ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت 438

کاتبِ وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاندانی شرافت، نسبی تعلقات، قبول اسلام ، مکارم اخلاق ، جنگی تدابیر ، فتوحات، رعایا کی نگہداشت اور عدل و انصاف

کاتبِ وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خاندانی شرافت، نسبی تعلقات، قبول اسلام ، مکارم اخلاق ، جنگی تدابیر ، فتوحات، رعایا کی نگہداشت اور عدل و انصاف

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ پوری امت کی طرف سے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بہترین جزاء عطا فرمائے جنہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں استعمال کرکے، دکھ اور مصائب جھیل کر اپنے خون سے گلشن اسلام کی آبیاری کی جس کی بدولت آج ہم تک دین اسلام صحیح شکل و صورت میں موجود ہے۔ پوری امت میں سب سے بلند اعزاز اور مقام پانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دین اسلام کو پھیلانے اور بچانے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی جانثاری اور وفاداری کا ثبوت دیا کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قیامت تک عاجز رہے گی۔
کفر و اسلام کا پہلا معرکہ:
مدینہ طیبہ کیسے 160 کلومیٹر دور بدر کا میدان ہے جہاں حق و باطل کا سب سے پہلا معرکہ بپا ہوا۔ شمع اسلام کو گُل کرنے والے کئی ابدی بدبخت خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر بالآخر خدائی قہار کیروبرو جا پہنچے، کفر کے غرور کا سر نیچا ہوا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر دل سپاہیوں نے مشرکوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کیا۔اس رزم گاہ کی سرزمین نے بیسیوں دشمنان اسلام کے خون کو چوسا، انہی میں عرب کے معروف قبیلہ بنو امیہ کے خاندان کے نامی گرامی وڈیرے خدائی لشکر کی تلواروں سے گھائل ہوئے،صحابہ کرام کے نیزوں کی انیوں پر اس خاندان کے سردار عتبہ، ولید اور حنظلہ کو اچھال دیا گیا اور یوں دشمنان اسلام اپنے انجامِ بد کو جا پہنچے۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا خاندان:
یہ خاندان دو دھڑوں میں تقسیم ہوا، بعض دین دشمنی میں اپنی جان کی بازی ہار گئے اور بعض دین دوستی میں حیات جاوداں پا گئے۔ اس دوسرے فریق میں بنو امیہ کا وہ خوش نصیب شخص جسے دنیا جرنیل اسلام، کاتب وحی، فاتح عرب وعجم، امام تدبیر و سیاست اورسب سے بڑی اسلامی ریاست کے حکمران کے تعارف سے جانتی ہے، وہ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما ہے۔
تاریخ کا قلمدان:
جب سے تاریخ کا قلمدان متعصب مزاج لوگوں کے ہتھے چڑھا ہے۔ حقائق کو مسخ کر کے جتنی بے انصافی اس عظیم المرتبت شخصیت سے برتی گئی شاید کسی اور سے اتنی کی گئی ہو اس لیے ان کے شان و مقام عظمت اور سنہری کارناموں کو بیان کرنا جہاں ہماری عقیدت کا مسئلہ ہے وہاں پر تاریخ سے انصاف کا تقاضا بھی ہے۔
ولادت:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں راجح قول یہ لکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ بعثت نبوت سے پانچ برس پہلے پیدا ہوئے۔
نام و نسب:
حافظ ابن حزم نے جمہرۃ الانساب میں آپ کا نسب یوں لکھا ہے: معاویہ بن ابو سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔
نسبی تعلقات:
آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان کا خاندان نبوت سے بنو ہاشم سے بہت گہرا تعلق ہے۔ امام ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں لکھا ہے کہ حضرت معاویہ کی ہمشیرہ ام المومنین رملہ(ام حبیبہ)بنت ابو سفیان؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ ہیں۔ ابو جعفر بغدادی نے کتاب المحبر میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زلف تھے۔ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن قریبہ صغریٰ حضرت امیر معاویہ کے نکاح میں تھیں۔ مصعب زبیری نے نسب قریش میں لکھا ہے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خوشدامن(ساس )میمونہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ہیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند شہید ِکربلا حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ کی والدہ لیلیٰ بنت مرہ اسی میمونہ کی بیٹی ہیں۔اس کے علاوہ بھی علماء انساب نے کئی تعلقات بیان کیے ہیں۔
قبولِ اسلام:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنا فرمان نقل کیا ہے کہ میں صلح حدیبیہ کے بعد 7 ہجری میں عمرۃ القضاء سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا۔ اور ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایۃ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے اسلام کا اظہار فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مرحبا کہا۔
مکارمِ اخلاق:
امام ذہبی رحمہ اللہ نے تاریخ اسلام میں لکھا ہے کہ آپ حلم و بردباری اور اپنے اعلیٰ اوصاف و اخلاق کے اعتبار سے اپنے ہمعصر لوگوں میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔چنانچہ قبیصہ بن جابر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ہم نشینی اختیار کی میں نے ان سے زیادہ حلم بردبار اور جہالت سے دور رہنے والا کوئی نہیں دیکھا چنانچہ امام ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مروت کے بارے میں اپنا فرمان نقل کیا ہے کہ مروت چار چیزوں میں ہوتی ہے اسلام میں پاکدامنی، مال کا صحیح اور جائز طریقے سے حاصل کرنا، اقرباء کی رعایت کرنا اور پڑوسیوں سے تعاون کرنا۔
خشیتِ الہٰی:
امام ترمذی نے اپنی سنن میں حدیث ذکر کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے جلاد شُفیا اصبحی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے ایک حدیث آپ کو سنائی کہ قیامت کے دن عالم، مجاہد اور تیسرا سخی ان سے حساب کتاب لیا جائے گا اور یہ لوگ اپنی فاسد نیتوں کی وجہ سے اس میں ناکام ہوجائیں گے تو ان کو جہنم کی بھڑکتی آگ میں ڈالا جائے گا۔ یہ سن کر حضرت امیر معاویہ بہت روئے بہت روئے یہاں تک کہ حاضرین مجلس کو یہ خیال ہونے لگا کہ شاید آپ اسی حالت میں فوت ہوجائیں گے۔ پھر تھوڑی دیر بعد جب کیفیت سنبھلی تو آپ نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت فرمائی۔امام دولابی رحمہ اللہ نے کتاب الکنی ٰمیں لکھا ہے ابو مریم ازدی رضی اللہ عنہ امیر معاویہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنایا:’’جس شخص نیکسی حاحت مند کی ضرورت کو پورا نہ کیا اور حاجت مند پر اپنا دروازہ بند کر لیا تو اللہ تعالیٰ بھی آسمان سے اس کی حاجت روائی کا دروازہ بند کر دیں گے۔‘‘ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ اتنا روئے کہ اوندھے گر گئے اور اپنے دربان کو بلوایا اور ابو مریم سے کہا کہ حدیث دوبارہ بیان کریں۔ انہوں نے دوبارہ بیان کی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دربان سے کہا سعد میں تمہیں یہ ذمہ داری سونپتا ہوں کہ جب کوئی حاجت مند آئے تو اسے میرے پاس لے آنا پھر اللہ تعالی ٰ اس کے حق میں میری زبان پر جو فیصلہ چاہیںگے،وہ کریں گے۔
حضرت امیر معاویہ کا مقام رسول اللہ کی نگاہ میں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ کبیر میں عبدالرحمان بن ابی عمیرہ مُزَنی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے اللہ!تو معاویہ کو ہادی اور مہدی بنا اسے بھی ہدایت نصیب فرما اور اس کے ذریعے دوسروں کو بھی ہدایت عطا فرما۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نیمسند میں حضرت عرباض رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھا ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ!معاویہ کو کتاب اور حساب کا علم عطا فرمااور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔اسی طرح دیگر کئی محدثین نے امیر معاویہ کے فضائل و مناقب پرکافی ساری احادیث ذکر فرمائی ہیں۔
کلام اللہ کی کتابت:
ساری انسانیت کی تاصبح قیامت رہنمائی کے لیے بنیادی طور پر جس کتاب کو اولیت حاصل ہے وہ قرآن کریم ہے۔ظاہر بات ہے کہ جب اس کو لکھا جاتا تھا تو اس کے لیے قابل اعتماداور پڑھے لکھے اشخاص کا تقرر ہوتا چنانچہ دیگر محدثین کی طرح امام ہیثمی نے بھی اپنی کتاب مجمع الزوائد میں عبداللہ بن عمرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کلام اللہ شریف کی کتابت فرمایا کرتے تھے۔
قرآن کریم کی بسم اللہ:
تفسیر قرطبی اور روح المعانی میں ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں قرآن کریم کو لکھا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے معاویہ! دوات کی سیاہی درست رکھو، قلم کو ٹیڑھا کرو، (بسم اللہ الرحمن الرحیم کی) ’’ب‘‘کھڑی لکھو ’’س‘‘کے دندانے جدا رکھو، ’’م‘‘کے دائرے کو اندھا نہ کرو (کھلا رکھو)، لفظ ’’اللہ‘‘خوب صورت لکھو، لفظ’’رحمٰن‘‘کو دراز کر و اور لفظ’’رحیم‘‘عمدگی سے لکھو!
غزوات میں شرکت:
علی بن برہان الدین حلبی نے سیرت حلبیہ میں لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ غزوہ حنین میں نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر معرکہ لڑا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک سو اونٹ اور چالیس اوقیہ چاندی بھی عنایت فرمائی۔ فتح مکہ 8 ہجری رمضان میں پیش آیا اس کے بعد غزوہ طائف اورغزوہ حنین میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ کے ہمرکاب رہے۔
شہادتِ عثمان کا المناک سانحہ:
خلیفۃ الرسول سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں بلوائیوں نے شورش بپا کی اور آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بنانے لگے اس موقع پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی کی خدمت میں عرض کی کہ آپ شام تشریف لائیں۔ وہاں آپ کی جان کا تحفظ بھی ہوگا اور وہ لوگ اطاعت گزار بھی ہیں۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قُربِ نبی میں رہنے کو ترجیح دی۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مہاجرین و انصار بالخصوص حضرت علی المرتضیٰ، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس نازک صورتحال پر مشورہ کیا اور خلیفہ رسول کی حفاظت کی بھر پور تاکید فرمائی۔ اس کے بعد آپ شام چلے گئے،مختلف علاقوں سے فسادی اور سرکش لوگ(جو بعد میں چل کر خوارج کہلائے)مدینہ طیبہ پہنچے اور حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ حالات یہاں تک سنگین ہو گئے کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا مسجد جانا بھی دشوار ہوگیا آپ نے شام میں امیر معاویہ، بصرہ میں عبداللہ بن عامر اور کوفہ کے والی کو ان حالات کی اطلاع بھیجی اس پر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ فہری کی قیادت میں ایک فوجی دستہ مدینہ طیبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حفاظت کے روانہ کیا۔ابھی یہ دستہ رستے میں تھا کہ بلوائیوں کو اس کی خبر ہوگئی اور ان ظالموں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا ۔
سلسلہ فتوحات:
آپ کی حکمت عملی اور جوانمردی کے بیسیوں واقعات کتب تاریخ میں موجود ہیں۔ اپنی مدبرانہ سیاسی سوچ اور حکمت عملی کی بدولت آپ نے تقریبا 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کی۔ کئی ملکوں کے ملک، شہروں کے شہر،جزیروں کے جزیرے، قلعوں کے قلعے اور علاقوں کے علاقے آپ کے دور میں فتح ہوئے اور وہاں اسلامی ریاست کو فروغ دیا گیا۔ جن میں صرف چند نام یہ ہیں: بلادِ افریقہ، بلادِ سوڈان، قبرص، طرابلس، قیروان، جلولا، قرطاجنہ، قلعہ کمخ، قسطنطینیہ، جزیرہ ارواد، جزیرہ روڈس وغیرہ۔ باقی خراسان، ترکستان، کابل، بخارا، سمرقند، بلخ اور طبرستان وغیرہ پر معرکے جاری رہے۔
رومی بادشاہ کے نام خط:
البدایۃ والنہایۃ میں ہے کہ جب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خون عثمان کے بارے باہمی جنگ ہو رہی تھی اس وقت اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے رومی بادشاہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ پیشکش کی کہ اس جنگ کے اندر میں آپ کا یہ تعاون کر سکتا ہوں کہ اپنی عظیم فوج آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں تاکہ آپ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو شکست دے سکیں۔ اس موقع پر آپ رضی اللہ عنہ نے رومی بادشاہ کودرج ذیل خط لکھا۔
اے لعنتی انسان!اگر تو اپنی عادتوں سیباز نہ آیا اور اپنے ملک کی طرف واپس نہ گیا تو میں تیرے خلاف اپنے چچازاد بھائی (علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ)سے صلح کر لوں گا اور تجھے یہاں سے نکال دوں گا اور زمین کو وسعت کے باوجود تیرے اوپر تنگ کر دوں گا۔ اس بات سے رومی بادشاہ خوف زدہ ہوا اور باز آگیا۔
حضرت علی کا دوٹوک فیصلہ:
نہج البلاغۃ میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ یقیناً ہم دونوں (میرا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)کا رب ایک(اللہ ہی)ہے۔ ہمارا نبی (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)ایک ہے۔ ہماری اسلام کی دعوت ایک ہی ہے نہ تو ہم اُن سے اللہ پر ایمان لانے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرنے میں آگے بڑھے ہوئے ہیں اور نہ ہی وہ ہم سے اس بارے آگے بڑھے ہوئے ہیں یعنی ہم دونوں برابر ہیں۔ ہمارا اختلاف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ناحق خون(قتل) کے بارے اختلاف ہوا ہے اور ہم اس سے بری ہیں۔
جنگِ صفین کے تمام شہدائ، جنتی ہیں:
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت یزید بن اصم رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ صفین کے مقتولین کے بارے سوال کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے مقتولین اور ان (حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ)کے مقتولین جو اس جنگ میں شہید ہوگئے دونوں جنتی ہیں۔
آثارِ حرم کی نگہداشت:
مورخ بلاذری نے فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ مکہ مکرمہ میں حدود حرم کے نشانات تقریباً مٹ چکیتھے۔ اس حوالے سے آپ نے مروان بن حکم کو شاہی مراسلہ جاری کیا کہ حضرت کرز بن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ ان حدود سے خوب واقف ہیں اس لیے ان کی رہنمائی میں آثار و حدود حرم کی نشان دہی کرائیں اور ان کی تجدیدکرائیں تاکہ لوگوں کو حرم کی حدود کا پتہ چلے۔ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ میں بھی آثار نبوی کو باقی رکھنے کے لیے آپ نے انتظام کروایا چنانچہ مسجد نبوی کے اردگرد گلی کوچوں میں پختہ فرش لگوائے اور جس جس مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزے صادر ہوئے ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی رہنمائی میں وہاں پر بعض یادگار تعمیرات کیں۔
رعایا کی خبر گیری:
کسی بھی حکمران کے لیے سب سے اہم بات رعایا کی خبر گیری اور ان کی ضروریات کو منظم طور پر پورا کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رعایا کی خبر گیری کا پورا نظام مقرر کیا ہوا تھا۔ ہر ہر قبیلے میں ایک شخص کو متعین فرماتے جو قبیلے والوں کے حالات اور ضروریات کی مکمل خبر گیری کرتا۔ وہ ہر روز اپنے قبیلے والے سے یہ سوال کرتا کہ کیا کوئی بچہ پیدا ہوا ہے؟ قبیلہ میں کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟ قبیلہ میں کوئی مہمان آیا ہے؟ اور اگر مہمان آیا ہے تو اس کی ضروریات کیا ہیں؟ اس کے بعد وہ شخص سرکاری دفتر پہنچتا، بچہ کا نام اور دیگر کوائف ایک رجسٹر میں درج کرتا اور ان کی ضروریات کا مناسب انتظام کرنے کے لیے وظیفہ مقرر کرتا۔
آباد کاری اور فوجی مراکز:
مفتوحہ علاقوں میں آپ نے آباد کاری کی داغ بیل ڈالی اور مختلف ممالک میں اسلامی افواج کے لیے چھاؤنیاں اور مراکز قائم کیے۔ اس سلسلے میں شام کے ساحل پر قلعہ جبلہ، اسی طرح طرح مرعش، قیروان، الاذقیہ، انطرطوس، مرقیہ اور بلنیاس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر علاقے کی اندرونی صورتحال کوجرائم سے روکنے اور پرامن رکھنے کے لیے پولیس کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ نے اس کے بھی پورے انتظامات فرمائے۔
نہروں اور چشموں کی منصوبہ بندی:
آپ کے دور میں محکمہ آبپاشی پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور عوام کی سہولت کے پیش نظری نہری نظام کی بنیاد ڈالی گئی۔ چنانچہ عراق میں نہر معقل(صحابی رسول حضرت معقل بن یساررضی اللہ عنہ نے اس کا افتتاح کیا تھا)مدینہ طیبہ میں میدان احد کے قریب قناۃ معاویہ کے نام سے نہرکھدوائی گئی۔ اسی طرح مدینہ طیبہ سے تقریبا 20 میل دور نشیبی علاقے میں چوپایوں کی سہولت کے لیے ایک بند بنوایا جس میں بارش کا پانی جمع ہوتا اور مویشی اس سے فائدہ اٹھاتے۔
تاریخ عرب و عجم کی تدوین:
ابن ندیم نے الفہرست میں لکھا ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں یمن کے دارالحکومت صنعا میں عبید بن شریہ جہمی بہت بڑا تاریخ دان رہا کرتا تھا۔ اس نے زمانہ جاہلیت بھی پایا اور عہد نبوت بھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں سنی تھی۔ اسے عرب و عجم کے سلاطین اور امرائکے حالات ازبر تھے،علم انساب کا ماہر تھا۔آپ رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ سابقہ عرب و عجم کی تاریخ کو کتابی شکل میں مدون کرے چنانچہ اس نے کئی کتابیں لکھیں مثلاً کتاب الامثال، کتاب الملوک اور کتاب الماضیین وغیرہ۔ اسی طرح اس وقت کے مشہور تاریخ دان دغفل بن حنظلہ سدوسی کو بھی تدوین تاریخ میں لگایا۔
یونانی طب کے لیے خدمات:
شبلی نعمانی نے الانتقاد علی تمدن اسلامی میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے عہد میں ایک شخص ابن آثال ماہر لسانیات تھا۔ اس نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حکم پر یونانی طب کی کتابوں کو یونانی سے عربی زبان میں منتقل کیا اور اس سے پہلے یہ کام کسی شخص نے نہیں کیا تھا۔
دیگر سماجی خدمات:
مختصر یہ کہ آپ نے کئی منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا،مثلا ً:
1. تجارت کے فروغ کے لیے آپ نے بیت المال سے بغیر نفع اور سود کے قرضے جاری کیے اور اس کے لیے بین الاقوامی معاہدے کیے۔
2. انتظامیہ کو منظم کیا اور اسے عدلیہ میں مداخلت سے روکنے کا حکم جاری کیا۔
3. دمشق میں سب سے پہلا اقامتی ہسپتال قائم کیا۔
4. خانہ کعبہ کے پرانے غلافوں کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم نامہ جاری کیا ۔
5. سب سے پہلے اسلامی بحری فوج قائم کی۔
6. بحری جہاز کے کارخانے بنائے، عالمی سپر پاور رومی بحریہ کو شکست دی۔
7. ڈاک کا جدید مضبوط نظام قائم کیا او ڈاکخانہ کے نظام کی اصلاحات کیں۔
8. سرکاری حکم نامے پر سرکاری مہر لگانے اور حکم کی ایک کاپی سرکاری دفاتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ آپ کی ہی ایجادہے۔
9. قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا بھی خاطر خواہ انتظام کیا۔
10. اسی طرح فن خطاطی میں خط دیوانی کے موجد آپ ہیں۔
امہات المومنین سے حسن سلوک:
امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب المصنف میں عبدالرحمان بن عصمہ کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ایک قاصد ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں کچھ ہدیہ لے کر حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ امیر المومنین کی طرف سے یہ ہدیہ قبول فرمائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ ہدیہ قبول فرما لیا۔ جب وہ قاصد واپس چلا گیا تو عبدالرحمان بن عصمہ نے ام المومنین سے عرض کیا کہ کیا ہم مومن نہیں اور وہ امیر المومنین نہیں؟ تو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہاں تم مومن ہو اور وہ(سیدنا معاویہ بن ابو سفیان) امیر المومنین ہیں۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ایک بار حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میں ایک قیمتی ہار ہدیۃً پیش کیا جس کی اس وقت قیمت ایک لاکھ دراہم تھی۔ سیدہ رضی اللہ عنہانے وہ قبول فرمایا اور اسے دیگر امہات المومنین میں تقسیم فرمایا۔
حسنین کریمین سے خوشگوارتعلق:
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ جب حضرت امیر معاویہ کی خلافت قائم ہو گئی تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے بھائی سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لاتے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں شہزادوں کا بہت زیادہ اعزاز و اکرام فرماتے انہیں مرحبا کہتے اور بیش قیمت عطیات سے ان کی خدمت فرماتے۔
مقدس متبرکات سے حصول فیض:
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ متبرکات تھے جیسا کہ صحیح البخاری میں ہے کہ ’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک کاٹے۔‘‘ وہ بال آپ نے اپنے پاس محفوظ رکھے اور وصیت فرمائی کہ جب میرا انتقال ہو جائے تو ان کو میرے منہ اور ناک میں رکھ دیا جائے۔ مورخ بلاذری نے انساب الاشراف میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تراشے ہوئے ناخن مبارک کے مقدس ٹکڑے موجود تھے آپ نے وصیت فرمائی کہ بعد وفات ان کو میرے منہ، ناک، آنکھوں اور کانوں میں ڈال دیا جائے اور فرماتے تھے کہ مجھے پوری امید ہے کہ ان کی برکت سے میری معافی ہو جائے گی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک قمیص مبارک بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھی جس کے بارے میں ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب آپ مرض الوفات میں تھے تب آپ نے یہ وصیت فرمائی کہ اس قمیص کو میرے کفن میں ایسے طور پر شامل کر نا کہ یہ میرے جسم کے ساتھ ملی رہے۔
قاتلانہ حملہ:
امام ابن کثیر نے البدایہ میں لکھا ہے کہ تین خارجی عبدالرحمان ابن ملجم الکندی، برک بن عبداللہ تمیمی اور عمرو بن بکر تمیمی نے حرم کعبہ میں بالترتیب حضرت علی، امیر معاویہ اور عمرو بن عاص کے قتل کا منصوبہ بنایا اور 17 رمضان 40 ہجری کی تاریخ متعین کی۔ ابن ملجم کوفہ آیا اور حضرت علی المرتضیٰ پر فجر کی نماز سے پہلے حملہ کیا جس کی وجہ سے آپ جاں بر نہ ہو سکے اور 21 رمضان کو شہادت کا جام نوش کر گئے۔ برک بن عبداللہ دمشق شام پہنچا اور حضرت امیر معاویہ پر خنجر سے حملہ کیا جس کی وجہ سے آپ شدید زخمی ہوئے۔ فتنہ کے سد باب کے لیے برک بن عبداللہ کو قتل کردیا گیا اس کے بعد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز کے مقام پر حفاظتی انتظام کیا جبکہ مصر میں عمرو بن بکر بھی اپنے طے شدہ منصوبے کے مطابق پہنچا، اتفاقا اس دن حضر ت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے اور نماز کے لیے خارجہ بن حبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ خارجی نے خارجہ بن حبیب کو عمرو بن عاص سمجھ کر شہید کر دیا۔
تقویٰ کی تلقین:
ابنِ عساکر نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ پر شدت مرض کی وجہ سے غنودگی طاری ہو گئی۔ جب کچھ افاقہ ہوا تو آپ نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ کا خوف کرو۔جو شخص تقویٰ اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہلاکتوں سے بچا لیتے ہیں اور جو شخص اللہ سے خوف نہیں رکھتے تو ان کی ہلاکت سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔
وفات اور جنازہ:
بالآخر وہ وقت بھی آ پہنچا جس سے کسی ذی روح کو چھٹکارا نہیں۔ تاریخ خلیفہ ابن خیاط میں ہے کہ آپ کی وفات 22 رجب المرجب 60 ہجری کو ہوئی۔ ضحاک بن قیس فہری رضی اللہ عنہ جو آپ کے معتمد خاص تھے انتقال کے بعد مکان کے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام عرب کے لیے جائے پناہ تھے ان کے معاون و مددگار تھے، اللہ تعالی نے ان کے ذریعے مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کو ختم فرمایا اور بے شمار ممالک کو ان کی سربراہی میں اسلام کے زیر نگیں آئے پھر آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے کفن میں متبرکات کو شامل کر لیا گیا۔اسی دن نماز ظہر کے بعد ضحاک بن قیس فہری نے دمشق کی جامع مسجد کے قریب آپ کا جنازہ پڑھایا اور آپ کے جسد مبارک کو امام ذہبی کے بقول باب الجابیہ اور باب الصغیر( دمشق)کے درمیان دفن کر دیا گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں