اسلامیہ کالج نورکوٹ روڈ شکرگڑھ میں میرا آخری دن
صبیحہ خاتون شکرگڑھ
آج جب میں ماضی پر نظر ڈالتی ہوں تو کالج کے دوسال ایک تصویر کی شکل میں ابھرتے چلے جاتے ہیں۔میں تصورات وخیالات کے طلوع وغروب میں بہت دور نکل جاتی ہوں۔یہ یادیں میری زندگی کاسرمایہ اورمیرے دل کے خزانے کی عظیم پونجی ہیں۔ان یادوں میں جب کالج کا آخری دن آتا ہے تودل میں آج بھی ایک تڑپ سی پیدا ہوتی ہے۔
وہ دن اس لئے اہم نہ تھا کہ وہ کالج میں میرا آخری دن تھا۔بلکہ اس لئے بھی اہم تھا کہ اس کے بعد میں حسین وجمیل تصورات کی وادی سے نکل کر حقائق کی دنیا میں آئی تھی اور حقیقت کی ایک ٹھوکر سے تصور کا سارا تانا بانا ٹوٹ گیا تھا اور مجھے تب معلوم ہوا تھا کہ زندگی کی تصوری اور عملی شکل میں کیا فرق ہوتا ہے۔
ہم ایک دن پہلے امتحان کے فارم پر کرکے دفتر میں دے چکی تھیں۔سال اول کی طلبات نے سال دوم کی طلبات کو چائے کی پارٹی پر بلایا ہوا تھا۔اس تقریب میں ہمارے سبھی استاتذہ موجود تھے۔محترم پرنسپل صاحب نے بھی شرکت کی۔ہم سب ایک دوسرے کی طرف حسرت اور غم آلود جذبات کے ساتھ دیکھ رہیی تھیں اور کچھ انہی جذبات کے ساتھ ہم ان کمروں کو دیکھ رہیی تھیں جہاں ہم علم ودانش کے موتیوں سے اپنا دامن بھرتی رہی۔ان راہوں اور روشوں کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتی تھی کیونکہ انسان جس جگہ رہتا ہے اسے وہاں کے انسانوں ہی سے نہیں بلکہ درو دیوار شجروحجر اور آثار تک سے ایک نوع کی محبت۔کشش اور وابستگی پیدا ہو جایا کرتی ہے۔انسان کی فطرت میں وابستگی کو بڑا دخل ہے۔کچھ اسی قسم کے جذبات نے ہمارے دل ودماغ کا احاطہ کیا ہوا تھا۔
ٹھیک ایک بجے ہمیں اس کمرے میں لے جایا گیا جہاں چائے کابندوبست تھا۔چائے کے بعد سال اول کی ایک طلبہ نے الوداعی تقریر کی جس میں ہمارے لیے دعا کی گئی کہ ہم امتحان میں کامیاب ہوجائیں۔بعد ازاں سال دوم کی ایک طلبہ نے جواباً سال اول کی طلبہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہمیں اس ادارہ کے درودیوار اور ذروں سے محبت ہے۔ان ذروں کے ساتھ ہماری زندگی کی بہترین یادیں وابستہ ہیں۔اس نے اساتذہ کرام کاشکریہ ادا کرتے ہوئے
جب علامہ اقبالؒ کا یہ شعر پڑھا تو ساری فضا عقیدت اور محبت میں ڈوب گئی
نفس سے جس کی کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کوبعد ازاں جناب پرنسپل خورشید صاحب نے خطاب کیا انہوں نے ہمیں زندگی میں کام آنے والی باتیں بتائیں۔ان کی ہدایات کو طلبہ نے مکمل سکوت کے ساتھ سنا۔2بج کر 30منٹ پہ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
میں جب وہاں سے گھر کی طرف روانہ ہونے لگی تو دل مجھ کو کشاں کشاں پھر کالج کی عمارت کی طرف لے گیا۔ میں برآمدوں میں بخیر کسی مقصد کے گھوم رہی تھی۔جب میں پرنسپل صاحب کے دفتر اور سٹاف روم کے قریب سے گزری تو دوسال کا نقشہ نگاہوں میں گھوم گیا کیسے اساتذہ لیکچر دیتے تھے۔ان اساتذہ کے متعلق کیاکیا باتیں کیا کرتیں تھی۔جن کارویہ سخت تھا۔پرنسپل صاحب نظم وضبط کو قائم رکھنے کے لیے کیاکیا سخت قدم اٹھاتیتھے۔۔وہ سختیاں ہمیں کیا کیا باتیں کہنے پر مجبور کردیتی تھیں۔۔ایک لحظہ کے لیے یہ تمام باتیں ذہین میں تازہ ہوگیں۔
آج جب کہ میں کالج سے رخصت ہونے والی تھی یہ تمام باتیں محو ہورہی تھیں۔شکایات ختم ہورہی تھیں اور دل میں عقیدت اور نگاہوں میں تشکر و استحسان کے جذبات ابھرتے چلے جارہے تھے ۔یہی حسین یادیں زندگی کی ایک قیمتی دولت ہیں اور مستقبل میں ان یادوں کے طفیل دل تڑپے گا بھی اور سکون بھی حاصل کرے گا۔
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے۔