’’اپوزیشن اتحاد دفن شد‘‘ 233

’’اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا‘‘

’’اپوزیشن اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا‘‘

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون نمبر: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100
سینٹ، چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین سینٹ کے الیکشن کے بعد ملک میں سیاسی گرما گرمی عروج پر تھی، حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہے تھے، حزب اختلاف کی طرف سے سینٹ الیکشن میں جانبداری کا الزام لگا کر الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران کے استعفی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ حزب اقتدار نے بھی یہی نعرہ لگا دیا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے ہوئے سربراہ اور ممبران کے استعفے کا مطالبہ کر دیا، جو سیاسی حلقوں میں زیر بحث تھا کہ اچانک پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد سیاسی منظر بدل گیا اور اپوزیشن اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں دوریاں بڑھ گئیں، جو اس نہج پر پہنچ چکی ہیں کہ شاید اب دونوں جماعتیں جلد ایک دوسرے کے قریب نہ آ پائیں اور دونوں جماعتوں کو پی ٹی آئی کی حکومت کیخلاف احتجاج (اپوزیشن کا کردار) بھی الگ الگ کرنا پڑے،

چونکہ اپوزیشن اتحاد کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا موقف ہے کہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کے استعفوں کے بغیر لانگ مارچ کا کوئی فائدہ نہیں اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت مولانا فضل الرحمان کے اس بیانیہ پر کچھ کچھ متفق دکھائی دیتی ہے، لیکن پی ڈی ایم کے اجلاس سے پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کے مختصر اظہار خیال نے مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز شریف کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے جو جلد کپتان کی حکومت گرانے کا خیال ذہن میں لئے ہوئے ہیں، چونکہ آصف علی زرداری نے وہ بات کہہ دی جس بارے اپوزیشن ان سے توقع نہیں رکھتی تھی،

آصف علی زرداری نے لانگ مارچ اور ارکان اسمبلی کے استعفوں کو میاں نواز شریف کی واپسی سے مشروط کرتے ہوئے برملا کہا کہ اگر لانگ مارچ کرنا اور ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے استعفے دینے ہیں تو وہ تیار ہیں، لیکن لانگ مارچ سے قبل میاں نواز شریف وطن واپس آ کر احتجاجی تحریک میں شامل ہوں، آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ن) کو ایک صوبے کی جماعت بھی قرار دیا اور کہا کہ کیونکہ اگر جیل جانا پڑے تو نواز شریف بھی دیگر قیادت کے ساتھ ہوں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم (پیپلز پارٹی) احتجاج کرتے رہیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں اور مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف بیرون ملک آرام سے بیٹھے رہیں، اگر مشقت کاٹنی ہے تو نواز شریف کو بھی وطن واپس آ کر ہمارے ساتھ شامل ہونا پڑے گا،

ذرائع کہتے ہیں کہ آصف علی زرداری کے اس بیان کے بعد پی ڈی ایم کے اجلاس میں سکتہ طاری ہو گیا اور جواب میں مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز شریف نے آصف علی زرداری کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے آصف علی زرداری پر سول اٹھایا کہ وہ ملک میں ہوتے ہوئے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اپوزیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہیں اور اسی طرح میاں نواز شریف بھی ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہیں، وطن واپسی کی صورت میں میاں نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے کیا آصف علی زرداری میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر جان کی حفاظت کی گارنٹی دے سکتے ہیں،

جبکہ آصف علی زرداری کے میاں نواز شریف بارے خیالات مناسب نہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا فیصلہ ہے کہ میاں نواز شریف صحت یابی تک وطن واپس نہیں آئیں گے، سو اس طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین کے بیانیہ نے خطرے کا الارم بجا دیا ہے کہ پی ڈی ایم انتشار کا شکار ہو گئی ہے اور اس کا شیرازہ بکھرچکا ہے، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز شریف نے آصف علی زرداری اور پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان کو یہ بھی احسان جتلایا ہے کہ حالیہ سینٹ الیکشن میں وفاق کی سینٹ نشست پر مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو 83 ووٹ دیئے تو وہ کامیاب ہوئے جبکہ چیئر مین و ڈپٹی چیئر مین سینٹ کے الیکشن میں پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کے

امیدواروں کو (ن) لیگ کے 17 سینیٹرز نے ووٹ دیئے۔ سو دونوں بڑی جماعتوں کے بیانیہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان میں مستقبل قریب میں ہم آہنگی کا کوئی امکان نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم سربراہ کو مایوسی کی حالت میں لانگ مارچ ملتوی کرنا پڑا، جس کی وضاحت پی ڈی ایم سربراہ نے کچھ یوں کی ہے کہ اپوزیشن کی 9 جماعتیں ارکان اسمبلی کے استعفوں پر متفق ہیں جبکہ آصف علی زرداری نے ارکان اسمبلیز کے استعفوں کیلئے اپنے پارٹی رہنمائوں سے مشاورت کیلئے ٹائم مانگا ہے۔
شاید مولانا فضل الرحمان اعلان کرتے وقت یہ بھول گئے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ استعفوں کی سیاست کے قائل نہیں، یہی موقف ان کی پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کا ہے کہ وہ ایوان میں رہ کر پی ٹی آئی کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دیں گے کیونکہ پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی استعفے نہیں دینا چاہتے، جس کی وہ پہلے ہی مخالفت کر چکے ہیں، مولانا فضل الرحمان شاید یہ بھی بھول چکے ہیں کہ ماضی میں کچھ عرصہ قبل جب بطور پی ڈی ایم سربراہ موصوف نے ضمنی و سینٹ الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا تو اس وقت بھی سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے

ان کے بیانیہ کو رد کر کے ضمنی اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز شریف نے پیپلز پارٹی کے بیانیہ کی فوری تقلید کر دی تھی، پیپلز پارٹی ایک صوبہ میں حکومت رکھتی ہے اور سندھ میں وہ اقتدار کے مزے لے رہی ہے تو اب پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی استعفے کیوں دیں گے؟ یہ بھی بات واضح ہے، ایسا کرنے کی صورت میں سندھ کی حکومت بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی، شاید مولانا بھول گئے ہیں

کہ سندھ حکومت کی بناء پر پیپلز پارٹی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے کیونکہ دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی ویسے ہی روبہ زوال ہے۔ اسی بناء پر پیپلز پارٹی کی قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ایوان میں رہ کر حکومت بالخصوص عمران خان سے جنگ لڑنا چاہتی ہے تو مسلم لیگ (ن) بھی کسی صورت ایوان سے باہر نہیں رہنا چاہے گی کیونکہ ماضی میں بھی مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے پیپلز پارٹی کے ہر عمل کی پیروی کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن شاید یہاں یہ بھی بھول چکے ہیں کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی دو بڑی جماعتیں ہیں جن کا اپوزیشن اتحاد میں وزن ہے، اگر یہ دونوں جماعتیں نکل گئیں تو پھر پی ڈی ایم اتحاد میں ٹانگے کی سواریاں بھی باقی نہیں رہیں گی۔
سو بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی سینٹ الیکشن میں الیکشن کمیشن کے کردار کی تو ملکی سیاسی تاریخ میں ہر بار اپوزیشن کی طرف سے الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزام لگا کر الیکشن کمیشن آف پاکستان سے استعفوں کا مطالبہ کیا جاتا رہا، یہ ملکی سیاست میں پہلی بار ہوا ہے کہ حذب اقتدار نے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ حالات واضح بتا رہے ہیں کہ چیئر مین سینٹ الیکشن میں اگر پریزائیڈنگ آفیسر 7 ووٹ کینسل نہ کرتا تو صادق سنجرانی کسی صورت چیئر مین سینٹ نہ بنتے اور کپتان کی خواہشیں چکنا چور ہو جاتی، پی ٹی آئی کا نامزد کردہ چیئر مین سینٹ بننا حکومت چلانے کیلئے بھی ضروری تھا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے

کہ حکومت اور اپوزیشن واقعی موجودہ الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران کو گھر بھجوانا چاہتی ہیں تو اس کیلئے آئینی فورم سپریم جوڈیشل کونسل موجود ہے حکومت یا اپوزیشن اپنی درخواست کے ساتھ شواہد اور ثبوت سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش کریں جس کی روشنی میں فیصلہ ہو سکے گا؟ ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آنے کو ہے جس کی پیش بندی کیلئے آئینی ادارہ کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے۔ تا کہ اپنے (حکومت) کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں عدالت سے ریلیف لیا جا سکے اور ان کے پاس عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرنے کا جواز ہو۔

یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی اپنی آزاد اور خود مختار حیثیت ثابت کرتے ہوئے ادارہ پر تنقید کرنے والے حکومت اور اپوزیشن کے سیاستدانوں کو نوٹس جاری کر کے طلب کرے، اگر تنقید کرنے والے سیاستدان مناسب جواب نہ دے سکیں تو ادارہ کے پاس موجود توہین عدالت کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے ایسے سیاستدانوں کو نا اہل قرار دے دیا جائے۔ مگر ایسا نہ حکومت کرے گی اور نہ اپوزیشن، نہ ہی الیکشن کمیشن؟ کیونکہ ملک میں تو ہر کوئی ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا رہ کر وقت گزار رہا ہے، جس سے بالآخر نقصان غریب عوام کا ہو رہا ہے اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا، جب تک اداروں میں ایک دوسرے سے جواب طلب کرنے کی جرات اور حوصلہ پیدا نہیں ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں