نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 139

حکومت کی خفیہ بیلٹ میں جیت یقینی ہے !

حکومت کی خفیہ بیلٹ میں جیت یقینی ہے !

تحریر:شاہد ندیم احمد
سینٹ الیکشن کیسے ہوں گے ،ایک عرصے سے بحث چلی آرہی تھیں ،سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا کہ سینٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی ہوں گے،سپریم کورٹ نے چارایک کی اکثریت سے فیصلہ سنا تے ہوئے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن ہی شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کرسکتا ہے،تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کے لیے تمام ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرسکتا ہے،چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قراردے چکی ہے کہ سیکریسی کبھی بھی مطلق نہیں ہوسکتی اورووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا، تاہم ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ضرور ہونی چاہیے ،لیکن یہ تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں اوپن بیلٹ کے لئے عمران خان کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کام کرتی رہی ہیں،سپریم کورٹ کی طرف سے اوپن بیلیٹ کے خلاف فیصلہ تحریک انصاف کے لئے شدید سیاسی جھٹکا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں صرف اتحادی جماعتوں میں ہی نہیں،بلکہ تحریک انصاف کی صفوں میں بھی انتشار پیدا ہوسکتا ہے۔ حکمران جماعتوں کے کئی ارکان اپوزیشن کے امید واروں کو ووٹ دے کر کامیاب کروا سکتے ہیں۔ اس دوٹوک فیصلے سے جہاں اپوزیشن کے موقف کو تقو یت ملے گی ،وہیں یہ تاثر بھی راسخ کرے گا

کہ اسٹبلشمنٹ اب حکومت کو براہ راست تعاون فراہم نہیں کررہی ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر تحریک انصاف کی ناکامی اور ڈسکہ کی نشست پر دھاندلی کے الزامات کے بعد الیکشن کمیشن کا غیر معمولی سخت فیصلہ، پہلے ہی ملکی سیاسی ماحول میں ایک حیرت انگیز تبدیلی کے طور پر دیکھا جارہا ہے،کیو نکہ ایسی تبدیلی قلب اسٹبلشمنٹ کے براہ راست اشارے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ضمنی انتخابات کے بعد اپوزیشن لیڈروں نے تسلسل سے ایسے بیانات دیے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ نے انتخابی دھاندلی میں حصہ نہیں لیا ہے، یہاں تک کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے بھی اسٹبلشمنٹ کی بجائے وفاقی ایجنسیوں پر مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے وزیر اعظم کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔
اس تنا ظر میںواضح نظر آنے لگا ہے کہ اپوزیشن قیادت کی تنقید کا رخ ایک دم بدل گیا ہے ، اپوزیشن کے بدلے رویئے کی ایک وجہ سینیٹ انتخاب بھی ہوسکتے ہیں،کیو نکہ سیاسی پارٹیوں میں ایسے بہت سے ارکان شامل ہیں جو کسی صورت براہ راست اسٹبلشمنٹ مخالفت کی خواہش نہیں رکھتے ہیں،تاہم اپوزیشن کے بدلے ہوئے بیانات کو اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کسی تفہیم کا نتیجہ بھی کہا جا رہا ہے ،لیکن اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ اپوزیشن اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کا تاثر مضبوط کرکے سینیٹ الیکشن میں فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔آئی ایس پی آر بار ہاپی ڈی ایم کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطہ کی تردید کر چکا ہے، البتہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اس قیاس کو قوی کررہا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے

تحریک انصاف کو سیاسی معاملات خود طے کرنے کا پیغام دے دیاہے،ملکی سیاسی منظر نامہ میں ایسی قیاس آرائیاں انتخابی نتائج تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں،پنجاب سے سینیٹرز کے بلامقابلہ منتخب ہونے کی خبر بھی اشارہ دے رہی ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی پوزیشن ڈانواں ڈول ہے۔ وزیر اعظم نے اس کام کے لئے چوہدری پرویز الہیٰ کو ٹاسک دیا تھا جو کہ انہوں نے( ق) لیگ کا ایک سینیٹر منتخب کروانے کے عوض بخوبی سرانجام دیا ہے ،اسی طرح پنجاب سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے مساوی تعداد میں سینیٹرز منتخب ہوگئے ہیں۔ مریم نواز نے اس سمجھوتے پر پر بالواسطہ ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا ، لیکن اس پر کوئی دوٹوک رائے دینے سے گریز کیا ہے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے

کہ نواز شریف اس ڈیل کی منظوری دے چکے تھے، البتہ عمران خان کسی صورت ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے کہ جس سے اندازہ ہو کہ مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی قسم کی سودے بازی کررہے ہیں،کیو نکہ انہیں ملک بھر میںخاص طور پر اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لئے کرپشن کارڈاستعمال کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ سینٹ انتخاب کسی بھی طریقے سے ہوں ، خرید و فروخت کی مندی تو سر عام لگی ہے ، اس پر عدالتی فیصلے کے کوئی منفی یا مثبت اثرات ہونے والے نہیں ہیں،حکومت اور اپوزیشن قیادت سینیٹ انتخابات میں اپنی جیت یقینی بنانے کیلئے تمام حربے استعمال کررہے ہیں،جبکہ ان انتخابات کی اہمیت ایک آزمائشی پرواز سے زیادہ نہیں،البتہ ان انتخابات سے دونوں جماعتوں کو عوام میں اپنی مقبولیت کا اندازہ ہوگا اور اس کے حوالے سے ہی قومی انتخابات کی پالیسی بنائیں گے۔اپوزیشن نے اپنے دور اقتدارمیں جو کارنامے انجام دیے ہیں،اس کا عوام کے ذہنوں پر منفی اثر ہونا لازمی ہے،

اس حوالے سے اپوزیشن کے لیے قومی انتخابات ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔پی ڈی ایم اپنے احتجاج اورجلوسوں کو چھومنتر سے جو کامیابی دلا رہی ہے، اس کی کوئی اہمیت نہیں ، کیونکہ اس ملک میں اس قسم کی چالاکیاں عام ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اگر آنے والے انتخابات تک حکومت کو مہلت ملتی ہے اور عمران خان قوم و ملک کے لیے کوئی اچھا تعمیری کام کرجاتے ہیں توآیندہ دس پندرہ سال بھی انہیں اقتدار میں رہنے سے کوئی نہیںروک سکے گا ۔سینٹ انتخاب اپوزیشن کے حسب منشاء خفیہ بیلٹ کے ذریعے تو ہونے جارہے ہیں ، تاہم اس کے باوجود اپوزیشن اتحادکیلئے سینیٹ انتخابات میں جیت کسی معجزے کے مرہون منت ہے ،اس کے بر عکس حکو مت کی خفیہ بیلٹ میں بھی جیت یقینی نظر آتی ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہو گی کہ اس نے اپنی تمام تر نااہلیوں کے باوجود اپنے پیر مضبوطی سے جما لیے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں