مشکل فیصلے آسان نہیں ہوتے ! 166

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے آثار !

پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے آثار !

تحریر؛شاہد ندیم احمد
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے پاکستان کے عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے، یوم پاکستان کے موقع پر وزیراعظم عمران خان کے نام بھجوائے گئے اپنے تہنیتی مراسلہ میں مودی نے کہا کہ یوم پاکستان پر پاکستانی عوام کو مبارکباد دیتے ہیں اور انکے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان بھی بھارتی عوام کے لیے ایسی ہی نیک خواہشات رکھتا ہے، جہاں تک وزیر اعظم مودی کے اس نکتے کا تعلق ہے کہ اس اعتماد کے لیے تشدد اور عداوت سے پاک ماحول ناگزیر ہے ،پاکستان کو اس سے بھی کوئی اختلاف نہیں، پاکستان کی جانب سے کبھی یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کی گئی کہ برصغیر کے ممالک کو باہمی خوشگوار تعلقات کے لیے عداوت‘ دشمنی اور تشدد سے پاک ہونا چاہیے،تاہم اگر بھارت واقعی تعلقات بہتر بنانے میں سنجیدہ ہے تو پہلا قدم اٹھائے اور ان حل طلب مسائل میں پیش رفت کرے جو سات دہائیوں سے تعطل کا شکار ہیں۔
یہ امرواضح ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازع تو جموں و کشمیر ہے، لیکن کئی اورمعاملات بھی تصفیہ طلب ہیں جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے معاملے میں دونوں ملکوں کے درمیان تین بڑی اور کئی چھوٹے پیمانے کی جنگیں لڑی جا چکی ہیں،مسئلہ کشمیر کبھی نہ سرد ہونے والا آتش فشاں ہے، اسے ٹھنڈا کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق اس کا حل نکالا جائے جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے سات عشروں سے لٹکا ہوا ہے، اس بین الاقوامی مسئلے اور اس خطے کے غیر معمولی انسانی المیے کو پھلانگ کر گزرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں،اگر نریندر مودی یہ سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر ’’تشدد اور عداوت سے پاک ماحول‘‘ پیدا ہو سکتا ہے تو وہ حقائق کو جھٹلاتے ہیں یا انہیں ماننے سے قصداً انکاری ہیں،بھارتی قیادت انصاف سے کام لے تو اسے یہ سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئے گی کہ مسئلہ کشمیر صرف پاکستان اور بھارت کے لیے ہی نہیں، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے لیے تنائوبے اعتمادی اور دوریوں کا سبب ہے۔
پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کی قریب پونے دو ارب نفوس پر مشتمل آبادی کو اس وقت اور مستقبل میں پائیدار ترقی اور استحکام کے لیے باہمی خوشگوار تعلقات کی اشد ضرورت ہے، اگر بھارت اپنی ہٹ دھرمی اور مظلوم کشمیریوں پر جابرانہ تسلط قائم رکھنے کی ضد سے باز آ جائے اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ میں مزاحم نہ ہو تو پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش اپنے وسائل اور تعلقات کو بہترین صورت میں بروئے کار لا کر اپنے عوام کے مستقبل کو تابناک بنا سکتے ہیں۔ فی الحقیقت یہ انیشی ایٹو سارک کے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ یوں وسطی ایشیا کے میدانوں سے بحر ہند کے پانیوں تک ترقی اور استحکام کا وہ سویرا نمودار ہو گا جو اس خطے کے با صلاحیت مگر وسائل سے محروم انسانوں کو ان کی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقع فراہم کر سکتا ہے۔ نریندر مودی اگر پاکستان کے عوام سے خوشگوار تعلقات کی بات کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ تشدد اور عداوت کے ماحول سے پاک ہوں تو انہیں مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ سے ہو کر آنا چاہیے۔
بھارت کی جانب سے یوم پاکستان کے موقع پر پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ نیک خواہشات کا اظہار کیا جارہا ہے اور ممکنہ باہمی تعاون کی سوچ کے دروازے کھولے جا رہے ہیں تو اسے انسانیت کی بقاء کی آزمائش میں مثبت پیش رفت قرار دیا جاسکتا ہے،پاکستان کی سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے پہلے ہی ماضی کو بھلا کر بھارت کے ساتھ
سازگار تعلقات کیلئے پیشرفت کا عندیہ دیا جا چکا ہے اور اس حوالے سے دوطرفہ ڈائیلاگ کے دروازے کھولنے کی بات کی گئی ہے، تاہم اس کیلئے دوطرفہ تنازعات بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت کی جانب سے پیش رفت ہونا ضروری ہے، کیونکہ اسکے بغیر پاکستان بھارت سازگار ماحول استوار ہونا ممکن نہیں،پاکستان کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی موقف سے دستبردار ہو سکتا ہے نہ کشمیریوں کا گزشتہ سات دہائیوں سے جاری آزادی کا سفر کھوٹا ہونے دے سکتا ہے۔
اس تناظر میں بھارتی وزیراعظم کی پاکستان کے عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی خواہش اسی صورت قابل عمل ہوگی کہ جب بھارت پاکستان کے ساتھ باہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کشمیر‘ پانی اور دوسرے تنازعات کے حل پر آمادہ ہوگا، اگر مودی سرکار کے عزائم پاکستان کو ٹریپ میں لا کر اسکی سلامتی کیخلاف اقدامات اٹھانے کے ہیں تو عساکر پاکستان اور پوری قوم دفاع وطن کا ہر تقاضا نبھانے کیلئے مکمل تیار ہے، کیونکہ ملک کی سلامتی سے زیادہ کچھ بھی عزیز نہیں ہو سکتا ہے۔پاکستان پہلے بھی برصغیر میں امن کیلئے بھارت سے بہتر تعلقات چاہتا تھا، آئندہ بھی اس سمت میں تمام ضروری اقدامات کیلئے تیار ہے، اگرنریندر مودی واقعی اپنے خط میں ظاہر کی گئی خواہش کونیک نیتی سے عملی شکل دینا چاہتے ہیں تو عمران خان کو اپنے سے دو قدم آگے پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں