ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت 156

ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت

ماہِ شعبان اور شب برا ئـ ت

متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ تعالیٰ ہمارے رجب اور شعبان میں برکتیں نصیب فرمائے اور ہمیں رمضان تک پہنچائے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا مانگا کرتے تھے:اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں عطا فرما اورہمیں ماہِ رمضان تک پہنچا۔(المعجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث:3939)
فائدہ: حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ ماہِ شعبان کی اپنی برکتیں ہیں۔
ماہِ شعبان کی فضیلت:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخوں کے حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کے چاند (تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا حساب لگانا آسان ہو سکے۔(جامع الترمذی،رقم الحدیث:687)
یعنی رمضان کے صحیح حساب کے لیے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کوخصوصیت سے یاد رکھا جائے۔ جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔
ماہِ شعبان کے روزے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، بلکہ رمضان کے بعدماہ شعبان میں روزوں کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتے تو ہم سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ سمجھتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کورمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔(صحیح البخاری،رقم الحدیث:1969)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو(غیر رمضان میں)شعبان کے مہینہ سے زیادہ کسی اورمہینہ میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔(جامع الترمذی،رقم الحدیث:736)
یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر’’کل‘‘ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔
نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنے کی تحقیق:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے توروزہ نہ رکھا کرو۔(جامع الترمذی، رقم الحدیث:738)
اس روایت کے پیش نظر فقہاء ِکرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے، البتہ چند صورتوں کومستثنی فرمایا ہے کہ ان میں پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔وہ صورتیں یہ ہیں:
1: کسی کے ذمہ قضائروزے ہوں یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں ان ایام میں رکھنا چاہتا ہو۔
2: ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزے رکھتا چلاا ٓ رہا ہو۔
3: ایسا شخص کہ جس کی عادت یہ ہے کہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے، اب وہ دن یا تاریخ شعبان کے آخری د نوں میں آ رہی ہے تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو کہ جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔(ملخص: درس ِترمذی: ج2ص579)
نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیاہے؟ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہوگااس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جائے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہے کہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے۔‘‘(خُطباتِ حکیم الامت: ج7 ص391)
شبِ براء ت:
ماہ شعبان کی پندرھویں رات بہت فضیلت والی رات ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور اسلاف امت بھی اس کی فضیلت کے قائل چلے آ رہے ہیں۔ اس کو ’’شب براء ت‘‘ کہتے ہیں، اس لیے کہ اس رات لا تعداد انسان رحمت باری تعالیٰ سے جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔شب براء ت کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انہیں من گھڑت قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شماربدعات، رسومات اور خود ساختہ امور کے مرتکب ہیں، عبادت کے نام پر ایسے منکرات سر انجام دیتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔اس بارے میں معتدل نظریہ یہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ محض استحباب کا ہے، سرے سے اس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں اور اس میں کیے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں۔یہ شعبان کی 14 تاریخ کے سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور15 تاریخ کی صبح صادق تک رہتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں شب ہو تو اس رات میں قیام کرو اوراس دن روزہ رکھو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے وقت سے آسمان دنیا پراعلان فرماتے ہیں: کیا کوئی ہے مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی ہے رزق کو تلاش کرنے والا کہ میں اسے رزق عطا کروں؟ کیا کوئی مصیبت کا مار اہے کہ میں اس کی مصیبت دور کروں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ حتی کہ صبح صادق کا وقت ہوجاتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)
شب براء ت میں کیا کریں؟
اس رات عشاء اور فجر کی نمازیں وقت پر باجماعت ادا کریں۔اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق نفل نمازیں خاص کر نماز تہجد ادا کریں،انفرادی طور پر صلاۃ التسبیح پڑھیں،قرآن پاک کی تلاوت کریں، کثرت سے اللہ کا ذکرکریں، اللہ تعالیٰ سے خوب دعائیں مانگیں، دنیا و آخرت کی بھلائیاں مانگیں،خاص کر اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں،زندگی میں کبھی اس رات قبرستان جائیں، اپنے اور میت کے لیے دعائے مغفرت کریں۔
مغفرت سے محروم رہنے والے چند بدنصیب:
اللہ تعالیٰ اس رات کو تمام مخلوق کی مغفرت کا اعلان فرماتے ہیں سوائے چند بد نصیب لوگوں کے۔ وہ یہ ہیں:
مشرک:
اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات خاصہ میں کسی مخلوق کو شریک کرنے والا، صفات خاصہ سے مراد وہ صفات ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں مثلاً: بغیر اسباب کے محتاج ہونے کے زندگی اور موت دینا، رزق دینا، اولاد دینا، عزت و ذلت دینا، بگڑی بنانا، مشکلات کو حل فرمانا وغیرہ۔
قاتل:
کسی کو ناحق قتل کرنے والا۔ اگر کوئی شخص غلبہ اسلام کے لیے شرپسند دشمنانِ اسلام کو قتل کرتا ہے یا کسی ایسے انسان کو قتل کرے جس کاقتل کرنا شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہو تو ایسے اشخاص اس وعید میں شامل نہیں ہیں۔ کیونکہ ایسے امور میں وہ شرعاً قاتل شمار نہیں ہوتے۔
زانی:
وہ شخص جو اسلام کے مقرر کردہ جائز طریقے سے ہٹ کر جنسی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے، وہ زانی کہلاتا ہے۔ زنا کا اصل مفہوم یہ ہے مرد و عورت بغیر نکاح کے آپس میں جنسی ملاپ کریں۔ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ زنا اور لواطت دونوں کے لیے وعید ہے یعنی کوئی مردکسی عورت کے ساتھ، یا کوئی مرد کسی اور مرد کے ساتھ، یا کوئی عورت کسی اور عورت کے ساتھ جنسی ملاپ کرتے ہیں تو یہ سب عرف میں زانی شمار ہوتے ہیں۔
شرابی:
وہ شخص جو شراب پیتا ہے، شراب پینا حرام ہے، خواہ اس سے کسی کو نشہ چڑھے یا نہ چڑھے، کم مقدار میں پیے یا زیادہ، خوشی کے موقع پر پیے یا پریشانیوں کو کم کرنے کا بہانہ بنا کر، ہر حال میں شراب ناجائز اور حرام ہے۔
فائدہ: شراب کی طرح دیگر نشہ آور چیزیں مثلا ً: بھنگ، چرس، افیون وغیرہ بھی ناجائز اور حرام ہیں۔
متکبر:
وہ شخص جو حق بات کو ضد و عناد کی وجہ سے قبول نہ کرے اور غلط نظریات پر جما رہے، اپنے سے کم حیثیت لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھے۔ غرور، گھمنڈ، تعلی اور انانیت کی وجہ سے اس کی گردن اکڑی رہتی ہو۔ دوسروں کو کمتر اور خود کو برتر سمجھنے والا شخص متکبر کہلاتا ہے۔
والدین کا نافرمان:
اس بابرکت رات میں والدین کا نافرمان بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔ والدین کی نافرمانی کو ایک حدیث پاک میں شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے۔
دل میں بغض رکھنے والا:
وہ انسان جو اپنے دل میں اپنے کسی دوسرے مسلمان کا برا سوچے، دل میں محبت کی بجائے نفرت پالے، اس کے لیے پیار کے جذبات کے بجائے دشمنی رکھے، اسے راحت دینے کے بجائے تکلیف دینے کے منصوبے بنائے، عزت دینے کے بجائے رسوا کرنے کی جستجو میں لگا رہے، اسے خوشیاں دینے کے بجائے پریشانیوں میں مبتلا رکھے وہ شخص کینہ پرور کہلاتا ہے۔ شب برات میں ایسا شخص بھی اللہ کی رحمت سے محروم رہ جاتا ہے۔
قطع رحمی کرنے والا:
وہ انسان جو رشتوں کو جوڑنے کے بجائے توڑتا ہے، دنیاوی معاملات کی وجہ سے بول چال ختم کرنے والا، رشتہ ناتیختم کرنے والا، خوشیوں اور غمیوں میں آپس میں الگ ہونے والا،قریبی رشتہ داروں، بہن بھائیوں، عزیز و اقارب سے اپنے تعلقات ختم کرنے والا قاطع الرحم کہلاتا ہے۔ یہ بھی اس مقدس رات میں اللہ کی بے پناہ رحمت سے کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔
شب براء ت کی چند بدعات و خرافات:
1. غسل کو باعث فضیلت اور ضروری سمجھنا
2. ساری رات جاگنے کو ضروری تصور کرنا
3. چند عبادات کو مخصوص کرنا مثلاً: صلاۃ الفیہ(ہزاری نماز)
4. انفرادی عبادات کو اجتماعی شکل میں تبدیل کرنا جیسے صلوٰۃ التسبیح وغیرہ
5. مرد وں اور عورتوں کا مخلوط(دینی )اجتماع کرنا
6. حلوے مانڈے ضرور پکانا
7. آتش بازی اور چراغاں کرنا
8. بیوہ خواتین کا اپنے مردہ خاوندوں کے لیے بن سنور کر بیٹھنا
9. مردوں کی ارواح کے آرام کے لیے گھروں میں بستر لگانا
10. قبرستان جانے کو ضروری سمجھنا
11. ایک دوسرے کو مبارکباد دینا
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں