منافقت یا دوہرا معیار 199

منافقت یا دوہرا معیار

منافقت یا دوہرا معیار

شازیہ غفور کیانی
جیسا کہ آپ نے بھی سنا پڑھا ہو گا کہ انسان جس ماحول میں رہتا ہے اس ماحول کا اسکی سوچ،رہن،سہن اور زندگی کے ہر پہلو پر گہرا اثر ہوتا ہے یہ بھی پڑھا اور سنا ہو گا اگر انسان مثبت سوچے تو اچھا ہوتا ہے اور اگر منفی سوچے تو برا ہوتا ہے کبھیآپ نے یہ نظریہ اپنایا ہے نہیں تو آج سے ہی فارمولہ پر عمل پیرا ہو جاٸیں لیکن اس سے بھی کیا ہو جاٸے گا جب تک ہم اپنی زندگی سے منفی سوچ والے لوگوں کو نہیں نکالیں گے یہ منفی سوچ والے دوست بنکر ہماری زندگی میں موجود بھی رہتے ہیں اور ہماری ٹانگیں کھنچتے رہتے ہیں اور ہمیں آگے بڑھنے میں ہماری حوصلہ شکنی بھی کرتے رہتے ہیں

ایسوں کو دوست کہنا بھی لفظ دوستی کی توہین لگتا ہے یہ منافق اپنے لیے تو اچھا سوچتے اور کرتے ہیں لیکن ہمارے لیے دل میں بغض رکھتے ہیں اچھا خاصا وقت گزرنے کے بعد جب انکے ارادے سمجھ آتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے لیکن تب انکی مروت میں ہم ان منافق نما دوست کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے سنا تھا دوست وہ ہوتا ہے جو مشکل وقت میں کام آتا ہے لیکن آجکل تو یہ منافق نما دوست مشکل میں تو آپ کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ تھوڑا سنبھل جاتے ہیں لوٹ آتے ہیں ایسے دوستوں کو تو اللہ ہی بہتر سبق دے سکتا ہے جو نا صرف دوستی کی بلکہ انسانیت کی تزلیل کرتے ہیں

اپنے کسی ساتھی کو ترقی کرتے دیکھنا اور اسکے لیے دل ہی دل میں برا سوچنا اور بظاہر اسکے ساتھ ہونا یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے اگر ہم منافقت کو چھوڑ دیں تو ہمارے بہت سے مسلے خود بخود حل ہو سکتے ہیں اور ہمارا معاشعرہ ترقی کر سکتا ہے منافقت سے تب ہی بچا جا سکتا ہے جب ہم دوسروں کے بار ے میں اچھا اور مثبت سوچیں لیکن ہم دوسروں کو نیچا دکھانے کے چکر میں انکی دنیا اور اپنی آخرت خراب کر رہے ہوتے ہیں

یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے اور دوست وہ نہیں جو تصویر میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو دوست وہ ہے جو مشکل وقت میں آپ کے ساتھ کھڑا ہو میں اکثر کہتی اور لکھتی رہتی ہوں دوستی تو ہمارا بنایا ہوا رشتہ ہے جبکہ انسانیت کا رشتہ تو ہماری پیداٸش کے ساتھ مارض وجود میں آ جاتا ہے اگر ہم اس رشتے کے ناطے ایک دوسرے کا خیال اور احساس کریں تو ناصرف انسانیت کا رشتہ اچھے سے نبھا سکتے ہیں بلکہ حقوق العباد بھی ادا ہو جاٸیں گے وہ حقوق جنکے بارے میں ارشاد ہے کہ اللہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا لیکن اپنے بندوں کے نہیں
بندوں کےحقوق کیا ہیں
یہاں پر چیدہ چیدہ زکر کرتے ہیں
سب سے پہلے تو ماں باپ کے حقوق کے بارے میں سوال کیا جاٸے گا اسکے بعد اللہ کی رضا کی خاطر اللہ کے بندوں کا خیال رکھنا اسکی مخلوق کی بھلاٸی کرنا پروڑسیوں اپنے سے بڑوں کے حقوق اپنے سے چھوٹوں کے حقوق لیکن اپنے بندوں کے حقوق نہیں
بندوں کے حقوق تب ہی ادا ہو سکتے ہیں جب منافقت اور دوہرے معیار کو چھوڑیں گے لیکن اگر ہمارے معاشرے میں منافقت اس قدر رچ بس گٸی ہے اسکے بغیر ہمارا گزارا ناممکن لگتا ہے پھر بھی مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس موضی بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا منافقت کیا ہے
میرے خیال میں اپنے مسلمان بہن بھاٸی کے ساتھ بیٹھ کر اسکے بارے میں برا سوچنا اور دل میں بغض رکھنا منافق کا بدترین درجہ ہے کیونکہ ہمارا ہر فعل ہماری سوچ کا تابع ہوتا ہے اگر ہم کسی کے بارے میں اچھا سوچیں گے تو اچھا کام بھی کریں گے لیکن اگر ہم ساتھ بیٹھے دوست کے لیے دل میں بدگمانی رکھیں گے تو اسکا اچھا کیسے سوچیں گے یہ ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار ہے کہ ہمیں کوٸی دوست کام کہے تو ہم اوکے لازمی کرتے ہیں لیکن وہ کام کرتے ہی نہیں اس سے اس کا وقت برباد کرنے کے ساتھ ساتھ اس دوست کی نظروں میں بھی گر جاتے ہیں
حضرت علی ر کا ارشاد ہے کہ
منافق سے بہتر ہے کہ تم کافر ہو جاو کیونکہ جہنم میں کافر دجہ منافق سے بہتر ہے ۔
اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ منافق کو جہنم میں بھی بد ترین سزا ملے گی تو ہم کیسے مسلمان ہیں کہ زیادہ تر زندگی منافقت میں گزار رہیں ہیں اگر ہم سچے دل سے توبہ کر کے اچھے مسلمان بن جاٸیں تو ہمیں دنیا اور آخرت میں کامیابی مل سکتی ہے لیکن ہم آخرت کے بارے میں سوچتے ہی نہیں دنیا میں ایسے مگن ہیں کہ لگتا ہے کبھی موت آٸے گی ہی نہیں لیکن اس فانی دنیا کے چکر میں ابدی زندگی کو بھول بیٹھے ہیں ۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور دنیا کے ساتھ ساتھ ہماری آخرت بھی اچھی کرے۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں