نیب سے نہیں، گرفتاری سے ڈرلگتا ہے ! 216

سیاست توہین آمیز رویے کانام نہیں !

سیاست توہین آمیز رویے کانام نہیں !

تحریر:شاہد ندیم احمد
ہماری سیاست سے نفاست، شرافت اور شائستگی کے عناصر برق رفتاری سے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ان کی جگہ بہتان بازی، دشنام طرازی، ہاتھا پائی نے لے لی ہے، اس کے مظاہر سینیٹ الیکشن کے دوران سے لے کر لاہور ہائیکورٹ کے احاطے تک دکھائی دیے رہے ہیں، گزشتہ روزاپوزیشن کے کچھ کارکنوں کی جانب سے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گِل پر انڈے اور سیاہی پھینکی گئی،

یہ حرکت ہماری سیاست میں سرایت کر جانے والی نفرت اور عدم برداشت کی عکاس ہے ،اس کا درس عام کارکن اپنے پارٹی رہنمائوں کے تند و تلخ بیانات سے لیتے ہیں، مشرف دور میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا تھا کہ جسے آمریت سے نفرت کا نام دیا گیا تو مذکورہ واقعہ کو کیا جمہوریت بیزاری سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟ سیاست میں عام ہوتا بدچلن سیاست ہر گز نہیں ،سیاست رواداری ،برداشت کانام ہے ،مگر ہماری سیاسی قیادت نے کبھی اپنے کارکنوں کو نظریاتی واخلاقی قواعدو ضوابط سے روشناس کرانے کی کوشش نہیں کی ، الٹا اپنے بیانات و تقاریروں سے کارکنوں میں ایسے پھر تشدد رویئے کو ہوا دی ہے کہ جو نہ صرف سیاست، بلکہ معاشرے اور ملک کے لئے بھی مضر ثابت ہو سکتا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کی روش رہی ہے کہ اپنے مزموم مقاصد کے حصول کیلئے کارکنان کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں ،مریم نواز نے سینٹ الیکشن کے دوران ہونے والے سیاسی کارکنان کے تصادم پر کہا تھا کہ ایک تھپر کا جواب دس تھپڑوں اور ایک گالی کا جواب دس گالیوں سے دیں گے ،شہباز گل پرگندے انڈے، سیاہی اور جوتے پھینکنے والے کارکنوں کے پیچھے مریم نواز کا انتقامی بیان کار فرما ہے ،تاہم اس واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، مسلم لیگ (ن) جب حکومت میں تھیںتو اس وقت ان کے رہنمائوں پر ایسے حملے ہوا کرتے تھے، تب وہ کہتے تھے

کہ سب کچھ پی ٹی آئی کروا رہی ہے، آج پی ٹی آئی کو ان حالات کا سامنا ہے تو ان کا الزام مخالف سیاسی جماعتوں پر ہے، اگر پی ٹی آئی نے ایساکیاتو ویسا ہی بھر رہے ہیں اور اگر آج (ن )لیگ والے ایسی حرکتیں کر رہے ہیں تو کیوں بھول جاتے ہیں کہ مستقبل میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ وقت کا پہیہ تو گھومتا ہی رہتا ہے۔سیاست میں وقت تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی ہے ،تاہم افسوس ناک امر ہے کہ سیاسی قیادت نے بدلتے وقت سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے

یہ کل بھی اپنے مفاد کے حصول کیلئے سیاست کررہے تھے ،آج بھی ان کی ترجیح عوام کی بجائے ذاتیات ہے،ہمارے سیاسی رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں کے پاس عوام اور سیاسی مخالفین کو دینے کے لیے صرف انڈے، جوتے اور سیاہی ہی بچی ہے، اگر یہی کچھ بچا ہے اور یہی کچھ دیتے رہنا ہے تو پھر اس نظام کا اللہ ہی حافظ ہے، کیونکہ جس معاشرے میں دوسروں کو دینے کے لیے صرف گالیاں، جوتے رہ جائیں، وہاںاچھے خوشحال مستقبل کے خواب دیکھنا ، تبدیلی کے نعرے لگاناخود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، ایسے معاشروں میں ترقی مشکل ہوتی جہاں دست گریباں کی ترغیب دی جاتی ہے، وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں، جہاں لوگوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے تعمیر وترقی، اچھے خیالات ،مہذب رویئے اور حق وسچ کی تبلیغ دی جاتی ہے، جہاں سر عام جوتے، انڈے اور منہ پر سیاہی پھینکی جائے گی اس معاشرے کی پستی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارا معاشرہ سیاسی واخلاقی پستی کا شکار ہے، گذشتہ چند برسوں میں ہونے والے ایسے تمام سیاسی بد تہذیبی کے واقعات ہماری سیاسی و اخلاقی پستی کا پتہ دیتے ہیں، بدقسمتی سے یہ سلسلہ رکنے کا نام بھی نہیں لے رہا ہے ،کیونکہ ہمارے سیا ست دانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، وہ صرف جھوٹ، ظلم، ناانصافی، لوٹ مار، کرپشن، شدت پسندی، عدم برداشت، نفرت اور الزامات ہی دے سکتے ہیں اور یہ تھوک کے حساب سے دے رہے ہیں، کاش کہ اگر اپوزیشن نے غلط روش اختیار کررکھی ہے تو حکمرانوں کے پاس اتنا وقت بچے کہ وہی سوچ لیں کہ اس شدت پسندی اور نفرت کو کیسے ختم کرنا ہے، عدم برداشت کو برداشت اور بے رحمی کو رحم میں کیسے بدلنا ہے،حکومت اور اپوزیشن جب تک ان تعمیری خطوط پر سوچنا شروع نہیں کریں گے، پاکستان اور پاکستانی عوام کے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکیں گے۔
وقت آگیا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنمااور کارکنان اخلاقیات کا جنازہ نکالنے کے بجائے منفی سیاست کو ترک کریں، ورنہ جوتا تو ہر سیاسی کارکن پہنتا ہے اور سیاہی ہاتھ میں رکھ سکتا ہے ، خدانخواستہ یہ رواج عام ہو تاگیا تو کوئی بھی سیاسی لیڈر جوتے اورسیاہی سے اپنے چہرے کو بچا نہیں پائے گا ، سیاست توہین آمیز رویے کانام نہیں،سیاست میں پسند نہ پسندیدگی کے اظہار کا جمہوری طریقہ موجود ہے ، اگر سیاسی جماعتوں کے کارکنان یا عوام کسی پارٹی یا کسی پارٹی کے رہنماء سے نفرت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو کسی بھی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کرنے کی بجائے جمہوری رویہ اپنائیں اور سیاہی کا غلط استعمال کرنے کے بجائے درست استعمال کرتے ہوئے ووٹ کے ذریعے غلط لوگوں کو مسترد کر دیں،یہ سیاست میں جمہوری طریقے سے بہترین انتقام بھی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں