نظریہ پاکستان اور ہم 210

نظریہ پاکستان اور ہم

نظریہ پاکستان اور ہم

صبیحہ خاتون شکرگڑھ
ہر کام کا آغاز ایک خیال۔ایک تصور سے ہوتاہے جو کام کرنے والے کے ذہین میں موجود ہوتا ہے۔اسی خیال کو اس کام کا نظریہ کہتے ہیں۔اس نظریے کے مطابق کام کو مکمل کرنے کے طریقے کو اس کا منصوبہ کہتے ہیں۔اسی طرح پاکستان کا ایک نظریہ ہے یعنی وہ تصور جو برصغیر کے مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھرااور ان میں یہ لگن پیدا کی کہ وہ پاکستان کے قیام کے لیے ہر ممکن کوشش کریں لیکن ہمارے ذہنوں میں یہ خیال یونہی ابھرا۔اس کا ایک سبب نہیں بلکہ بہت سے اسباب تھے۔اب رہا یہ سوال کہ یہ اسباب کیاتھیتو ان کا جواب نظریہ پاکستان کی صورت میں نکلتاہے۔

یہ نظریہ راتوں رات کسی کے ذہین میں نہیں آیااور نہ ہی اسے کسی اور ملک سے درآمد ہی کیاگیاتھابلکہ یہ پورے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ سے ابھرااور برطانوی دور میں حاصل ہونے والے تجربات کانتیجہ ہے۔جس کی بنا پر باشعور مسلمان رہنماؤں نے اس بات کا یقین کرلیاکہ برطانوی دور کے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ہندوؤں سے بالکل جدا حثیت رکھتے ہیں۔مسلمان رہنماؤں نیبڑی پرخلوص کوششیں کیں کہ ہندو مسلمانوں کو اپنا ہم وطن گردانیں اور زندگی کی ہر سطح پران میں باہمی تعاون اور متبادل احترام کے جذبات برقرار رہیں۔لیکن ہندوؤں نے ذہنی اور عملی طور اس بات کو ماننے سے انکار کردیا کیونکہ اس کے دل میں یہ بات سماچکی تھی کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے حکومت کا حق رکھتے ہیں

اور مسلمان اقلیت میں ہونے کی وجہ سے ان کی رعایابن کر رہیں گے۔۔اس لیے جب بھی کوئی موقع ایسا آیا کہ مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچ سکیتو ہندوؤں نے اس کی بھرپور مخالفت کی۔جب قائداعظم نے کانگریس اور ہندوؤں کا رویہ دیکھا تو وہ بھی اس بات کے قائل ہوگئے کہ برصغیر کی جغرافیائی حدود میں رہنے والے سب کے سب ایک ہی قوم نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان خاص طور دو الگ الگ قومیں ہیں جن کا صرف مذہب ہی جدا نہیں بلکہ ان کی سوچ کا انداز۔ان کا رہن سہن ان کے معاشرتی آداب۔ان کی ثقافت۔ان کا ماضی ان کی تاریخ۔ان کے قومی ہیرو غرضیکہ ہرچیز جدا ہے

اور ان دونوں کو کسی بھی طور پر ایک قوم نہیں کہا جاسکتا۔ اسی بات کو دوسرے الفاظ میں دوقومی نظریہ کہاجاتاہے۔اسی دوقومی نظریے کے تحت مسلم لیگ نے یہ مطالبہ کیا کہ جہاں ہندوؤں کی اکثریت ہو وہاں ہندوؤں کی حکومت ہو۔
مسلمانوں کی نمایاں اکثریت قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوگء اور آخرکار 14اگست 1947۶ کودنیا کے نقشے پرایک آزاد اسلامی ریاست پاکستان کے نام سے معرض وجود میں آگئی۔اب اس دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے طور پر قائم رکھنا ہماری مخلصانہ کوشش کامرہون منت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں