نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 268

صادق سنجرانی جیت جائیں گے!

صادق سنجرانی جیت جائیں گے!

تحریر:شاہد ندیم احمد
سینیٹ کے انتہائی ہائپ انتخابی عمل کی تکمیل کے بعداب سب کی نگاہیں، ایوان بالا کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے اہم عہدوں کے ہونے والے انتخاب پر مرکوز ہیں،وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سینیٹ الیکشن کے دوران جس طرح اپوزیشن نے پیسہ چلایا پوری قوم کے سامنے ہے، انتخابی اصلاحات سے کرپشن کے سارے دروازے بند کروں گا، مستقبل میں پیسہ کا استعمال روکنے کیلئے قانون سازی پر کام جاری ہے،ہماری کوشش ہے کہ آئندہ سینیٹ انتخابات اوپن ووٹنگ کے ذریعے ہوں گے،پی ڈی ایم سینٹ الیکشن تو پیسے کے زور پر جیت گئی ،مگر چیئر مین سینیٹ الیکشن میں انہیں ناکامی ہو گی، صادق سنجرانی ہمارے مضبوط امیدوار ہیں، اس بار انشا اللہ اپوزیشن کو بڑا سر پرائیز دیں گے۔
ایک طرف وزیراعظم پا کستان میں امریکی طرز انتخابات کے خواہاں ہیں، جبکہ دوسری طرف وزیراطلاعات شبلی فراز کا کہنا ہے کہ اب بائی دا بک نہیں چلیں گے،

صادق سنجرانی کو جتوانے کیلئے ہر حربہ استعمال کریں گے، یہ نہیں ہوسکتا کہ فٹ بال میں دوسری ٹیم کو ہاتھ سے بال روکنے کی اجازت ہو اور ہم صرف پائوں سے کھیلتے رہیں۔حکومت چیئر مین سینٹ الیکشن میں اسلام آباد الیکشن کی روایت دھرانا نہیں چاہتی ،اس لیے ارکان ایوان بالا کے ضمیر جگانے کی بھر پور کو شش جاری ہے ،ویسے بھی صادق سنجرانی صرف حکومت کے ہی نہیں ،ریاست کے بھی مضبوط اُمید وار ہیں ، سیاسی تاریخ شاید ہے کہ حکومت کا امیدوار تو ہار سکتا ہے ،مگر ریاست کا اُمیدوار کبھی نہیں ہارتا ،یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید نے بھی حکومتی اور ریاستی اُمیدوارکی جیت کی پش گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے مد مقابل صادق سنجرانی کی جیت یقینی نظر آتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہے کہ وطن عزیز میں مروج سیاست کے بغیر اقتدار کی منزل نہیں ملتی، بائیس سال کی ریاضت کے بعد بھی الیکٹ ایبل کا سہارا لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اقتدار وحکمرانی تبدیل کرنے کی شدید خواہش اور عزم بھی ایسی بھول بھلیوں میں اُلجھ جاتی ہے کہ بالآخر پرانی پٹڑی ہی پر گاڑی چلتی ہے،گزشتہ انتخابات ہوں یا چیئرمین سینیٹ الیکشن مروج فار مولہ ہی چلا ہے، کوئی نئی روایت قائم نہیں ہو سکی، اب ایک بار پھرجیت کیلئے ہر حربہ اختیار کرنے اور بائی دابک نہ چلنے کا واضح عندیہ دیا جارہا ہے، دوسری جانب تو ریت و روایت ہی پرانی ہے،

چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں عددی فرق شمار کی اُنگلیوں سے بھی کم ہے ،مساوی تعداد کیساتھ سینیٹ کے اکھاڑے میں چیئرمین کا انتخاب ہونا ہے،ایک جانب سے پراسراریت کیساتھ کام جاری ہے تودوسری جانب شفافیت کے دعویداروں کی جانب سے بھی پٹڑی سے اُترنے کا عندیہ ملے تو نتیجہ سب کے سامنے ویسا ہی آئے گا،جیساکہ سینٹ الیکشن میں چند ارکان کے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے سے آیا تھا،لیکن اس بار اپوزیشن کے سرپر ائز دینے کی بجائے لینے کی باری ہے۔
حکومت کی جانب سے سینٹ الیکشن میں اپوزیشن پر ارکان پارلیمنٹ کی خرید وفروخت کا الزام لگایا جاتا ہے ، حکومتی وزراء کی جانب سے بھی چیئر مین سینٹ الیکشن میں تمام حربے استعمال کرنے کا عندیہ دیا جارہاہے ،پہلے اپوزیشن جیتی ،اس با رحکومت جیت جائے گی ،مگر ہار جمہوریت کی ہو گی ۔ملکی سیاست کا رخ بدلنے کیلئے جب تک ایک جانب سے ایک نعرہ مستانہ بلند کرکے کوئی کچھ بھی کرے، سیدھے راستے سے ہی حصول اقتدار اور حکومت کے حصول کا راستہ اپنایا نہیں جائے گا ، اپنے لئے الگ اور دوسرے کیلئے الگ قانون، اصول، ضابطے اور طور طریقے مقرر کئے جائیں گے، اس طرح سے ملک میںکبھی بھی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی۔تبدیلی کا راستہ راست مستقیم شفاف اور واضح ہوتا ہے

،اس راستے کو جو بھی اختیار کرنا چاہے ،اس کا مقصد حصول اقتدار نہیں ہونا چاہئے، اقتدار حاصل کرنے اور حکومت چلانے کیلئے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں،اگر ایسا ہی کرنا ٹھہر جائے اور ہم بھی وہی کریںجو دوسرے کرتے ہیں، یہ والا فارمولہ کھیل کی شرط ٹھہرے تو پھر اقتدار کی بازی میں کامیابی مل سکتی ہے، مگر ملک میںتبدیلی و شفافیت کبھی نہیں آئے گی۔
اگر وزیر اعظم عمران خان واقعی ملک میں کوئی تبدیلی اور انتخابی عمل میں شفافیت لانا چاہتے ہیں تو چیئر مین سینیٹ کے انتخاب کے مرحلے کی تکمیل کے بعد مثبت سیاست کے اصول طے کرنے کیلئے دو نوں بڑ ی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کے احیاء اور منجملہ ساری چھوٹی بڑی صوبائی و علاقائی تمام جماعتوں کو وسیع ترمیثاق جمہوریت پر قائل کرنے کی سعی کریں ،اس سے جہاںطرز انتخاب و ا لیکشن کمیشن کے کردار کا تعین نو ہوگا،وہیں امریکی طرزانتخاب متعارف کرانے یا جاری عمل کو شکوک و شبہات سے بالاتر بنانے کا عمل کامیابی کا ضامن ہو گا،

اس ملک میں جب تک مقتدرین کے قول فعل میں تزاد رہے گا ،باہمی تنازعات او ر اُلجھائو میں کمی نہیں آسکے گی، اجتماعی عمل و کامل اتفاق کے ذریعے ہی متنازع صورتحال کا خاتمہ ممکن ہے، دوسری کوئی بھی صورت ناکام ہوگی۔حکومت کی جانب سے سنجرانی کی جیت کیلئے ہر حربہ اپنانے کا اعلان کرنے کی بجائے ہر جائز حربہ اپنانے کا فیصلہ کیا جانا چاہئے، تاکہ کسی ایک جانب تو شفافیت کی بنیاد پڑے کہ جس کی بنیاد پر آئندہ کے اصول طے کئے جا سکیں گے،ورنہ سیاست میں بے اصولی سے جیت بھی ہار سے زیادہ شرمندگی کا باعث بنتی رہے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں