leg puleing کو ضروری اور اپنے لیے کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں پروفیشنل لوگ، جب کہ ہم مسلمانوں کو تو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا، حکم دیا گیا ہے

اور اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی رکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارا ایمان اتنا کمزور ہے!!ہم اللہ رب العزت کی نا فرمانی میں اپنی کامیابی ڈھونڈ رہے تو کیا پھر ہمیں کامیابی ملے گی!!!دوسروں کو تکلیف دے کر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ اتنے کم ظرف ہیں کہ دوسروں کی جائز تعریف کرنے کا حوصلہ نہیں ہے ہمارے اندر، تعریف تو دور کی بات ہم اسے مات دینے پر تل جاتے ہیں۔ حسد کی آگ اندر ہی اندر ہمیں جلا رہی ہے۔ جب یہ ہمارے چہروں کو بھی جھلسا دیتی ہے، تو پھر ہم کریموں پر توجہ دیتے ہیں ،یہ کبھی نہیں سوچا کہ زرا اپنے اندر بھی جھاتی مار لیں

کہیں اندر کی آگ کا دھواں تو نہیں جو دل، کے ساتھ ساتھ چہرے پر بھی ظاہر ہو رہا ،دوسروں کی خوشی پر غمگین ہو جانے والوں کو خوشی اور سکون دنیا کی کسی نیند آور دوا، سے نہیں ملے گا۔ اس لیے کہ یہ قدرت کا اصول ہے جس چیز کو جتنا بانٹے گے وہ اتنا بڑھے گی اب ہماری مرضی ہے کہ ہم خوشیاں اور آسانیاں بانٹ کر ان کو پا لیں یا تکلیفوں اور مشکلات کو بانٹ کر ان کے حق دار بن جائیں۔ دوسرے لفظوں میں جو بونا ہے کاٹنا تو وہی ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے، کہ ہم غلط کر کے اچھے کی امید رکھتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئلوں کی دلالی میں ہاتھ کالے ہی ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے منفی سوچ ہم گھٹی میں لے کر آئے ہیں، ہر کسی میں ہر وقت خامیاں تلاش کرنے، چغلی کرنے میں، ہم اپنی انرجی ضائع کرتے رہتے ہیں۔ تو دوسری طرف دنیا کی طلب میں جائز ناجائز بھول بیٹھے ہیں ایسے میں محبت کے رنگ خلوص کی خوشبو کہا سے آئے گی۔ ذہنی سکون پھر ہزاروں روپے کی ادویات سے، بھی نہیں ملتا۔حسد کا گھن خوشیوں کو چاٹ لیتا ہے۔ کینہ اور بغض سکون کے لیے زہر قاتل ہے۔ پھر بتائیے آپ کیوں صحتیاب ہو سکے گے۔

پھر کوی پروڈکٹ چہرہ پر اثر کر بھی گئی، تو دل کی سیاہی کے ساتھ ، سکون کبھی نہیں ملے گا۔منفی سوچ کا دماغ صحت مند معدہ کو تباہ کر دیتا ہے ،پھر اس پر ہزاروں روپے کی دوائیں کیسے اثر کریں۔ اب تو سائنس بھی یہ سب تسلیم کر رہی، لیکن ہم مسلمان ہیں، ہمیں یہ قرآن اور اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے بتا دیا ہے۔
آج دنیا واپس جا رہی مٹی کے برتنوں کی طرف زیتون اور انجیر کی طرف، ہر اس چیز کی طرف جس کا میرے اور آپ کے رب نے حکم دیا ہے۔ تو ہم تو مسلمان ہیں، ہمیں تو واپس لوٹنے میں پہل کرنی چاہیے، کیا آپ کا دل نہیں چاہتا خوشبو دار بننے کو رنگوں اور محبتوں کے دور میں جینے کو!!ہم اپنے اندر سے جھوٹ دھوکا حسد کینہ بغض چغلی تکبر جیسی بیماریاں نکالے بغیر کبھی خوشبو دار نہیں بن سکتے بقول شاعر

پھولاں دا تو عطر بنا عطر دا فر کھڈ دریا
دریا دے وچ فر غوطے لا مچھیاں وانگو تاریاں لا
فر وی تیری بو نہیں مکنی پہلے اپنی میں مکا

وہ چند مسلمان جن کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی جن کے لیے ہر دور میں ان کا رب ہی سب کچھ رہا ہے، ان کی نماز ان کی قربانی ان کا جینا ان کا مرنا ان کے رب کے لیے تھا ،وہ یقیناً بہت مظبوط ایمان والے اور قابل تحسین لوگ ہیں۔ مگر ہم جو ہواؤں کے رخ پھیرنے کی بجائے، ہواؤں کے رخ پر چل پڑتے ہیں، بغیر ان میں چھپی آندھیوں کے تباہی، پر غور کئے ہمارے لیے بھی وقت ہے۔ آئیے لوٹ جاتے ہیں اپنے رب کی طرف ہم اپنے اندر کی گندگی اور تعفن کو قرآن کی تعلیمات پر عمل کر کے دھو سکتے ہیں اور اس کی تعلیمات سمجھنے کے لیے، ہمیں قرآن مجید سمجھ کر ( ترجمہ کے ساتھ پڑھنا ہے )پھر اللہ کا کلام ہمیں اتنی خوشبوؤں سے روشناس کروائے گا، کہ ہم اس دنیا کی ہر بد صورتی کو

اس کی تکالیف کو بھول جائیں گے قرآن کی خوشبو ہی ،ہمارے چہروں سے لے کر روح تک کو روشن اور معطر کر سکتی ہے، ہمارے اندر کی بد صورتی سے لے کر زندگی کی ہر بدصورتی پریشانی کو ختم کر سکتی ہے، زنگ آلود دل کو پاکیزہ کر سکتی ہے۔قرآنی تعلیمات ہی ہمیں مقصد حیات کی طرف گامزن کر سکتیں ہیں اور اس ملک کو?? ریاست مدینہ،، کا رنگ اور خوشبو دے سکتیں ہیں اس لیے?? ریاست مدینہ ،،کا وعدہ کرنے والوں سے اور تمام متعلقہ ذمہ داران سے التماس ہے کہ نصاب سے اسلامیات نکالنے یا کم کرنے کی بجائے قرآنی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں،

اور قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیں۔ قرآن نہ صرف رشوت بد عنوانی، جیسے ناسور، کو ختم کر سکتا ہے بلکہ تمام مسائل کا حل ہے۔ نہ صرف اسلامی دنیا کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے مسائل حل کرنے کا واحد راستہ قرآن عظیمہے اگر یہ نہیں کر سکتے تو اس قوم کو ریاست مدینہ کا لولی پوپ تھمانے سے بھی گریز کریں ، کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے اگر والی مدینہ قرآن کی تفسیر ہیں، تو ریاست مدینہ والوں کا اوڑھنا بچھونا قرآن تھا۔

بقول شاعر مشرق
وہ معزز تھے زمانے میں مسلمان ہو کر
اور ہم خوار ہوے تارک قرآن ہو کر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں