نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 264

یہ رائیگانی کا سفر کہاں تمام ہو گا !

یہ رائیگانی کا سفر کہاں تمام ہو گا !

کالم :صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ایک بار پھر اپوزیشن اتحاد پی ڈیم ایم کو منہ کی کھانا پڑ گئی اور مسلسل دوسری بار اکثریت ہونے کے باوجود اپوزیشن اپنا چیئرمین ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ منتخب کرانے میں ناکام ہو چکی ہے ،بلاول بھٹو زرداری نے تواپنی ہار پر عدالت جانے کا اعلان کر دیا ، جبکہ مولانا فضل الرحمن اپنے ساتھ ہاتھ کرنے والے کو ڈھونڈنے میں لگے ہیں،پی ڈی ایم سربراہ اپنی ہار پر اتنے دل ببرداشتہ ہوئے کہ انہیں اب استعفوں کے بغیر لانگ مارچ بھی فائدہ مند نظر نہیں آرہا ہے،اگر اپوزیشن حکومت کی بات مان لیتی اور اوپن ووٹنگ پر راضی ہو جاتی تو یوں رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑتا،

اس سینٹ الیکشن سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان غیر اعلانیہ طور پر دراڑ پڑ چکی ہے ،اس کا واضح اظہار سینیٹ الیکشن میںنظر آیا، سینٹ الیکشن سے قبل ہی مسلم لیگ( ن) کے اراکین اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین دہائی دیتے رہے کہ انہیں نا معلوم نمبرز سے کال آ رہی ہیںکہ یوسف رضا گیلانی کو ووٹ نہ ڈالا جائے، جبکہ یوسف رضا گیلانی میڈیاپر اقرار کرتے پھر رہے تھے کہ سینیٹ کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے، یہ انتخابات صاف اور شفاف ہو رہے ہیں۔در حقیقت بنیادی طور پر یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ کی نشست پر فتح ہی پیپلز پارٹی اور( ن )لیگ کے درمیان پھوٹ کی وجہ بنی ہے۔ مسلم لیگ (ن )نے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سے قبل ہی دہائی دینا شروع کر دی تھی کہ انکے اراکین کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے ،جب کہ ڈرانے دھمکانے کا کوئی ثبوت اب تک پیش بھی نہیں کیا جا سکا ہے۔

(ن) لیگ کے اندرونی ذرائع کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر جو سات ووٹ ضائع ہوئے ہیں ،(ن) لیگ کے اپنے اراکین کے ہی تھے جو یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب جتوانا ہی نہیں چاہتے تھے۔اسی لئے تو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں مرزا محمد آفریدی کو پیپلز پارٹی کے اراکین نے ووٹ ڈالے، تا کہ مولانا عبدالغفور حیدری کو ہرایا جا سکے، پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں مشرق و مغرب کا ملاپ ہیں جو صرف وقتی طور پر ایک ساتھ ہوئی ہیں ،تاکہ تحریک انصاف کی حکومت کو گرایا جا سکے۔پی ڈی ایم کا ایجنڈا ہی حکومت گرانا اور خود کو بچانا ہے، اس وقت اپوزیشن صرف تنقید برائے تنقید کی عملی تصویر بن چکی ہے ،اس کے پاس نہ تو کوئی وژن اور نہ ہی کوئی

ایسا منصوبہ ہے کہ جس کو پیش کر کے حکومت کی رہنمائی کر سکے ،اپوزیشن کی دونوںبڑی جماعتیں طویل عرصہ اقتدار میں رہی ہیں ،انہوں نے اپنے دور اقتدار میں عوام کیلئے کچھ کیا نہ اب کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں،یہ عوام سے مخلص نہ ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں ، پی ڈی ایم وقتی اتحاد شکل میںیک جان دو قالب بنی ہوئی ہے جو بہت جلد یا بدیرایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالتی دکھائی دیے گی۔ سینیٹ الیکشن میں اختلاف رائے کی ایک جھلک دی ہے کہ جس میں( ن) لیگی اراکین نے یوسف رضا گیلانی کو جان بوجھ کر ووٹ نہیں دیئے، تا کہ پیپلز پارٹی کا امیدوار نہ جیت سکے ،جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی جوابا یہی حکمت عملی اپنائی اور مولانا عبدالغفور کو ووٹ ڈالنے کی بجائے حکومتی امیدوار کے حق میں ووٹ ڈال کر بدلہ چکا دیا ہے۔
پی ڈی ایم سینیٹ الیکشن میں جہاں عوام کے سامنے بے نقاب ہوئی،وہیں ایک دوسرے کے سامنے بھی غیر فطری اتحاد کی قلی کھل گئی ہے، وفاقی وزیر اطلاعاتشبلی فرازکا کہنا بجا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے سے خیر خواہ نہیں، پیپلزپارٹی نے مولانا کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ حکومت کیخلاف مانگ مارچ کے معاملے پر بھی ان کی دال نہیں گلنے والی،دوسری جانب( ن) لیگ کے قائد میاں نوازشریف لندن میں بیٹھ کر سیکورٹی اداروں پر بے سروپا الزامات لگا رہے
ہیں کہ مریم نواز کو براہ راست دھمکیاں دی جارہی ہیں، اگر مریم نواز کو واقعی دھمکیاں مل رہی ہیں تو پھر باپ کو فوری طور پر اپنی بیٹی کی حفاظ ت کیلئے پاکستان آجاناچاہئے ،تا کہ دنیا کو پتا چلے کہ مریم نواز اکیلی نہیں ہیں،لیکن یہاںباہر بیٹھ کر گھنائونے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور اداروں کو اپنی گندی سیاست میں رگیدنے کی مذموم کوشش کی جا رہی ہے جس کا خمیازہ (ن) لیگ کو آنے والے دنوں میں ضرور بھگتنا پڑے سکتا ہے ،سیاسی قیادت ہر وقت الزام تراشی کے جس عمل میں ڈوب چکے ہیں، اس سے باہر کب نکلیں گے، ہر الزام اسٹیبلشمنٹ کو دینے کی بجائے سیاسی قوتوں کو کچھ احتساب اپنا بھی کرنا چاہئے،اگر مسلم لیگ( ن) کی قیادت کا موقف تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سارا کیا دھرا اسٹیبلشمنٹ کا ہے تو پھر انہیں اپنے گریباں میں جھانکنے اور اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ رائیگانی کا سفر بالآخر کہاں تمام ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں